کالم

ےوم مئی جبر کے خلاف حق کی آواز

مےرے واجب العزت قارئےن اﷲ تعالیٰ کی عنائت کردہ اس روئے زمےن پر سب سے اعلیٰ و ارفع مخلوق انسان کی ہے ۔ہر دور اور ہر زمانے مےں رزق کے جو سر چشمے اﷲ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان کےلئے مہےا کئے تھے ان پر با اثر لوگ قبضہ کر کے بےٹھ جاتے ہےں اور انسان کی مجبورےوں کو اےکسپلائٹ کر کے انہےں اپنا غلام بنا لےتے ہےں ۔غرےب کے منہ سے اس کا نوالہ بھی چھےننے کی مساعی کرتے ہےں ۔اس عالم رنگ و بو مےں ملکوں کی تعمےروترقی کا پہےہ گھمانے والے محنت کش مجبور کر دئےے گئے ۔ےہ مخلوق خدا انتہائی بے بس ہو کر تڑپنے، سسکنے اور اپنا ہی خون پےنے پر مجبور تھی ۔ےہ طبقہ مزدوراں کرب و اذےت مےں مبتلا تھا ۔محنت مشقت کر کے ان کی ہڈےاں چٹخ جاتےں لےکن معاوضہ نہاےت قلےل جس سے پےٹ کا جہنم بھرنا بھی کٹھن ۔اس عسرت و تنگدستی سے نجات پانے کی کوئی صورت دکھائی نہ دےتی تھی ۔ارباب حل و عقد نے فرض شناسی اور اصول پرستی کی جگہ مفاد پرستی کو اپنا شےوہ بنا رکھا تھا ۔ان مظلوموں کو اپنے جائز حقوق کے حصول کےلئے بھی در در کی ٹھوکرےں کھانا پڑتی تھےں ۔اےسے کرب انگےز اور المناک حالات سے ان کو نکالنا حکمرانوں کی ذمہ داری تھی لےکن ان لوگوں کے مسائل کا ادراک کسی کو نہےں تھا ۔انہےں نہ تو مہنگائی کا عفرےت ستاتا اور نہ ہی ان کو علاج معالجے کی ضرورت تھی ۔ان کی معاشی بد حالی کی وجہ امراءکا طلب و رسد پر مکمل کنٹرول تھا خداکا رزق تو ہر گز زمےںپر کم نہےں ےارو ،مگر ےہ کاٹنے والے مگر ےہ بانٹنے والے ۔ سرماےہ دار اور آجر اس طبقہ کو ےرغمال بنائے رکھتا ،ان کی جےبوں پر ہاتھ صاف کرتا اور مہےنہ بھر مزدور سے کام لےنے کے بعد ےہ ان کے ہی خون پسےنے کی آمدن سے چند سکے بطور تنخواہ ادا کر کے باقی سارا سرماےہ خود ہڑپ کرلےتے ۔اس نظام کی اصلاح احوال بہت مشکل تھی اور ےہ نظام صدےوں سے مستحکم چلا آ رہا تھا لہذا اس کی بساط کو لپےٹنا کوئی آسان کام نہ تھا ۔صدےوں سے محنت کشوں کا استحصال ہو رہا تھا ۔اس نظام مےں سرماےہ داروں ،آجروں اور صنعت کاروں کے دروازوں پر ےہ مجبور اور بے سہارا نسان جانوروں سے بھی بد تر زندگی بسر کرتے ۔صدےوں سے ظلم کی چکی مےں پسنے والا مزدور جب جاگا تو اس کا مےلا کچےلا ہاتھ استحصال اور استبدادی قوتوں کے گرےبانوں تک پہنچ گےا جن کی بدولت سماجی نا انصافےاں اور عدم استحکام پےدا ہوتا تھا ۔ان کے خلاف پہلی زور دار آواز 1786ءمےں امرےکہ کے شہر شکاگو کے شہےدوں نے بلند کی ۔ان شہےدوں کی ےاد مےں ےوم مئی تمام دنےا مےں مناےا جاتا ہے ۔ےہ دن تمام دنےا کے مزدوروں کےلئے شہےدوں کے ناحق بہے خون سے وفا کی تجدےد کا دن ہے ۔جس مشن کےلئے انہوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دئےے ان کے مقاصد کو زندہ رکھنا اور مزدوروں کے حقوق کےلئے اگر جانوں کی بھی قربانی دےنی پڑے تو اس سے گرےز نہ کرنا ،ےہ دن اس تجدےد عہد کی اہمےت اجاگر کرتا ہے ۔معاشرے مےں جن افراد کی وجہ سے عدم استحکام تھا وہ بہت مضبوط تھے ۔مزدوروں کے مطالبات ماننے کی بجائے ان کی مصلحتوں نے انہےں عدم توجہ کا شکار کر رکھا تھا اور انہوں نے غفلت کا روپ دھار لےا تھا ۔دولت سمےٹنے کی کھلم کھلا آزادی انسان کے نفس مےں حرص و ہوس کے جہنم بھڑکا دےتی ہے اور کسی کا دل لت پت مزدور کو دےکھ کر نہےں پسےجتا ۔دولت جسے معاشرے کی رگ حےات مےں خون کی طرح محو گردش ہونا چاہےے ،ےہ چند ہاتھوں مےں سمٹ کر رہ جاتی ہے ۔شکاگو کے مزدوروں نے مطالبہ کےا کہ ان کا بھی انسانےت کے ساتھ ناطہ ہے ۔انہےں حےوان نہ سمجھا جائے ۔ےہ محنت کش اےک تنظےم کی صورت مےں منظم ہوئے ۔روزانہ آٹھ گھنٹے اوقات کار کے تعےن کرنے اور مزدوروں پر آجروں کے غےر انسانی تشدد بند کرانے کےلئے صدائے احتجاج بلند کی لےکن حکومتی کارندوں نے ان محنت کشوں کو ہمےشہ کےلئے خاموش کر دےنے کےلئے ان کے سےنے گولےوں سے چھلنی کر دئےے ۔ان مظلوموں کے خون نے مزدوروں کے حقوق کی آبےاری کی ۔مستقبل کا سورج ان کےلئے خوشی کی نوےد لےکر طلوع ہوا ۔ان پر جوروجفا کا خاتمہ ہوا اور بالآخر محنت کش کامےابی سے سرفراز ہوئے ۔ارباب اختےار کو اس ستم رسےدہ طبقے کے مطالبات تسلےم کرنے پڑے ۔اسی حوالے سے دنےا بھر کے مزدور ےکم مئی کو اپنا بےن الاقوامی تہوار ےوم مئی مناتے ہےں اور شکاگو مےں محنت کش برادری کے حقوق کی خاطر اپنی جانےں قربان کرنے والے محنت کش شہےدوں کو خراج عقےدت پےش کرتے ہےں ۔ےہ قربانےاں دنےا بھر کے مزدوروں کے حقوق مزدوراں تحرےک کا نقطہ آغاز ثابت ہوئی ۔وطن عزےز کے محنت کش بھی ےوم مئی تہوار جوش و خروش سے مناتے ہےں ۔پاکستان جہاں اےک زرعی ملک ہے وہاں اس مےں صنعتوں کا بھی جال بچھا ہے۔دوسرے شعبہ ہائے زندگی مےں بھی وسعت پےدا ہوئی اسی طرح مزدوروں کی تعداد مےں بھی اضافہ ہوا ۔اس اضافے کے ساتھ ےوم مئی کی اہمےت بھی بڑھی اور ےہ دن عوامی تہوار بن گےا ۔معزز قارئےن ہم ملک پاکستان کے باسی ہےں اور اسلام ہمارا دےن ہے ۔دےکھنا ےہ ہے کہ آےا ہم اسلام کے ان سنہری اصولوں کو اپنائے ہوئے ہےں ۔خدائے بزرگ و برتر نے غےر فطری ،ظالمانہ اور استحصالی نظام کو رد کرتے ہوئے قرآن مجےد مےں اس پر لعنت کی ہے ۔قرآن مجےد کی رو سے جب کسی مزدور سے کام کراےا جائے تو اس کی اجرت ےا مزدوری اس قدر دی جائے کہ وہ رزق کے معاملے مےں خود کفےل ہو ۔حضور اکرم کا ارشاد ہے کہ مزدور کی اجرت اس کا پسےنہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دی جائے ۔اسلام نے اس کےلئے جو ضوابط تےار کئے ہےں ان کے مطابق آجر ،صنعت کار اور مزدور کے مابےن معاہدہ طے پانے کے بعد کسی قسم کا جبر اور زےادتی نہےں ہونی چاہےے ۔آج کے نفسا نفسی کے دور مےں سرماےہ دار اپنا نفع زےادہ سے زےادہ حاصل کرنے کےلئے چاہتا ہے کہ وہ مزدور سے کام زےادہ لےں اور اجرت کم دےں اور آج مزدور ےہ چاہتا ہے کہ کام تھوڑاکرےں اور اجرت زےادہ لےں ۔دونوں اطراف کی اس غلط سوچ نے اےک جھگڑے کو جنم دےا ہے جس نے کئی بار ساری دنےا کا امن تباہ کےا اور آئندہ بھی کر سکتا ہے ۔اس کا حل عادلانہ اجرت کے تعےن مےں ہے ۔سرماےہ داری اور اشتراکےت دونوں آج تک ےہ مسئلہ حل نہ کر سکے ،مگر اسلام کے عادلانہ معاشی نظام نے ےہ جھگڑا چودہ سو سال پہلے حل کر لےا تھا اور اس کا حل آج بھی قابل عمل ہے ۔
اس کی ابتداءہم ذہنی تبدےلی سے کرتے ہےں جسے اسلام انسانوں کے تمام مسائل کے حل کےلئے ضروری قرار دےتا ہے ۔مزدور بھی نہاےت امےن اور معاہدے پر عمل داری کا پابند ہو اور اپنے کام کو نہاےت دےانتداری سے ادا کرے ۔آجر اور اجےر کے درمےان باہمی محبت کی اےسی فضا قائم ہونا چاہےے جو باہم اعزاءو اقربا ءمےں ہوتی ہے ۔معزز قارئےن بات ہو رہی تھی ےوم مئی کے حوالے سے ۔ذوالفقار علی بھٹو نے بر سر اقتدار آنے کے بعد ےوم مئی کو قومی تعطےل قرار دےا اور ابھی تک پاکستان کے محنت کش اپنی و عالمی مزدور برادری کے ساتھ اپنے حقوق ،عزت نفس اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر ےوم مئی کی روح کو تازہ رکھے ہوئے ہےں اور شکاگو کے مزدوروں نے اپنے خون سے جو شمع جلائی تھی اسے روشن رکھے ہوئے ہےں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے