میری لیے حیران کن بات ہے کہ ملک میں تیز ترین ترقیوں کا ریکارڈ رکھنے والا واحد ادارہ پنجاب کے زندہ دلوں کے شہر لاہور کے دل مال روڈ پر موجود ہے جسکا ابھی تک کسی کو علم ہی نہیں ہوسکا حالانکہ اس ادارے کا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میںجلی حروف میں لکھا ہونا چاہیے اس ادارے کاکام پنجابی کلچر کو پرموٹ کرنا ہے مگر اس ادارہ میں ناجائز بھرتی ہونے والوں نے اس پالیسی کو اپنے اوپر لاگوں کرتے ہوئے پرموشنز کی بھر مارکررکھی ہے مجھے حیرت اس بات پربھی ہے کہ ایک پنجابن وزیراعلی محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ کی نظروں سے یہ محکمہ ابھی تک اوجھل ہے جو پنجاب کی دھرتی کی بیٹی ہے جبکہ نئے سیکریٹری اطلاعات ڈاکٹر شہنشاہ فیصل عظیم کی جہاندیدہ نظروں کی گہرائی سے بھی بچا ہواہے جو بہت حد تک اپنے محکمہ ڈی جی پی آر کو تو سمجھ ہی چکے ہیں کیونکہ ڈاکٹر ہیں بے شک نبض والے نہیں لیکن انہیں دیکھ کر دل کی دھڑکنیں ضرور تیز جاتی ہیں وہ پنجابی ہیں اور اپنی مٹی کے بارے میں بھی خوب جانتے ہیں کہ پنجاب پانچ دریاﺅں کی زرخیز دھرتی ،میٹھے پانی ،سریلی زبان ،محنتی لوگوں اور خوبصورت انسانوں کا ہمارا صوبہ مختلف اقوام، قبیلوں اور رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والوں کا گلدستہ ہے ہمارے صوبے کی منفرد ثقافت، روایات اور تہذیب و تمدن یہاں بسنے والے لوگوں کی پہچان ہے زندہ اور باشعور قومیں اپنے ثقافتی و روایاتی اقدار اور تاریخی ورثے کا تحفظ کرتی ہےں اوراپنی روایات، ثقافت،منفرد طرز زندگی کو بہتر سمجھنے اور اسے ہمیشہ زندہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں صوبے کی ادبی تاریخ میں پنجابی شعرا ءم¶رخین اور مصنفین نے صوبے کی تہذیبی،ثقافتی،تاریخی،اور روایتی ترجمانی احسن انداز سے کی ہے تمام شعرا اور ادبا نے اپنے کلام میں ہمیشہ پنجابی قوم کو ملی یگانگت،ہم آہنگی،قومی یکجہتی،بہادری،اتحاد و اتفاق اور ہر قسم کے تعصب سے بالاتر مثبت اور تعمیری سوچ کا درس دیا ہیں جن سے آج ہم دور ہوتے جارہے ہیں صوبہ میں ثقافت پروان چڑھانے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ آج کے نوجوانوں کو ان تمام تعمیری پہلو¶ں کو مد نظر رکھتے ہوئے صوبائی کلچر کی تعمیر و ترقی میں فعال کردار ادا کرنے کا بتائیں اس سلسلہ میں سکولوں سے یونیورسٹیوں تک اپنے کلچر کا تعارف کروایا جائے تاکہ معاشرے میں ہمارے صوبے کی بہترین عکاسی اور ترجمانی ہو یہ پنجاب کا ہی کلچر ہے کہ جو مہمان نوازی اور کھانوں میں سب سے آگے ہیں پنجابی مصنفین نے اپنی کتب میں رواداری ، برداشت،تحمل مزاجی،میانہ روی پر عمل کرتے ہوئے اجتماعیت کو فروغ دینے کا درس دیا ہے جو تخریبی سوچ کی نفی کرتے ہوئے ایک تعمیری معاشرے کی تشکیل کی جانب راغب کرتا ہے پنجاب کی معاشرتی زندگی اپنے جغرافیہ کی مجموعی رنگارنگی اور خوبصورتی کا نام ہے جسکے ذریعے ہمارا ماضی اور حال جڑا ہوا ہے جس کی بنیاد پر ہم اپنے مستقبل کا نیا رخ متعین کرتے ہیں ارتقائی مراحل اور ترقی کا سفر جیسے جیسے آگے بڑھتا ہے تو ماضی کی کئی چیزیں قصہ پارینہ بن جاتی ہیں اور انسان نئے معروضی حالات انسانی ضروریات اور وقت کے جدید تقاضوں کے مطابق نئی اقدار اور نئی اشیاءکو اختیار کرتے ہیں پنجابی قوم نے دنیا کی زندہ اقوام کی طرح اپنی شاندار اقدار، روایات، تہذیب اور تاریخ سے ہی اپنی قومی شناخت اور تشخص کو برقرار رکھا ہوا ہے ہماری مادری زبان ہر قومی کلچر کے دل کی دھڑکن ہے جو ماں کی لازوال محبت سے قائم ہے اس لیے ہماری ذمہ داری ہے کہ پنجاب کلچر کو تقریبات کے ذریعے اپنی سو چ اور شاندار اقدار کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کریں بقاءباہمی کے جذبہ کے تحت ضروری ہے کہ ہم آج کے گلوبل ویلیج میں ہمسائیہ اقوام، متنوع زبانوں اور ثقافتوں کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دیں بلاشبہ اپنے بھرپور ثقافتی ورثے اور شاندار اقدار کو اپناتے ہوئے ہم ایک زیادہ ہم آہنگ اور ترقی پسند معاشرے کی تعمیر کر سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ہمارے اداروں کو بھی متحرک ہونا پڑے گا بدقسمتی سے ہمارے جن ثقافتی اداروں بلخصوص الحمرا آرٹ کونسل کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے نوجوانوں کو پنجاب کی ثقافت کے ان خوبصورت پہلوں سے روشناس کروائیں اس ادارے میں لوٹ مار کا عجیب ہی سماں بندھا ہوا ہے پاکستان کا واحد ادارہ ہے جہاں پانچویں سکیل میں آنے والا چند سالوں میں ہی گریڈ 16اور 17کا افسر بن جاتا ہے جہاں چند ماہ کے لیے کنٹریکٹ پر رکھے ہوئے ملازمین کئی کئی سالوں سے اپنی ثقافت کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں شائد ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے پنجاب کی ثقافت ابھر نہیں رہی جبکہ دوسرے صوبوں میں پنجابیوں کو ثواب سمجھ کر قتل کیا جارہا ہے اسی ادارے نے اپنی ثقافت کو پروان چڑھانے والوں کی مالی مدد بھی کرنی ہوتی ہے جو ہمارے لیے قابل فخر لوگ اور ہمارے سفیر بھی ہوتے ہیں جو اس ادارے کی ناانصافیوں سے تنگ آئے ہوئے ہیں اور اپنے ہی لوگوں کو تنگ کرنے والے کہاں سے پنجاب دوست ہو سکتے ہیں حالانکہ پنجاب تو خوبصورت اور پیار کرنے والوں اور صوفیوں کا خطہ ہے جہاں ہر طرف سے بھائی چارے ،احساس اور وطن سے محبت کرنے والوں کی خوشبو ہی آتی ہے سرخ اینٹوں سے بنی الحمرا کی عمارتیں فنکارانہ عمدگی کی علامت ہیں اور دنیا بھر کے فنکاروں، موسیقاروں، مصنفین اور دیگر ثقافتی معززین کے لیے امید کی کرن الحمرا کی بنیاد 10 دسمبر 1949 کو رکھی گئی تھی یہ جدید کمپلیکس پنجاب کے سابق گورنر جنرل غلام جیلانی خان کی کوششوں اور دلچسپیوں کا مرہون منت ہے اسی کے زیر سایہ ایک اوپن ایئر تھیٹر، دو چھوٹے آڈیٹوریم اور الحمرا کلچرل کمپلیکس قذافی اسٹیڈیم ہیں الحمرا کے ہالز میں کبھی ڈرامے بھی ہوا کرتے تھے جو کذشتہ کئی عرصہ سے بند ہیں جبکہ پرائیوٹ تھیٹرز میںڈرامے پوری آب و تاب سے چل رہے ہیں لیکن پرفارمنگ آرٹ جیسے ادارے میں یہ سہولت بھی نہیں ہے اس ادارے کا ہر ملازم بھی اپنے آپ کو گریڈ 17سے کم کا افسر نہیں سمجھتااس ادارے کی میں لوٹ مار کا بازار اس حد تک گرم ہے کہ آڈٹ رپورٹ 2020-21میں اسکا تفصیل سے ذکر ہے لیکن کسی کو کوئی پراہ نہیں یہ صرف ایک ادارے کا ہی قصہ نہیں اور بھی بہت سے ہیں ۔