کالم

ہمارے پارلیمنٹیرین

taiwar hussain

حضرت علیؓ کا فرمان ہے زبان ایک درندہ ہے کہ اسے کھلا چھوڑ دیا جائے تو پھاڑ کھائے، یہ بھی آپ نے سنا ہوگا کہ پہلے تو لو پھر بولو، دو مضبوط دیواریں بناکر پیچھے دھکیل دیا ہے اور پھر ہونٹوں کی دیواریں اس پر مزید ہیں لیکن بول چال کا تعلق کیوں کہ الفاظ کی ادائیگی سے ہے اسی لئے موقع محل کی مناسبت سے بولنا اور بے مقصد بولنا دو مختلف انداز ہیں ، آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی اکثریت ہے جو بے مقصد بولنا فرض سمجھتے ہیں ، آپ چاہے ان سے کسی بات پر مشورہ مانگیں یا نہ لیکن وہ اپنی موجودگی کا احساس بھر پور انداز میں آپ کو دلاتے رہیں گے ۔ عورتیں تو زیادہ بولنے کیلئے خواہ مخوا بدنام ہیں مرد حضرات بھی کچھ کم نہیں ، جہاں چار افراد جمع ہوئے وہیں قومی اسمبلی کی طرح کے اجلاس شروع ہوجاتا ہے ،قومی اسمبلی معزز ممبران کو بے مقصد بولنے کے اخراجات مل جاتے ہیں ، ریڈیو پر بغیر تصویر کے صوتی اثرات ممبر صاحب کے سنائی دیتے ہیں اور ٹیلی ویژن کی سکرین پر تصویر اور آواز دونوں سنائی اور دکھائی دیتے ہیں ، تمام زندگی میں بے مقصد اور فضول بحث برائے بحث جھگڑے پر اختتام پذیر ہوتی ہے اور قومی اسمبلی کے فلور پر پڑھے لکھے معزز ممبران بالکل ان لوگوں کی طرح محسوس ہوتے ہیں جن کا تعلیم اور تربیت دونوں کچھ نہیں بگاڑسکیں۔چند دن پہلے قومی اسمبلی میں معزز ممبران جس طرح الھجتے رہے اور ایک دوسرے کو مارنے کیلئے اچھل اچھل کر لپکتے رہے ایسے لگا جیسے یہ ان پڑھ گنوار ہوں ۔ صرف زبانیں چل رہی تھی دماغ بالکل معطل تھا، اس ہلے گلے کے باوجود ان کو ڈیلی الاو¿نس تو ملتے رہنا ہے ، غریب قوم کا پیسہ یہ سیاستدان ہر حربے سے کھاتے رہتے ہیں ، ان صاحب عزت لوگوں میں وہ بھی ہیں جو خاموش بیٹھے تماشہ دیکھنے میں مصروف ہوتے ہیں ، نہ تین میں نہ ہی تیرہ میں ان کا شمار ہوتا ہے ، ہائبریشن سے جب نکلیں تو جمع شدہ ڈیلی الاو¿نس کی خاطر بولتے ہیں ورنہ مست ملنگ رہنے میں عافیت سمجھتے ہیں ، کبھی کھبار جب کسی پر رائے شماری کا موقع آجائے تو برابر والا ساتھی کہنی مار خواب سے بیدار کردیتا ہے کہ ہاتھ کھڑا کردیں ورنہ ”سانوں کی“ والی کیفیت طاری رہتی ہے ، بدقسمتی سے ہمارے سیاستدانوں نے غیر شائستہ غیر معیاری بے مقصد باتیں بنانے کا شاید ٹھیکہ لے رکھا ہے ، جس طرح کی گندی زبان تقریروں میں استعمال ہوتی ہے ایسا کلچر پہلے کبھی نہیںتھا ، انہوں نے یہ کبھی سوچا ہی نہیں کہ ان کی زبان سے نکلنے ہوئے الفاظ نوجوانوں کو کیا پیغام دے رہے ہیں ، ایک دوسرے کو کوستے رہنا ہر ٹیلی ویژن ، ٹاک شو میں جگ ہنسائی کا ذریعہ بنتا ہے ، ناظرین تو چینل بدلتے رہتے ہیں وہی چند چہرے ایک دوسرے پر الزمانات کی بوچھاڑ میں یہ بھول جاتے ہیں کہ سوال کیا تھا اور جواب کیا بیان ہوررہا ہے ، سوال گندم جو اب چنا والا معاملہ تو اکثر سننے اور دیکھنے کو ملتا ہے ۔ ایک دوسرے کو تھپڑ رسید کرتے ہوئے بھی دکھائی دیئے، ایک دوسرے پر اچھل اچھل کر حملہ آور ہونے کی کوشش بھی دیکھنے کو ملیں ، جواب دینے کی بجائے احتجاجاً ٹیلی ویژن پروگرام سے اٹھ کر چلنے جانا بھی آنکھوں نے دیکھا، عوامی مفاد کے سوالات کے جوابات گول کر دینے میں عافیت محسوس ہوتے ہوئے بھی دیکھتے رہتے ہیں ۔ یہ جمہوریت کے پروردہ پارلیمنٹرین کا حال ہے ، شراب شہد بناکر پیش کرنا یہ تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ، پارلیمنٹ لاجز سے شراب اور شباب کی محفلوں کی روداد جھوٹی اور بدنام کرنے کی کوشش شمار ہوتی ہیں ، شادی پر ایک اور شادی اور پھر سلسلہ شادیوں کے کوئی ڈھکی چھپی باتیں نہیں ، یہ حضرات بھول جاتے ہیں کہ عوام نے انہیں اسمبلیوں میں کیوں بھیجا ہے ، عام آدمی کے مسائل ان پر ایوان کی توجہ اور پھر مناسب حل تو دور کی بات اپنے ہی مفادات کے شامیانے گاڑنے سے فرصت نہیں ملتی ، اکثر بھول جاتے ہیں کہ ایک ایک سانس موت کی طرف بڑھ رہا ہے ، ہر شخص کی قیمت وہ ہنر ہوتا ہے جو اس شخص کے افعال اور اعمال سے طاہر ہو ، آج سیاست دانوں کی عوام کے دلوں میں جگہ نہیں بن پارہی ، اس کی بڑی وجہ دولت کمانے کی ہوس اور سستی شہرت کیلئے زبان کا بے دریغ استعمال ہے ، وقتی طور پر تو جلسے کے ناظرین اور سامعین گھٹیا جملوں اور القابات سے لطف اندوز ہوکر تالیوں کی گونج میں قہقہوں کا تڑکا بھی لگادیتے ہیں لیکن عوام کیا پیغام اور کیا سبق لے کر جاتے ہیں ، ان سیاسی راہنماو¿ں کی بلا سے ، ان کی کیفیت ان سواروں کی ماند ہوتی ہے جو سورہے ہوں لیکن زبان کا بے مقصد سفر جاری رہتا ہے ، ان کے دل و ماغ نفسیاتی خواہشات کے گرد گھومتے ہیں ، عوام تو صابرین کی جماعت بن چکے ہیں ، صبر دو طرح کا ہوتا ہے ایک ناگوار باتوں پر اور دوسرا پسندیدہ چیزوں سے صبر ، عوام بیچارے دونوں باتوں پر عمل پیرا ہیں، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ایک دفعہ حسنین کریمین سے فرمایا بیوقوف سے دوستی نہ کرنا کیونکہ تمہیں فائدہ پہنچانے کی بجائے نقصان پہنچائے گا۔ بخیل سے دوستی نہ کرنا کیونکہ وہ تمہاری ضرورت کے وقت کام نہ آئے گا، بدکردار سے دوستی نہ کرنا کیونکہ وہ تمہیں کوڑیوں کے عوض بیچ ڈالے گا، جھوٹے سے دوستی اس وجہ سے نہ کرنا کیونکہ وہ سراب کی مانند تمہارے لیے دور کی چیزوں کو قریب اور قریب کی چیزوں کو دور کرکے دکھائے گا۔ یہ حکمت کی باتیں ہیں جنہیں نصیب والے ہی پلے باندھتے ہیں ، پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے اب تک ہم یہی سنتے آرہے ہیں کہ ملک خطرات میں گھیرا ہوا ہے ، ملک کی مالی حالت بہتر نہیں ، چین ہم سے بعد میں آزاد ہوا ،نشہ کرنےوالی قوم تھی لیکن ان کی معاشی حالت اتنی بہتر ہے کہ دنیا کی معیشت میں انہوں نے اپنا کردار نمایاں کرلیا ، محنت کے ساتھ ساتھ اچھی پالیسیاں اور رہنماوں کا بے لوث کردار ان کی کامیابوں کا خاصہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri