اداریہ کالم

یوم یکجہتی کشمیر،عالمی برادری کی مجرمانہ چشم پوشی

آج 5فروری ،پوری قوم کراچی سے خیبر تک بھارت کے غیر قانونی تسلط کےخلاف برسرپیکار کشمیریوں سے بھرپور یکجہتی کےلئے” یوم یکجہتی کشمیر“ کا دن منا رہی ہے۔ پاکستان کے عوام ہر سال یوم یکجہتی کشمیر روایتی جوش و جذبے سے مناتے ہیں اور دل کھول کر کشمیریوں کےساتھ سیاسی و سفارتی حمایت کا عزم کرتے ہیں۔پاکستان بھر میں یوم یکجہتی کشمیر پہلی بار 1990میں سرکاری سطح پر منایا گیا جو اب ایک قومی دن کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔پاکستان نے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی ہمیشہ سیاسی، اخلاقی اور سفارتی سطح پر بھرپور حمایت کی ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔پاکستان کا یہ اصولی موقف ہے کہ مسئلہ کشمیر کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت حل طلب ہے اس پر بھارتی ناجائز قبضہ کسی صور منظور نہیں ہے۔پاکستان بھارت کے غیر قانونی طور پر زیر تسلط جموں و کشمیر کے آزادی پسند عوام کی جائز جدوجہد کی طویل عرصہ سے حمایت کرتا آرہا ہے، جو اس بات کا مظہر ہے کہ پاکستان میں حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود مسئلہ کشمیر پر پوری قوم کا موقف ایک ہے۔ بھارت نے1947میں جموں وکشمیر پر ناجائز فوجی تسلط قائم کرکے کشمیری عوام کو محکوم بنایا اور وہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیریوں کو ان کا جائز حق خودارادیت دینے سے گریزاں ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 13 اگست 1948اور 5جنوری 1949کو اپنی قراردادوں میں کشمیری عوام سے وعدہ کیا تھا کہ انہیں رائے شماری کا موقع دیا جائے گا۔بھارت طویل عرصہ گزرنے کے باوجود کشمیریوں اور عالمی برادری کی خواہشات کا احترام کرنے میں ناکام رہا ہے۔ مسئلہ کشمیر کا واحد، دیرپا اور مستقل حل صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے سے ہی ممکن ہے ۔کشمیری عوام بھارت کے تمام ترحربوںکے باوجود حق خود ارادیت کے حصول تک جدوجہدجاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں، پون صدی سے حل طلب مسئلہ جہاں بھارت ذمہ دار ہے وہاں عالمی برادری کی چشم پوشی بھی برابر کی ذمہ دار ہے۔ بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل اور بے دریغ پامالیاں جاری ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کرہ ارض کا وہ واحد خطہ ہے جہاں محض چند ہزار مربع میل علاقے میں کم و بیش نولاکھ سے زائد بھارتی قابض فوجی تعینات ہیں جو ناجائز فوجی تسلط کو جاری رکھنے کےلئے اپنے تمام وسائل کو استعمال کررہے ہیں۔ بھارتی کشمیر پالیسی ظلم و ستم، ہٹ دھرمی اور جھوٹ پر مبنی ہے جو اسکی نام نہاد جمہوریت کی یکسر نفی کرتی ہے۔ بھارت خطے میں بالادست قوت بننے کے خواب ضرور دیکھ رہا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان نے اور نہ ہی کشمیریوں نے اس بالادستی کوقبول نہیں کیا۔5اگست 2019کو مقبوضہ کشمیرکوخصوصی حیثیت دینے والے بھارتی آئین کے آرٹیکل370 اور35اے کے خاتمے کے بعد بھارت کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب کو تیزی سے تبدیل کررہا ہے۔مودی حکومت کے5اگست 2019 کے غیر قانونی اقدام کے بعد مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں افراد کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالا گیا، حریت کانفرنس کی پوری قیادت اور آزادی پسند کارکنوں کو فرضی مقدمات میں جیلوں، عقوبت خانوں اور گھروں میں نظربند کیا گیا۔ موجودہ حکمرانوں خاص طور پر مودی کی جارحانہ پالیسی اور اقدامات نے خطہ کو سنگین خطرات سے دوچار کردیا ہے۔ بھارت کشمیر میں ہندوتوا کی پالیسی پر عمل پیرا ہو کر مقبوضہ علاقہ میں نوجوانوں کا قتل عام کررہا ہے۔کشمیریوں کی حق خود ارادیت کے حصول کیلئے جدوجہد کسی کے زیر اثر یا تابع نہیں ہے بلکہ وہ بھارت کے غیر قانونی فوجی تسلط کے خلاف اپنی جدوجہد خود چلارہے ہیں، بھارت کے ان استبدادی ہتھکنڈوں اور ریاستی دہشت گردی کے باوجود کشمیر کے عوام اپنی مبنی بر حق جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ پاکستان اور دنیا بھر میں رہنے والے پاکستانی 5 فروری کو کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا دن اس عہد کے ساتھ منا رہے ہیں کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پاس کردہ قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کی جائز جدوجہد کی ہر قیمت پر حمایت جاری رکھی جائے گی۔ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود سب سے پرانا تنازعہ ہے، کشمیر میں ہزاروں افراد کالے قوانین کے تحت مقدمات کا سامنا کررہے ہیں ۔ کشمیری عوام کا یہ عزم ہے کہ وہ بھارتی گھنا ﺅنے اقدامات کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے جبکہ یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر پاکستان اس بات کا تجدید عہد کرے گا کہ وہ کشمیریوں کی جائز اور مبنی بر صداقت جدوجہد آزادی کا ساتھ دیتا رہے گا۔
پاک یو اے ای تعلقات
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ سے متحدہ عرب امارات کے وزیر تجارت ڈاکٹر ثانی بن احمد الزیودی نے ملاقات کی۔نگران وزیراعظم نے متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے نگران وزیراعظم نے کہا کہ متحدہ عرب امارات اور پاکستان کے مابین دیرینہ برادرانہ تعلقات ہیں جو کہ وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہو رہے ہیں، معاشی اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں متحدہ عرب امارات کی جانب سے پاکستان کےلئے بھرپور تعاون کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے میرے حالیہ دورے کے دوران دونوں ممالک کے درمیان مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط ہوئے جس سے پاک متحدہ عرب امارات اقتصادی شراکت داری کے نئے دور کا آغاز ہوگا ۔ پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے گزشتہ پانچ دہائیوں سے قریبی برادرانہ تعلقات ہیں جو مشترکہ اقدار اور ثقافت سے جڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان متحدہ عرب امارات کے ساتھ مشترکہ مفاد کے تمام شعبوں میں اپنے تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کیلئے پرعزم ہے۔دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت کو موجودہ سطح سے مزید بڑھایا جا سکتا ہے۔ متحدہ عرب امارات میں بسنے والے پاکستانی ایک اثاثہ ہیں جو دونوں ممالک کی ترقی میں اہم کردار اداکر رہے ہیں ۔دونوں ممالک کے درمیان قابل تجدید توانائی، تجارتی، صنعتی، بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے شعبوں میں تعاون کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ متحدہ عرب امارات مشرق وسطی میں پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار اور سرمایہ کاری کا ایک بڑا ذریعہ ہے، دونوں ممالک کے درمیان ابھی بھی معاشی تعاون کی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے۔ یو اے ای نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کی معاشی معاونت کی ہے جو قابل تحسین ہے۔
بجلی مزیدمہنگی
نگران حکومت نے عجیب تماشا لگایا ہواہے ،اس حکومت کے چنددن باقی ہیں جبکہ وہ جاتے جاتے عوام پرمہنگائی کے بم گرارہی ہے ۔حکومت نے ایک بار پھر عوام پر بجلی گراتے ہوئے قیمت میں بڑا اضافہ کر دیا۔نیپرا اتھارٹی نے اپنا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا جس کے مطابق نگران حکومت کی جانب سے بجلی کی قیمتوں میں 4 روپے 56 پیسے فی یونٹ کا اضافہ کیا گیا ہے۔نیپرا کے مطابق قیمتوں میں اضافہ دسمبر کی ماہانہ فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا گیا ہے جبکہ قیمتوں کا اطلاق صرف ایک ماہ کے لیے ہو گا۔ بجلی مہنگی ہونے سے صارفین پر 39ارب 80کروڑ روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا جبکہ اضافے کا اطلاق کے الیکٹرک اور لائف لائن صارفین پر نہیں ہو گا۔ بجلی صارفین کو فروری کے بلوں میں اضافی ادائیگیاں کرنا ہوں گی۔واضح رہے کہ پہلے بھی نومبر کی ماہانہ ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی 4.13روپے فی یونٹ مہنگی کی گئی تھی۔دوسری جانب ادارہ شماریات کی جانب سے جاری اعداد وشمار کے مطابق ملک میں مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثر 22 ہزار 889 روپے سے 29 ہزار 517روپے ماہانہ آمدنی کا حامل طبقہ زیادہ متاثر ہوا اور مذکورہ طبقے کے لیے مہنگائی کی شرح 43.58 فیصد رہی۔ ایک ہفتے کے دوران 12 اشیا کی قیمتوں میں اضافہ جبکہ 17کی قیمتوں میں کمی ہوئی اور 22 اشیائے ضروریہ کی قیمتیں مستحکم رہی ہیں۔ حالیہ ایک ہفتے کے دوران چکن، پٹرول، ڈیزل، گوشت سمیت کئی اشیا مہنگی ہوئیں۔ مہنگائی نے غریبوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے ۔ لوگ دہائیاں دے رہے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ اس مہنگائی کے عذاب سے ان کی جان جب چھوٹے گی۔ قیمتوں میں اضافہ ہر روز ہونے لگا ہے ،غریبوں کودو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہوگیاہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے