اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی بھلائی کے لیے اپنی پیغمبروں کے ذریعے اپنی کتابیں اُتاریں۔پھراللہ کے پیغمبروں نے ان کتابوں میں درج شدہ اللہ کی ہدایت پر عمل کرکے لوگوںکو دکھایا۔ پیغمبروںکی نیک سیرتوں کو لوگوں کے سامنے نمونے کے طور پر پیش کیا، اور کہا کہ یہ فلاح کا راستہ ہے اسے اختیارکرو۔ قرآن کے ذرا گہرے مطالعہ سے معلوم ہوتا کہ ہر پیغمبر نے توحید کی دعوت دی۔پیغمبران اسلام کی دعوت دیتے رہے۔ اس راستے میں مشکلوں برداشت کیں۔اللہ کے راستے پر چلنے اور لوگوں کو اللہ کے راستے پر چلانے کی کوششیں کرنے والے پیغمبران کولوگوںنے تکلیفیں پہنچائیں۔ان کی بات مان کر نہیں دی۔اللہ کے راستے پر چلنے کی بجائے، اپنی خواہشات کے مطابق اپنی زندگی گزارتے رہے۔ہر دور کے پیغمبر نے عوام سے کہا کہ میری دعوت پر لبیک کہو فلاح پاﺅ گے۔کہا کہ میں امانت دار ہوں اختیارت میرے حوالے کرو۔مجھے تم سے کوئی اَجر نہیں چاہےے میرا اَجر میرے رب کے پاس ہے۔مگر اکثر لوگوں نے پیغمبران اسلام کی دعوت کی طرف دھیان نہیں دیا۔ مگراللہ تعالیٰ کے پیغمبران نے فلاح پائی اور آخرت میں وہ اور ان کی دعوت پر عمل کرنے والے اللہ کے سامنے رخ رو ہوں گے۔ پیغمبران کی بات نہ ماننے والے خسراں میں رہیں گے۔ یعنی سادہ الفاظ میں قرآن کے فلسفہ کے مطابق اللہ کے پیغمبران جیت گئے اور پیغمبران کی دعوت نہ ماننے والے عوام ہار گئے۔ ہمارے سامنے ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علی وسلم کی زندگی ہے ۔ عرب اور دنیا کے لوگ شرک میں مبتلا تھے۔ خانہ کعبہ میں تین سوساٹھ بت رکھے ہوئے تھے۔ کوئی بارش کا بت، کوئی لڑائی میں فتح دلانے والا بت، کوئی صحت کا بت، کوئی بیٹے دینے والے بت۔ان بتوں کو اللہ تک رسائی کا اختیار دیا ہوا تھا۔یعنی زمانے کی ہربرائی ان میں در آئی تھی۔ حتیٰ کہ اپنی معصوم بچیوں کے زندہ ہوتے ہی دفن کر دیتے تھے۔کبھی جانوروں کو پانی پلانے پر لڑائی چھیڑ دیتے۔ ایک دوسرے کے قبیلوں پرڈاکہ ڈال کر لوٹ مار کرتے۔ کوئی مرکزی حکومت نہیں تھی۔ پورا عرب قبائل میں بٹا ہوا تھا۔ان حالات میں اللہ نے اپنے پیغمبرحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی اصلاح کے لیے مبعوث کیا۔ آپ نے مکہ کے قریش کے سرداروں کو مخاطب ہو کر کہا کہ تم میری دعوت قبول کرو،عرب و عجم تمہارے مطیع ہوجائیں گے۔ وہ دعوت کیا تھی۔بتوں کو چھوڑ کر ایک اللہ کی عبادت کرو۔ اللہ کی طرف سے آئے ہوئے احکامات پر عمل کرو۔ سارے اصول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی اسلامی ریاست کے اندر کر کے دکھائے۔ اس کے بعد خلفائے راشدینؓ کے دور حکومت پر اس پر عمل کر کے دنیا کو دکھایا گیا۔ اس وقت کی دو سپر پاور روم اور ایران کو شکست سے دو چارکیا گیا۔ اسلامی ِنظام حکومت کے بعد خلافت ختم کر کے جبر کا بادشاہی نظام قائم کر دیا گیا۔اس کے باوجود خلافت بنو امیہ اور بنو عباس اور آخر میں ترکوں کی عثمانی خلافت نے دنیاکے غالب حصہ پر ہزار سال سے زیادہ حکومت کی۔ 1924ءتک ترک مسلمانوں کی عثمانی خلافت دنیا کے پونے چار براعظموں میں پر قائم تھی۔پھر دشمنوں نے عثمانی خلافت کو ختم کر کے اسلامی دنیا کو راجوڑوں میں تقسیم کر کے ان پر اپنے پٹھو مسلمان حکمران مسلط کر دیے۔ اس وقت برطانیہ کی وزیر دفاع نے بیان جاری کیا تھا کہ مسلمانوں کو پھر سے خلافت قائم کرنے نہیں دی جائے گی۔ مسلمان غلام بنا دیے گئے۔ ہندوستان پر محمد بن قاسم سے بہادر شاہ ظفر مغل حکمران تک ہزار سال سے زیادہ مسلمانوں کی حکومت تھی۔ انگریزوں نے تجارت کے بہانے ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔ علامہ اقبالؒ کے خواب اور قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی پر امن قانونی جنگ کے بعد 1947ءمیںپاکستان کلمہ لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر قائم ہوا۔ مگر اللہ نے بانی پاکستان قائد اعظم ؒ کو اللہ نے اپنے پاس بلا لیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے کھوٹے سکوں نے پاکستان بننے کے بعد اسلامیِ نظام حکومت قائم کرنے کے بجائے سیکولر نظام حکومت قائم کر دیا۔ سید ابو الاعلی مودودیؒ نے اور قائد اعظم کے ساتھی مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے دوسرے علماءکو ساتھ ملا کر پاکستان میں اسلامی نظام حکومت قائم کرنے کے لیے جد وجہد شروع کی۔ قید و بند اور پھانسی کی سزا تک سید مودودیؒ کو برداشت کرنے پڑی۔ سیدمودودیؒ نے ملک میں پر امن جدو جہد اور اللہ اور رسولؒ کے بتائے ہوئے راستہ پر چل کر، عام جمہوری نظام کے تحت انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے جمہوری طریقے سے اسلام نظام حکومت کا راستہ اختیار کیا۔ الیکشن میں حصہ لیتے رہے۔ اس الیکشن سے قبل جماعت اسلامی اتحادی سیاست کے تحت انتخابات میں حصہ لیتی رہی۔ پھر جماعت اسلامی کی شوریٰ نے اپنے جھنڈے اور منشور کے تحت الیکشن میں حصہ لیا۔ موجودہ انتخابات میں بھی اسی اصول کے مطابق حصہ لیا۔جماعت اسلای کے ڈپٹی سیکرٹیری کے مطابق ملک کی صوبائی اسمبلیوں میں جماعت اسلامی کو گیارہ سیٹیں جیت لی ہیں۔کراچی میں جماعت اسلامی جیت رہی تھی مگر نتائیج تبدیل کر ایم کیو ایم کو جیتوا دیا گیا۔جماعت اسلامی کی سیاست اسلامی اصولوں کے مطابق ہے۔ اس میں کوئی بھی خود کو امیدوار کے لیے پیش نہیں کر سکتا۔ شورائی نظام کے تحت اضلاح سے سفارش کے بعد الیکشن میں جانے کا فیصلہ ہوتا۔ جماعت اسلامی پیغمبروںؑ کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے عوام سے کہتی ہی کہ ہمیں عوام سے کسی اَجر کی طلب نہیں ۔ہمارا اَجر اللہ سے کو پاس محفوظ ہے۔ جماعت کے لوگ امین اوو صادق ہیں۔ اب تو سپریم کورٹ تک کہہ چکی ہے کہ اگر آئین کی شق 62.63 پر سیاستدانوں کو پرکھاجائے تو صرف جماعت اسلامی کے امیرسراج الحق ہی پورے اُتر سکتے ہیں ۔ جماعت اسلامی مورثی جماعت نہیں ۔ اس کے اندرونی انتخابات وقت پر ہوتے ہیں ۔ جماعت اسلامی کے کسی ممبر پر کرپشن کا الزام نہیں ۔جماعت اسلامی نے پورے ملک میں کرپشن فری امیدوار عوام کے سامنے پیش کیے ۔اس کے کارکنوں نے گھر جماعت اسلامی کا اسلامی منشور تقسیم کیا ۔ جماعت اسلامی کے کارکنوں نے جماعت اسلامی کا پیغام ایک ایک گھر میں پہنچا یا۔وقت پر کیمپوں پر پہنچ گئے ۔ راقم کے گھر کے بھی پورے 9افراد نے بھی صبح وقت پر پولنگ کیمپ پر ڈیوتی دینے پہنچ گئے۔ ایک طرف جھوٹے وعدے، بے ایمانی، دھونس دھاندلی اور ہر ناجائز طریقے اختیار کیے گئے۔دوسری طرف جماعت اسلامی نے کوئی بھی جھوٹاوعدہ نہیں کیا۔دیکھا جائے تو موجودہ الیکشن میں بظاہر تو جھوٹ جیت گیا اور سچ کو جھوٹ نے شکست دی۔مگر جماعت اسلامی اور اس کے کارکن پیغمبروں کی سنت پر چلتے ہوئے اللہ کے بندوں تک اللہ کا پیغام پہلے جیسے جذبے سے پیش کرتے رہے گے۔ ہار اور جیت کے قرآنی فلسفہ کے مطابق حق کی نصیحت کرنے والے جماعت اسلامی کے کارکن جیت گئے ۔ جھوٹ اور فریب کی سیاست کرنے والے ہار گئے۔جب اللہ چاہے گا اپنے بندوں کے دل اسلام کے طرف مائل کر دے گا۔ ان شاءاللہ۔