کالم

16 دسمبر ۔ معصوم خوابوں کاقتل!

یوں تووطن عزیز پاکستان کی تاریخ میں کئی ابواب انتہائی کٹھن،دُکھ اور قربانیوں پر مشتمل ہیں لیکن 16دسمبر2014ءتاریخ کا وُہ سیاہ ترین دِن ہے جب وطن عزیز کے بزدل دُشمنوں نے ننھے پھولوں،پاکستان کے بچوں پر حملہ کرکے معصومیت، خوابوں اور علم کے حصول کی جستجو کو خون میں نہلا دیاجس کے نتیجے میں 144معصوم شہید ہوئے ۔شہداءمیں اُساتذہ بھی شامل ہیں۔16دسمبرکادِن پوری پاکستانی قوم کیلئے سوگ اورہرمحب وطن پاکستانی کا دل غم سے پھٹ گیا۔ وہ بچے جو بستے لے کر اسکول گئے تھے، خون میں لت پت کر دیے گئے ان کے قلم، کتابیں، اور خواب سب خون آلود ہو گئے۔یہ سوچ کر دل لرز اٹھتا ہے کہ وہ بچے جو حصول علم کےلئے اپنے سکول موجود تھے، کیسے پاکستان کے بزدل اورظالم دُشمنوں نے بربریت کانشانہ بنایا۔ ان معصوم چہروں کی جگہ اب لہو کی سرخی تھی۔ وہ معصوم چیخیں، وہ درد، اور وہ خون میں لت پت بستے آج بھی ہماری یادوں سے محو نہیں ہو سکے۔یہ ایک ایسا دل سوز واقعہ تھا جس کی یاد ایک دہائی سے پوری قوم کے دلوں کو مضطرب کر رہی ہے۔ 16 دسمبر کو بزدل، بے رحم اور حیوانیت سے بھرپور دہشت گردکی حیوانیت کا شکار ہوکر شہید ہونے والوں میں سے اکثریت توبہت ہی کم سن بچوں کی تھی جو کہ بہت کم عمری میں پوری پاکستانی قوم کو غمگین کرکے دنیا سے چلے گئے۔ اس سانحے کو خواہ کتنا ہی وقت کیوں نہ گزر جائے، ان معصوم و کم سن بچوں کی جدائی کے صدمے کو کبھی مٹایا نہیں سکتا۔ ان ننھی کونپلوں نے اس دن ناقابل برداشت ظلم و بربریت کا سامنا کیا اور جام شہادت نوش کیا۔شہداءکے والدین جنہوں نے اپنے پیاروں کو اس بھیانک سانحے میں کھویا، جن کے لخت جگر ان سے چھین لئے گئے، کے غم اور تکلیف کو کسی طور بھی کم نہیں کیا جا سکتا ۔
16دسمبر2014ءکوایک طالبعلم جواُس وقت زخمی ہواتھا کے مطابق جب دہشت گرد ہال میں داخل ہوئے جہاں ہم فرسٹ ایڈ کورس میں شریک تھے، تو انہوں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی ہم اپنی جان بچانے کیلئے کرسیوں کے پیچھے ہوگئے توظالم دہشتگردوں نے ایک ایک کو سر پر گولیاں مارنا شروع کر دیں،جب انہوں نے مجھ پر گولی چلائی تو میں نے اپنا سر کرسی کے اندر دھکیل دیا لہذا گولی میرے بائیں بازو میں لگی اس دوران گن پا¶ڈر میرے چہرے پر گرا۔تھوڑی دیر بعد وہ باہر چلے گئے اور میں اسٹیج پر ڈریسنگ روم میں چلا گیا وہاں پہنچا توکمرہ زخمی طلباءسے بھرا ہوا تھا۔جب میں نے کھڑے ہو کر چلنے کی کوشش کی تو میرا زخمی بازو نیچے لٹک گیا۔طالبعلم کے مطابق میں نے آنکھیں بندلیںاور وہیں لیٹ گیا،تھوڑی دیر بعد دہشت گرد اسی کمرے میں آئے اور ان پر فائرنگ شروع کر دی جو درد سے چیخ رہے تھے میں کمرے کے دروازے کے قریب تھا تو وہ میرے چہرے پر پا¶ں رکھتے ہوئے کمرے کے اندر آ رہے تھے۔ زخمی طالبعلم کے مطابق اس دوران ظالم دہشت گردوں نے میرے ٹیچر پر فاسفورس پھینکا اور میری آنکھوں کے سامنے زندہ جلا ڈالا پھر پورے کمرے کو آگ لگا دی۔اس کے بعد ریسکیورز آئے اور مجھے لاشوں سے بھری ایمبولینس میں ڈالا اور ہسپتال پہنچایا۔
16دسمبر2014ءجہاں پاکستانی قوم کیلئے ایک دُکھ بھراایک بہت بڑاسانحہ تھا وہیں پوری پاکستانی قوم نے معصوم بچوں کے قاتل دہشتگردوں کیخلاف سیسہ پلائی دیوارکا کردار اداکیا اوراُس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف اور پاک افواج کی زیرصدارت دہشتگردوںکیخلاف آپریشن میں دہشتگردوں کامکمل صفایا کیا گیا اور خصوصاًسانحہ اے پی ایس میں ملوث دہشتگردوں کوکیفرکردارتک پہنچایا گیا۔آج بھی پوری قوم فتنہ الخوارج اور ان جیسے دوسرے دہشت گرد ملک دشمن گروہوں کیخلاف حکومت پاکستان اور پاک افواج کے ساتھ مل کر سیسہ پلائی دیوار ثابت ہورہی ہے قوم جانتی ہے کہ حیوانیت سے بھرپور انسانیت کے قاتلوں کا نہ دین سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی کسی بھی معاشرتی اقدار سے۔ بیرونی ملک دشمن عناصر کی ایماءپر یہ بزدل معصوم پاکستانیوں کو اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے نشانہ بناتے ہیں۔ آج وقت کا تقاضا ہے کہ بحیثیت مجموعی پوری قوم ایک پر امن اور محفوظ پاکستان کی تعمیر کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کریں، جہاں کسی معصوم کو دوبارہ اس ظلم و بربریت سے نقصان نہ پہنچے، کسی بھی بچے کو خوف کے عالم میں اسکول نہ جانا پڑے، اور ایسی کسی بھی ناانصافی کی کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔ یقینا16دسمبر کے سیاہ ترین دِن نے پوری قوم کو بہت بڑا صدمہ دیا لیکن ساتھ ہی یہ سبق بھی دیا کہ ہمیشہ ہمیں اپنے وطن کے لیے کھڑا ہونا ہے۔ وہ معصوم شہید ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ علم کی شمع کبھی بجھنے نہ دیں اور دہشت گردی کے خلاف ہمیشہ متحد رہیں۔”ان بچوں کی قربانی ہماری قوم کےلئے روشنی کا مینار ہے اور ان کا خون ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہے گا۔”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے