کالم

ینون پلان

دی ینون پلان، جسے 1980 کی دہائی میں اسرائیل کے لیے ینون پلان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ایک اسٹریٹجک تجویز ہے جسے 1980 کی دہائی کے اوائل میں اسرائیلی صحافی اوڈید ینن نے تیار کیا تھا۔ اس منصوبے میں مشرق وسطیٰ کے سیاسی منظر نامے کو نئی شکل دینے کے لیے اسرائیل کے وژن کا خاکہ پیش کیا گیا ہے تاکہ خطے میں اپنی سلامتی اور تسلط کو یقینی بنایا جا سکے۔ ینون پلان اس خیال پر مبنی ہے کہ مشرق وسطیٰ کو نسلی اور مذہبی گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے جو فطری طور پر ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ ینون کے مطابق یہ تقسیم خطے میں عدم استحکام اور تنازعات کا باعث ہیں اور اسرائیل اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے ان کا استحصال کر سکتا ہے۔ ینون پلان کے مرکزی اصولوں میں سے ایک یہ خیال ہے کہ عرب ممالک فطری طور پر کمزور اور منقسم ہیں اور اسرائیل ان تقسیم کا فائدہ اٹھا کر خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا سکتا ہے۔ اس منصوبے میں بڑی عرب ریاستوں کو چھوٹے، کمزور اداروں میں تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جو زیادہ آسانی سے اسرائیل کے کنٹرول میں ہیں۔ عرب ریاستوں کے ٹکڑے کرنے کی وکالت کرنے کے علاوہ، ینون پلان ایک عظیم تر اسرائیل کے قیام کا بھی مطالبہ کرتا ہے جس میں تمام تاریخی فلسطین کے ساتھ ساتھ پڑوسی عرب ممالک کے کچھ حصے شامل ہوں۔ اس میں مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی سے فلسطینی آبادی کو بے دخل کرنا اور ان علاقوں کا اسرائیل کے ساتھ الحاق شامل ہے۔ ینون منصوبہ انتہائی متنازع رہا ہے، ناقدین اسرائیل پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ مشرق وسطی میں نسلی تطہیر اور علاقائی توسیع کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس منصوبے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک دشمن خطے میں اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔یہ پلان کا مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی خارجہ پالیسی پر خاصا اثر پڑا ہے۔ مثال کے طور پر، 1982 میں لبنان پر اسرائیل کے حملے کو اس منصوبے پر عمل درآمد کی جانب ایک قدم کے طور پر دیکھا گیا، کیونکہ اس نے لبنانی ریاست کو کمزور کیا اور خطے میں طاقت کا خلا پیدا کرنے میں مدد کی جس کا اسرائیل فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ حالیہ برسوں میں، ینون پلان کو مشرق وسطی میں اسرائیلی پالیسی کے ناقدین نے اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم اور فلسطینی عوام کے حقوق کو نظر انداز کرنے کے ثبوت کے طور پر حوالہ دیا ہے۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جاری تنازعات کے ساتھ ساتھ شام جیسے پڑوسی ممالک میں اسرائیل کی مداخلتوں کو ینون پلان کے اہداف کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک وسیع حکمت عملی کے حصے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ مجموعی طور پریہ منصوبہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے کردار کے لیے ایک متنازعہ اور تفرقہ انگیز وژن کی نمائندگی کرتا ہے۔ کچھ لوگ اسے ایک دشمن خطے میں اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے ایک ضروری حکمت عملی کے طور پر دیکھتے ہیں، دوسرے اسے ایک خطرناک اور جارحانہ پالیسی کے طور پر دیکھتے ہیں جس سے مشرق وسطی کے استحکام اور سالمیت کو خطرہ ہے۔ ینون پلان کی وراثت آج تک اسرائیل کی خارجہ پالیسی اور خطے میں تعلقات کو تشکیل دے رہی ہے۔ لبنان کی خانہ جنگی کے دوران اسرائیل نے تمام مزہبی گروہوں کو مہارت سے ایک دوسرے کیخلاف استعمال کیا۔ امریکی صدر جارج بش کے اردگرد دانشوروں نے اسے بہت سنجیدہ لیا۔ عراق پر بمباری اور اسے ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے لئے وہاں پر پہلے کردوں کو استعمال کیا گیا اور پھر فرقہ وارانہ فسادات کروائے گئے۔ جولانی کی حکومت کو اکثر لوگوں نے اسرائیلی ایجنٹ کہا۔ لیکن حقیقت یہ یے کہ اسرائیل کے لئے کوئی بھی شخص، گروہ یا حکومت ایک وقتی مہرے سے زیادہ اہم نہیں۔ ان کا مقصد پورے خطے کو غزہ میں تبدیل کرنا ہے تاکہ مزاحمت کی گنجائش ہی ختم ہوجائے۔ یاد رہے کہ جس طرح ابھی دروزکے نام پر شام پر بمباری ہورہی ہے، پچھلے ماہ عورتوں کے حقوق کے نام پر ایران پر بمباری کی گئی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ دشمن ایک واضح حکمت عملی کے ساتھ پوری مسلم دنیا کو تباہ کررہا ہے لیکن ہمارے لوگ کبھی اس لڑائی میں اپنے فرقے کو تلاش کررہے ہوتے ہیں یا پھر لبرل بیوقوفی کی حدیں پار کرکے انسانی حقوق کا واویلا مچانا شروع کردیتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں ہم اسرائیل کے کھیل کو سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں۔سامراج کی اس حکمت عملی کے بعد یہ بات طے ہے کہ جو بھی تحریک اپنی شناخت سے آگے نہیں بڑھے گی اور کھل کر امریکی سامراج کی مخالفت نہیں کرے گی، وہ دانستہ یا نا دانستہ طور پر سامراج کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ کردوں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جرمن فلسفی ہیگل اسے cunning of history کہتا تھا کہ لوگ اپنے شعور میں انسانی حقوق یا کسی بڑے مقصد کے لئے لڑرہے ہوتے ہیں لیکن کیونکہ وہ تاریخ کی سمت اور عالمی صورتحال کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں، اس لئے ان کی حیثیت بڑے کھیل میں معمولی سے پیادے کی ہوتی یے۔ اس لئے اپنی چھوٹی شناخت کے اردگرد سیاست کرنے کے بجائے خطے کے تمام مظلوموں کو انصاف کے عالمگیر اصولوں کے تحت جوڑنا وقت کی ضرورت ہے۔ ورنہ ایک طرف ہماری پاس ریاستی جبر رہ جائے گا اور دوسری جانب لسانی دہشت گردی کے واقعات جس کی ایک اور بھیانک مثال قلات میں موسیقاروں پر دہشت گرد حملوں میں ہمیں نظر آئی۔ تاریخ نے ہم پر حالات کا صحیح جائزہ لینے کی ذمہ داری سونپی ہے تاکہ استعماری قوتوں کی چالوں کے جواب میں حکمت عملی بنائی جاسکے۔ لیکن ہم کبھی فرقے اور کبھی لسانی بنادوں پر تقسیم ہورہے ہیں جبکہ ہماری ریاست سوشل میڈیا پر تنقید کرنے والے بزرگوں اور نوجوانوں پر تشدد کرنے پر مصروف ہے۔ اگر ہم نے سمت درست نہیں کی تو Yinon Plan کامیاب ہوجائے گا اور بدترین غلامی ہماری آنے والی نسلوں کا مقدر بنے گی۔ Druze کی بڑی تعداد اسرائیل میں بھی موجود ہے اور اسرائیل نے اسی گروہ کے انسانی حقوق کے تحفظ کے نام پر نہ صرف جنوبی شام میں بمباری کی بلکہ دمشق پر بھی بمباری شروع کردی۔ اطلاعات کے مطابق شام کے عسکری ہیڈ کوارٹر کو بھی اسرائیل نے بمباری میں اڑا دیا ہے۔ شام پر اسرائیل کی بمباری، خاص طور پر ڈروز کمیونٹی کو نشانہ بنانا، مشرق وسطی میں تقسیم اور افراتفری پھیلانے کی ایک بڑی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ ینون منصوبہ، جو خطے میں مذہبی، قومی، قبائلی، فرقہ وارانہ اور لسانی تقسیم کے استحصال کی وکالت کرتا ہے، اس حکمت عملی کا ایک اہم جزو ہے۔ تنازعات کو ہوا دے کر اور حکومتوں کو غیر مستحکم کر کے، اسرائیل اور امریکہ کا مقصد خطے پر اپنا تسلط اور کنٹرول برقرار رکھنا ہے۔ یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ مشرق وسطی میں اسرائیل اور امریکہ کے مفادات نظریات سے نہیں بلکہ طاقت اور کنٹرول کی خواہش سے چلتے ہیں۔ شام پر بمباری اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے کام کرتی ہے، قطع نظر اس کے کہ شامی عوام اور پورے خطے کے لیے اس کے نتائج کیا ہوں۔ اس تباہ کن حکمت عملی کا مقابلہ کرنے کے لیے مشرق وسطی کے ممالک کے لیے یکجہتی اور اتحاد کے ساتھ اکٹھا ہونا بہت ضروری ہے۔ تقسیم کی مزاحمت کرکے اور انتشار اور تباہی کے بیج بونے کی کوشش کرنے والی بیرونی طاقتوں کے خلاف اکٹھے کھڑے ہوکر یہ خطہ اپنے تمام لوگوں کے لیے ایک مضبوط اور مستحکم مستقبل بنا سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے