کالم

یوم یتامیٰ اور مسلم امہ

riaz chu

اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی(آرگنائزیشن آف اسلامک کو آپریشن) نے دسمبر2013ءمیں پہلی بار تمام اسلامی ملکوں میں 15 رمضان کو یتیم بچوں کے دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا جسے دنیا بھر میںیتیموں کی دیکھ بھال کےلئے کام کرنے والے اداروں اور تنظیموں نے سراہا اور اس پر عمل کیا۔اسی سلسلے میں پاکستان میںیتیموں کی فلاح و بہبود کےلئے کام کرنے والے سبھی اداروں کے سربراہان نے پاکستان آرفن کیئر فورم تشکیل دیا گیا تاکہ ہر سال زیادہ بڑے پیمانے پر پوری امت مسلمہ کے ساتھ مل کر پاکستان میں بھی ان مظلوم اور بے سہارا یتیم بچوں کے ساتھ 15 رمضان المبارک کویک جہتی کے دن کے طور پر منایا جا سکے۔سینیٹ میں لاوارث و یتیم بچوں کی کفالت، بحالی وفلاح اور ہر سال15 رمضان المبارک کو لاوارث و یتیم بچوں کا دن منانے کا بل 20 مئی 2016ءکو متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا ہے اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ 15رمضان المبارک کو ملک بھر میں ”یوم یتامیٰ“ منا یا جائے گا۔یہ حقیقت ہے کہ یتیم بچوں نے بھی اپنی ہمت سے وہ کارنامے سر انجام دئیے ہیں کہ عقل حیران رہ جائے۔اس کی سب سے اہم مثال ہمارے پیارے نبی محمد کی ہے ۔ ان کی زندگی ہمارے لیے نمونہ ہے۔ جس بچے نے یتیمی میں پرورش پائی۔ اس باہمت بچے کو حکم ملا کہ اپنے خاندان ،قبیلے،ملک ہی نہیں ساری دنیا تک اللہ کی وحدانیت کا پیغام پہنچایا جائے اور پھر دنیا نے دیکھاکہ اس یتیم کے ذکر ویاد کا یہ عالم ہے کہ جس کی مثال مل ہی نہیں سکتی۔ اِسلام نے جن اعمال کو بہت واضح طور پر صالح اعمال قرار دیا ہے ان میں یتیمو ں اور مسکینوںکی مدد کو ترجیح دی گئی ہے۔اللہ تعالی نے حقیقی نیکی کے بارے میں فرمایا ہے کہ ”نیکی کا اصل مزاج یہ نہیں کہ تم اپنے رخ مشرق یا مغرب کی طرف کرلو بلکہ نیکی کی اصل سے آشنا وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ، روزِ آخر، فرشتوں، اللہ تعالیٰ کی کتاب، اور سارے پیغمبروں پر ایمان لائے اور حقیقی محبت کی بنیاد پر اپنا مال قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، راہ نشینوں، مانگنے والوں اور بندھنوں میں جکڑے ہوئے لوگوں پر خرچ کرلے اور نماز قائم رکھے اور زکوٰة ادا کرتا رہے اور وہ لوگ جو کوئی صحیح عہد کرلیں تو اسے پورا کرتے ہیں جو مشکل، تنگی، تکلیف اور معرکہ جنگ میں جہاد کے وقت ثابت قدم رہتے ہیں یہی لوگ ہیں بااخلاص اور سچے اور یہی لوگ پرہیزگار ہیں“۔حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا”میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا شخص جنت میں اِس طرح ہوں گے۔ اور (آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ) اپنی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی سے اشارہ کیا اور دونوں کے درمیان کچھ فاصلہ رکھا۔“اس وقت پاکستان میں تقریباً 42لاکھ بچے یتیم ہیں۔یہ خاصی بڑی تعداد ہے۔زلزلے ،قدرتی آفات ،جنگ اور دہشت گردی کے واقعات نے اس تعداد میں خاصا اضافہ کیا ہے۔ یہ مسئلہ اس سے کئی گنا زیادہ سنگین ہے ، جتنا کہ لوگ اس کے بارے میں جانتے ہیں۔ان معصوم بچوں کے جذبات و احساسات کو کیسے کچلا جاتا ہے۔وہ نفسیاتی مریض بن کر رہ جاتے ہیں۔سکول جاتے بچوں کو جب وہ دیکھتے ہیں ان کے اندر کیسی قیامت گزر جاتی ہو گئی اس کا تصور کریں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔کھیلنے کی عمر میں ان کو ورکشاپوں ،ہوٹلوں ،دکانوںپر کام کرنا پرتا ہے۔ہم کو سوچنا چاہئے ،ہمارے بچے بھی کل یتیم ہو سکتے ہیں۔ہمیں اپنے ارد گرد نظر دوڑانی چاہئے۔ہم ایسا ذرا کر کے دیکھیںتو ہمیں اپنے ارد گرد بچے بدترین حال میں نظر آئیں گے۔ پاکستان میں بیسوں ملکی اور بین الاقوامی فلاحی ادارے یتیم بچوں کی کفالت و فلاح و بہبود کے لئے خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔اِن میں سے کچھ ادارے یتیم بچوں کی کفالت کے لئے گھروں کی تعمیر (یتیم خانے)کے منصوبوں پر کام کر رہی ہے اور کچھ ادارے ملک بھر میں یتیم بچوں کی کفالت کا اہتمام ان کے گھروں پرکررہے ہیں۔ ا س وقت بھی دنیا بھر کے لاوارث بچوں کو لاکھوں کی تعداد میں ترغیب دے کر جنسی جرائم کی دنیا میں جس طرح دھکیلا جا رہا ہے اور انسانی منڈیوں میں بیچا جا رہا ہے اس کی خبروں سے نہیں ،صرف تصور ہی سے روح کانپ اٹھتی ہے۔اس کا روشن رخ یہ ہے کہ پیارے نبی نے ہمیں بتایا ہے کہ یتیم بچے کسی اور کی نہیں میری اور آپ کی ذمہ داری ہیں۔یہ ہمارا خوش گوار ”آج “بھی ہیں اور یہی بچے ہمارا خوش گوار ”کل“ بھی ہیں۔اللہ سے جڑنے اور اسکی خوشنودی کا سیدھا اور آسان راستہ ہیں۔رمضان المبارک کے مہینے میں تو سب ہی زیادہ سے زیادہ کارِ خیر کرنے اور اللہ پاک کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ہمارے ہی معاشرے میںکچھ افراد اور ادارےایسی بھی ہیں ، جو سارا سال خلقِ خدا کی مدد کرکے اپنی آخرت سنوارنے میں مصروف رہتے ہیں۔ویسے ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ جب بھی یتیموں کی بات کی جاتی ہے، تو ذہن میں یتیم خانوں ہی کا تصوّر ا±بھرتا ہے، لیکن ہمارے ارد گِردایسے یتیم بچّوں کی کمی نہیں ہے، جن کے سَروں پر چھت اورماں کا آنچل تو ہے، مگر انہیں دو وقت کی روٹی یا تعلیم میّسر نہیں۔میری دلی آرزو ہے کہ ایسے افراد جن کو اللہ تعالیٰ نے مالی آسودگی دی ہوئی ہے، آگے آئیں او ریتیموں کی کفالت کریں۔ دودو چار چار بچوں کی تعلیم اور تربیت کا ذمہ اٹھائیں تاکہ اپنے وطن میں یتیم بچوں کی اتنی بڑی تعداد کو اس معاشرے کا کار آمد شہری اور فرد بنانے میں اپنا کردار ادا کیا جا سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے