کالم

یو پی میں مدرسہ قانون کا خاتمہ

بھارتی ریاست اتر پردیش کی الٰہ باد ہائی کورٹ نے اتر پردیش بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004 کو سیکولرزم کے خلاف غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسے سیکولرزم کے پرنسپلز کے منافی بھی قرار دے دیا جبکہ اترپردیش کی حکومت کو احکامات دیے کہ مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباءکو متبادل اسکیم کے لیے اقدامات کرے۔اس سے قبل لکھنو¿ بینچ نے بھی اس حوالے سے حکم جاری کیا تھا کہ یہ قانون الٹرا وائرز ہے۔یہ احکامات ریاستی حکومت کے سروے کے چند ماہ بعد سامنے آئے ہیں، اس سروے میں اسلامک ایجوکیشن اداروں کے حوالے سے جانچ پڑتال کی گئی تھی، جبکہ ان کی غیر ملکی فنڈنگ سے متعلق بھی پوچھ گچھ کی گئی تھی۔اس سے قبل بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے ریاست آسام میں 89 سال پرانے مسلم شادی کے قانون کو ختم کر دیا گیا ہے, ریاست میں نئے قانون کو لایا جائے گا۔اتر پردیش کی یوگی حکومت نے جب ریاست میں پھیلے مدارس کے سروے کاحکم دیا تھا تو اس وقت بڑے پیمانے پر اعتراض کیا گیا تھا اور اسے بی جے پی حکومت کے ذریعہ مدارس کو بند کرنے کی سازش کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا تھا۔مگر حکومت نے اس وقت وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ سروے محض مدارس کے معیار کو بہتر کرنے اور بچوں کی تعلیمی سہولت فراہم کرانے کےلئے کیا جا رہا ہے۔لیکن مدارس کے خلاف سازش کا خدشہ اب درست ثابت ہو رہا ہے۔ یو پی حکومت نے مدارس کے خلاف بد نیتی کے تحت سروے کرائے اور اب تقریباً 13 ہزار مدارس پر تالا لگانے کے اقدامات کئے جا سکتے ہیں۔اتر پردیش میں تقریباً 13 ہزار مدارس کو غیر قانونی بتاتے ہوئے ایس آئی ٹی نے اتر پردیش حکومت سے انہیں بند کرنے کی سفارش کی ہے۔ ایس آئی ٹی نے ان مدارس کی جانچ کے بعد یہ سفارش کی ہے۔ان میں سے زیادہ تر مدرسے نیپال کی سرحد پر واقع ہیں۔ یہ 13 ہزار مدارس نیپال کی سرحد سے متصل شراوستی، بہرائچ اور مہاراج گنج سمیت 7 اضلاع میں ہیں۔ نیپال کی سرحد سے متصل ان اضلاع میں ایسے 500 سے زیادہ مدارس ہیں جو غیر قانونی ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ تحقیقات کے دوران جب ایس آئی ٹی نے ان مدارس سے آمدنی اور اخراجات کی تفصیلات مانگی تو وہ فراہم نہیں کر سکے۔یوپی حکومت نے ریاست میں اترپردیش مدرسہ بورڈ سے تسلیم شدہ سرکاری امداد یافتہ دینی مدارس میں سائنس اور حساب کےاساتذہ کی تقرری کے لئے اردو زبان کی لازمیت کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس وقت اترپردیش حکومت 560 مدارس کو گرانٹ دیتی ہے۔ مجموعی 560 امداد یافتہ دینی مدارس میں سے تقریبا 350 مدارس پرائمری سے فاضل(پوسٹ گریجویشن) تک کی تعلیم دیتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اوسطا ایک مدرسے کو تین سے چار لاکھ روپئے ماہانہ ملتے ہیں جس میں 15 سے 17 ٹیچروں کی تنخواہیں شامل ہوتی ہیں۔یوپی مدرسہ بورڈ کے تحت رجسٹر امداد یافتہ اور غیرامداد یافتہ مدارس میں زیر تعلیم طلبا کی مجموعی تعداد 26 لاکھ ہے جو کہ پرائمری سے فاضل تک کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ حکومت کے اس فیصلے سے قبل سرکاری امداد یافتہ مدارس میں صرف انہیں ٹیچروں کی تقرری ہوسکتی تھی جنہوں نے اردو کو بطور ایک مضمون کے طور پر پڑھا ہو اور اردو سے اچھی واقفیت رکھتے ہوں لیکن اب مدارس میں غیر اردو داں ٹیچروں کی بھی تقرری کا راستہ صاف ہوگیا ہے۔اترپردیش کی یوگی حکومت نے سال 2018 میں ایک پورٹل لانچ کر کے ریاست بھر کے تمام 19000مدارس کو پورٹل پر رجسٹریشن کو لازمی قراردیا تھا۔ پورٹل پر رجسٹریشن کی لازمیت کے بعد غیر امداد یافتہ 19000 مدارس میں سے 4200 مدارس معدوم ہوگئے اس طرح سے اس وقت یو پی مدرسہ بورڈ کے تحت چلنے والے مدارس کی تعداد 14000 ہے۔ مودی سرکار میں ویسے تو بھارت کی تمام ریاستیں ہی مسلم دشمنی میں آگے آگے ہیں لیکن اتر پردیش مسلمانوں سے نفرت اور جرائم میں اب بھی اوّل نمبر پر براجمان ہے۔ 2015 سے اب تک مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم میں اتر پردیش 418 واقعات کے ساتھ سر فہرست ہے۔ اتر پردیش مسلمانوں کے خلاف Love جہاد، حلال جہاد، گھر واپسی، بیٹی بچاو¿ بہو لاو¿، حجاب بندی اور گو¿ر کھشا جیسی مہمات کا گڑھ ہے۔بھارتی وزارت داخلہ کی 2016 کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اتر پردیش میں قیدیوں میں سب سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے اور 18ہزار سے زائد مسلمان زیر التوا مقدمات میں اتر پردیش کی جیلوں میں قید ہیں۔پولیس مقابلوں میں مرنے والوں میں بھی مسلمان سب سے زیادہ،2017 سے 2019 تک 146 میں سے86 مسلمان پولیس گردی کا شکار ہوئے۔مودی سرکار نے 2016 سے اتر پردیش کے21 ہزار مدرسہ اساتذہ کی تنخواہیں بھی بند کر رکھی ہیں۔ 2015میں محمد اخلاق کو گائے ذبح کرنے کے شک پر ہندو مجمعے نے مو ت کے گھاٹ اتار دیا تھا اور پولیس نے الٹا مقتول کے بھائی پر ہی مقدمہ بنا دیا تھا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ محمد اخلاق کو بیدردی سے قتل کرنے والے 15 قاتلوں کو مودی سرکار نے 2017 میں سرکاری نوکریوں سے نوازا تھا۔اسی طرح 5 مارچ 2019 کو میرٹھ میں زمین پر قبضہ کرنے کے لیے بی جے پی رہنما نے مسلمانوں کی 2 سو سے زائد جھونپڑیوں کو جلا دیا تھا۔گزشتہ سال رمضان میں عید کی نماز ادا کرنے پر1700 مسلمانوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ اس رپورٹ کو لیکر گودی میڈیا میں خوب تشہیر کی جارہی ہے اور دینی مدارس کے خلاف ماحول بنانے کی سازش کی جارہی ہے۔ جہاں ایک طرف ایس آئی ٹی کی رپورٹ پر مسلمانوں میں تشویش پائی جاتی ہے وہیں میڈیا میں اس خبر کو لیکر خوب تشہیر کی جارہی ہے اور غیر منظور شدہ مدارس کو غیرقانونی مدارس لکھا جارہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے