کالم

ہم سب کا پاکستان

تعلیم کے بغیر ترقی کا کوئی تصور نہیں اور جو اس پر یقین نہیں رکھتے وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں اور جو لوگ تعلیم پر توجہ نہیں دیتے وہ ظالم لوگ ہیں بلاشبہ ان میں ہمارے حکمران بھی شامل ہیں جنہوں نے ہمارے بچوں کو تعلیم سے دور رکھ کر ملک میں جہالت کو پروان چڑھایا اسی لیے تو ہم زندہ انسانوں کو جلا کر تڑپتے ہوئے بدن کے ساتھ سیلفی بناتے ہیں آج ہم سوٹرز لینڈ،کینڈا ،سویڈن اور جاپان کی مثالیں دیتے ہیں لیکن ان جیسے کام نہیں کرتے ہمارے نبی کریم نے فرمایا تھا کہ علم حاصل کرو خواہ چین جانا پڑے جبکہ گود سے گور تک علم حاصل کرنے کا بھی ہمیں کہا گیا لیکن ہم نے تعلیم کی بجائے جہالت کا راستہ اپنا رکھا ہے بلکہ ہمارے پڑھے اکثر لوگ بھی حسد اور جلن کی وجہ سے جہالت کے سمندر میں غوطہ زن نظر آتے ہیں جو اپنے ایک پاﺅ گوشت کے لالچ میں غریب انسان کی دودھ دیتی بھینس ذبح کروا دیتے ہیں تعلیم کے ساتھ ساتھ شعور کا ہونا بھی ضروری ہے جو ہم میں نہیں ہے اور اگر پاکستان میں کوئی شخص تعلیم کے ساتھ ساتھ شعور جیسی نعمت بھی بانٹ رہا ہو تو ہم مل جل کراسکے دشمن بن جاتے ہیں اور اس کے خلاف محاذ کھول لیتے ہیں کچھ اسی طرح کا واقعہ ڈاکٹر اطہر محبوب کے ساتھ بھی پیش آیا جب وہ وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور تھے انکی کو ششوں اورکاوشوں سے تاریخ میں پہلی بار ہماری کوئی یونیورسٹی دنیا کی ٹاپ رینکنگ میں شامل ہونے جارہی تھی انکی بدولت ایک عام غریب کسان کا بچہ بھی تعلیم سے دوستی کر بیٹھا تھا اور تو اور دور دراز کے ان علاقوں کی لڑکیاں بھی یونیورسٹی کی بس پر سوار ہو کریونیورسٹی آنا شروع ہوگئی تھیں جہاں چنگ چی بھی نہیں چلتے یونیورسٹی میں طلبہ و طالبات کی تعداد ناقابل یقین حد تک بڑھ گئی یہ سب کچھ ڈاکٹر اطہر محبوب کی بدولت ہی ممکن ہوا لیکن ہم نے اس تعلیم دوست محب وطن کے ساتھ جو کیا وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں انکے خلاف سازش رچائی گئی بعد میں اس سازش کا پردہ چاک بھی ہوا لیکن ہم نے کچھ نہیں کیا گذشتہ روز ڈاکٹر اطہر محبوب لاہور تشریف لائے تو ہمارے محبوب دوست ڈاکٹر جام سجاد نے مجھے بھی ڈاکٹر صاحب کے ساتھ کھانے کی دعوت دیدی اس ملاقات میں عطاءالحق قاسمی ،ڈاکٹر اسلم ڈوگر اور شفقت حسین سمیت چند دوست اور بھی موجود تھے جہاں ڈاکٹر صاحب نے کھل کر باتیں کی ڈاکٹر اطہر محبوب ایک زندہ دل ،خوش مزاج اور خود مختار شخصیت ہیں جن کے انگ انگ سے خلوص کی خوشبو آتی ہے انکے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا اورپڑھا گیامیں نے بھی انکی خدمات پر بہت کچھ لکھ کر انہیں خراج تحسین پیش کیا ہوا ہے اب انہوں نے ایک بار پھر پنجاب یونیورسٹی اورانجینئرنگ یونیورسٹی میںبطور وی سی کےلئے اپلائی کیا ہوا ہے میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ یہ سیٹیں ڈاکٹر صاحب کےلئے بہت چھوٹی ہیں انہیں وزیر اعظم تعلیم کے حوالہ سے اپنا مشیر مقرر کریں میں دعوے سے کہتا ہوں کہ صرف دو سال میں ملک میں تعلیم کے حوالہ سے انقلابی تبدیلیاں آئیں گی ڈاکٹر اطہر محبوب کی زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند ہے جنہیں 14 اگست 2012 کو صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان نے سائنس (انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی) میں ان کی خدمات کی بنیاد پر تمغہ امتیاز (TI) کے سول ایوارڈ سے بھی نوازا تھا ڈاکٹر اطہرمحبوب 13 جنوری 1971 کو کراچی میں پیدا ہوئے انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم لندن کے اسٹوک نیونگٹن اسکول سے حاصل کی جبکہ ان کے والد برطانیہ میں پاکستانی سفارت خانے میں ایئر اتاشی کے طور پر تعینات تھے۔
ڈاکٹر اطہرمحبوب نے اپنی مڈل اسکول کی تعلیم پاکستان ایئر فورس کے مختلف اداروں جیسے پی اے ایف ماڈل اسکول ڈرگ روڈ، پی اے ایف ماڈل اسکول، بڈھ بیر اور پی اے ایف ڈگری کالج پشاور میں حاصل کی سیکنڈری اسکول سرٹیفکیٹ حیدرآباد بورڈ سے لیا اور پھر کیڈٹ کالج پیٹارو میں تین سال (1983-1986) تک تعلیم حاصل کی ڈاکٹر اطہرمحبوب نے 1990 کی دہائی میں فلوریڈا اسٹیٹ یونیورسٹی، ٹلہاسی، USA سے انڈر گریجویٹ اور ماسٹر کی ڈگریاں حاصل کیں 1996 میں وہ اپنے ملک کی خدمت کے لیے واپس آئے اور سر سید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کراچی میں اسسٹنٹ پروفیسر کام شروع کیا 2006 میں انہوں نے نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی (NUST) پاکستان میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر شمولیت اختیار کی ڈاکٹر اطہرمحبوب 2005 میں ابن خلدون سسٹمز کے صدر اور سی ای او بنے اور 10 سال تک خدمات انجام دیں ابن خلدون سسٹمز کے صدر اور سی ای او کے طور پر انہوں نے 50 سے زیادہ صنعتی منصوبوں کا کامیابی سے انتظام کیا اپریل 2012 میں وہ الیکٹریکل انجینئرنگ کے پروفیسر اور بعد ازاں ڈی ایچ اے صفا یونیورسٹی کراچی میں ڈین مقرر ہوئے جہاں انہوں نے الیکٹریکل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کی بنیاد رکھی اور نصاب بھی ڈیزائن کیا اور پاکستان انجینئرنگ کونسل (PEC) کے ساتھ ایکریڈیٹیشن کے عمل کا انتظام کیا 2015 میں وہ خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی رحیم یار خان کے وائس چانسلر بنے۔ ان کی قیادت میں 140 سے زائد کلاس رومز اور لیبارٹریز پر مشتمل تقریباً 1 ملین مربع فٹ پر 200 فیکلٹی دفاترز بنائے اور تعلیمی پروگراموں کی تعداد بڑھا کر 65 تک کردی اسکے بعد اسلامیہ یونیورسٹی میں انکے کارناموں کی ایک لمبی فہرصت ہے اور انہی کی قیادت میں اسلامیہ یونیورسٹی دنیا کی 100 بہترین یونیورسٹیوں میں شمار ہونے لگی تھی ڈاکٹر اطہرمحبوب کے بین الاقوامی جرائد اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں 50 سے زائد تحقیقی مقالے شائع ہو چکے ہیںپروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب نے ہی طلبہ و طالبات کو مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کرنے کےلئے سٹوڈنٹس سوسائٹیز اور سٹوڈنٹس کلبز کا تصور دیا انہوں نے نئے سنٹرز بنائے،نئے ڈائریکٹوریٹس بنائے اور اساتذہ کی تعداد چھ سو سے بڑھا کر 1800 کردی جسکے بعد ملازمین کی تعداد پانچ ہزار تک جاپہنچی آپ جان کر حیران ہونگے وہ یونیورسٹی جو 2019 میں صرف ریکرنگ گرانٹ پہ چل رہی تھی وہ اپنے وسائل کی بدولت اپنے پاو¿ں پہ کھڑی ہوگئی اور سب سے بڑا کارنامہ یہ انجام دیا کہ جنوبی پنجاب کی روٹھی ہوئی ثقافت کو دوبارہ اجاگر کیا جامعہ کے بے نام آڈیٹوریم کو خطہ جنوبی پنجاب کے عظیم الشان صوفی شاعر جناب خواجہ غلام فرید کے نام سے موسوم کیا انہوں نے ملک بھر سے میڈیا کے دوستوں کو مدعوع کیا اور جامعہ اسلامیہ کا دنیا بھر میں تشخص اجاگرکیا یقیناً پروفیسر صاحب کی مثبت سرگرمیوں کی بدولت اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور عالمی اور قومی فرجہ بندی میں سینکڑوں درجے اوپر آگئی یہ ترقی وہاں کے پر موجود دشمنوں اور حاسدوں کو پسند نہ آئی شومئی قسمت! حاسدین اور شر پسند عناصر نے ایک جھوٹا سکینڈل گھڑا جھوٹ پر مبنی ایک بیانیہ بنایا گیا اور سوشل میڈیا کی آڑ لے کر پوری دنیا میں اس عظیم تعلیمی درسگاہ کو بدنام کیا گیا اورافسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے حکومتی ادارے اس مہم کا حصہ بنے رہے اور اس مہم کے ہینڈلر آج بھی اپنے عہدوں پر براجمان ہیں پاکستان میں اس وقت بہت کم ایسے لوگ ہیں جو ملک کو اندھیروں سے نکال کر روشنیوں کی طرف لے جانا چاہتے ہیں ان میں وفاقی محتسب اعجاز قریشی ،ڈاکٹر انعام الحق جاوید ،وفاقی سیکریٹری تعلیم محی الدین وانی ،سیکریٹری صوبائی محتسب طاہر رضاءہمدانی ،سیکریٹری معدنیات بابر امان بابر سمیت چند اور لوگ جو انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں اور صدیوں بعد پیداہوتے ہیں اور ان کے راستے میں بھی ڈاکٹر اطہر محبوب کی طرح کانٹے بچھائے ہوئے ہیں جن کی چبھن یہ لوگ محسوس کرتے ہیں لیکن اسکے باوجود زخمی پاﺅں کے ساتھ انہوں نے اپنا سفر جاری رکھا ہوا ہے شائد انہی لوگوں کی وجہ سے پاکستان میں بہتری کی امید نظر آتی ہے ہمیں ایسے لوگوں کی قدر کرنی چاہیے یہ صرف ان لوگوں کا ہی پاکستان نہیں ہمارا بھی ملک ہے اگر یہ نہ ہوتے تو ہم لوگ آج ایتھوپیا کی جگہ پہلے نمبر پر ہوتے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے