کالم

23مارچ کی اہمےت ،مفہوم اور مقاصد

مارچ1940ءکی اہمےت سے کون آگاہ نہےں ۔تشکےل پاکستان تک پہنچنے کےلئے رہروان جادہ کی منزل ےہی قرارداد تھی ۔ہمارے اجداد کو حصول پاکستان تک جن جاں گسل محنتوں ،قربانےوں اور مشکلات سے دوچار ہونا پڑا اس کو ےاد رکھنے ،ازبر کرنے اور دہرانے کی جتنی آج ضرورت ہے شائد اس سے قبل نہےں تھی ۔آج بعض طبقے خصوصاً نئی نسل قےام پاکستان کے مقاصد کو شک کی نگاہ سے دےکھ رہی ہے جبکہ دو قومی نظرےے کو بھی مشکوک بناےا جا رہا ہے ۔آئےے ناظرےن قرار داد پاکستان کے مقاصد کا تارےخی پس منظر مےں جائزہ لےں ۔1857ءکی جنگ آزادی کے خاتمے پر انگرےز نے فرعونےت و استبدادےت کی حد کر دی۔ہندوﺅں نے انگرےزوں کے ساتھ مل کر اپنی ہزار سالہ غلامی کا انتقام مسلمانوں سے لےا ۔ہر چےز کےلئے صرف مسلمانوں کو ہی مورد الزام ٹھہراےا جاگےرےں بھی ان کی ضبط ہوئےں ،سزائےں اور پھانسےاں بھی انہےں ملےں ۔مسلمانوں کےلئے اس پر آشوب اور کٹھن دور مےں مسےحائے ملت کے روپ مےں اےک انسان ظاہر ہوا جو قوم کے عروق مردہ مےں زندگی بخش حرارت بن کر سرائت کر گےا ۔ےہ تھے سر سےد احمد خان جن کا مقصد قوم کی نئے سرے سے شےرازہ بندی کرنا اور انہےں مستقل جدا گانہ قوم کی حےثےت سے زندگی بسر کرنے کے قابل بنانا تھا ۔مسلمانوں کو ےہ حےثےت دےنے کےلئے نہ انگرےز تےار تھا نہ ہندو رضا مند ۔سر سےد احمد خان نے اعلانےہ کہا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومےں ہےں اور مجھے ےہ ےقےن ہو گےا ہے اب دو قومےں دل سے کسی کام مےں شرےک نہےں ہو سکےں گی ابھی تو کچھ بھی نہےں ہوا ،جوں جوں وقت گزرتا جائے گا ےہ مخالفت اور عناد ان ہندوﺅں کے سبب ابھرے گا جو تعلےم ےافتہ کہلاتے ہےں ،جو زندہ رہے گا وہ دےکھے گا ۔ےہ الفاظ1867ءمےں بنارس کے کمشنر مسٹر شکسپئےر کے سوال کے جواب مےں کہے تھے ۔اس تناظر مےں دےکھنے سے ےہ معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی بنےاد اس نظرےہ پر استوار ہوئی ہے کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومےں ہےں اس لئے ان کی دو مملکتےں بھی الگ الگ ہونی چاہےےں ۔ےہ تھے پاکستان کے معمار اول جنہوں نے مسلمانان بر صغےر کو اپنی پوری توانائےاں اور توجہ حصول حصول علم پر مرکوز کرنے کےلئے کہا ،علی گڑھ تحرےک چلائی ،کالج کھولے ،سائنٹےفک سوسائٹی بنائی ،اہم کتب کے ترجمے کئے اور مسلمان دھڑا دھڑ تعلےم حاصل کرنے لگے ۔مسلمانوں کو پڑھی لکھی قےادت نصےب ہوئی اور ان کی کوششےں ہی قرارداد پاکستان تک پہنچنے کےلئے حتمی محرک ثابت ہوئےں ۔سر سےد کی رحلت کے بعد اس شمع کو سےالکوٹ کے اےک نوجوان نے سنبھالا دےا جو ہندوﺅںاور مسلمانوں کو وطنےت کا درس دےتا نظر آتا ہے لےکن ےورپ کے سفر پرقومےت اور وطنےت کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کرنے کے بعد اس پر قرآن حکےم مےں بےان کردہ حقےقت بے نقاب ہو گئی کہ قومےت کی بنےاد مشترکہ ٓائےڈےالوجی ہے وطن کا اشتراک نہےں ۔علامہ اقبالؒ نے الہٰ آباد کے مقام پر مسلم لےگ کے سالانہ اجلاس مےں خطبہ صدارت دےتے ہوئے ےہ اعلان کر دےا کہ مسلمان جداگانہ قوم ہے اس لئے اس کی مملکت بھی الگ ہونی چاہےے ۔30دسمبر 1930ءکو منعقدہ اس کانفرنس مےں علامہ اقبال نے فرماےا مےری خواہش ہے کہ پنجاب،سرحد اور بلوچستان کے صوبوں کو ملا کر اےک رےاست بنا دی جائے خواہ ےہ رےاست برطانوی حکومت کے اندر خود مختاری حاصل کرلے خواہ اس کے باہر۔انہوں نے واضع کہا کہ شمال مغربی مسلم رےاست کا قےام بر صغےر کے تمام مسلمانوں ےا کم از کم شمال مغربی علاقوں کے مسلمانوں کا نوشتہ تقدےر ہے۔ مسلمانوں کےلئے علامہ اقبالؒ کا ےہ خطبہ روشنی کا مےنار ثابت ہوا جس نے انہےں نئی راہ دکھائی اور اےک اےسی منزل کی نشاندہی کی جس کے بغےر ان کے مسائل کا حل نہےں تھا ۔علامہ اقبالؒ کی وفات کے وقت ےہ شمع امانت مسٹر محمد علی جناحؒ نے سنبھالی جنہےں پوری قوم کی طرف سے قائد اعظمؒ کہہ کر پکارا جانے لگا ۔انہوں نے اپنی بے لوث خدمت ،بے پناہ محنت اور بلند ترےن کردار سے ملت کے اس اعتماد کو سچ کر دکھاےا ۔23مارچ 1940ءکا دن تارےخ پاکستان مےں سب سے عظےم اور سنہری دن تھا ۔مسلمانان ہند کا جم غفےر منٹو پارک لاہور مےں جمع تھا ۔مسلمانان ہند اس مےں شرکت کےلئے ہندوستان کے کونے کونے سے آئے تھے ۔قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اپنی تقرےر مےں کہا کہ ہندو اور مسلمان اےک قوم نہےں ان کی قدرےں مشترک نہےں ،ان کا جےنا مرنا،چلنا پھرنا مختلف ہے ۔ہندوستان مےں ان کا اتحاد مصنوعی اتحاد ہے ےہ مصنوعی اتحاد انگرےز کی سنگےنےوں کے سبب قائم ہوا ۔ہماری تہذےب مختلف ہے ۔ہماری قوم دےنی ،ثقافتی ،اقتصادی ،معاشی اور سےاسی زندگی مےں ہندوﺅں سے مختلف ہے ۔انہوں نے مزےد کہا کہ ہم دھمکےوں سے مرعوب نہےں ہوں گے ۔ہم اپنا نصب العےن نہےں چھوڑےں گے ،ہم ہر مشکل کا مقابلہ کرنے کےلئے تےار ہےں ۔آپ کی تقرےر کے خاتمے پرآپ کی تائےد و حمائت مےں فضا نعروں سے گونج اٹھی ۔ےہ قرار داد اے کے فضل الحق نے پےش کی اور چوہدری خلےق الزماں نے اس کی تائےد کی ۔قرار داد مےں کہا گےا تھا کہ اس ملک مےں دستوری خاکہ قابل عمل نہ ہو گا جب تک مندرجہ ذےل اصول مرتب نہ کئے جائےں ۔جغرافےائی لحاظ سے متعلقہ علاقے خطے بنا دےے جائےں اس طرح علاقائی ضرورتوں اور تبدےلےوں کی ضرورت محسوس کر لی جائے تا کہ جن علاقوں کے اندر مسلمانوں کی آبادی ہے ان کی تشکےل اےسی آزاد رےاستوں کی صورت مےں کی جائے جن کی مشمولہ وحدتےں خود مختار اور مقتدر ہوں ۔ اقلےتوں کےلئے آئےن مےں مناسب،موثراور واجب التحمےل تحفظ کا خاص طور پر انتظام ہونا چاہےے تا کہ ان کے مذہبی ،ثقافتی،معاشی ،انتظامی اور دوسرے حقوق کی حفاظت ہو سکے ۔قرار داد مےں اگرچہ پاکستان کا نام استعمال نہےں کےا گےا تھا ۔قرار داد لاہورپاس ہوتے ہی کانگرےس کے اکابرےن نے اس کے خلاف شور و غوغا شروع کر دےا ۔ہندو اخبارات نے مسلمانوں کا مذاق اڑانے کےلئے اسے قرار داد پاکستان لکھا جسے قائد اعظمؒ نے پوری دلےری اورجرا¿ت سے قبول کر لےا اور ےوں وہ سفر جو محمد بن قاسم کی فتوحات سے شروع ہوا تھا اپنی منزل کے قرےب پہنچ گےا جس کےلئے ہزاروں سال سے سفر جاری تھا مگر اسے کوئی نام نہےں دےا گےا تھا ۔اپنوں اور بےگانوں کی مخالفتوں کے باوجود قائد اعظمؒ اپنی ثابت قدمی اور دلےری سے اپنے مبنی بر صداقت مطالبہ کی نور پاشےوں سے باطل کی تارےکےوں کو ہٹاتا اور مٹاتا چلا گےا ۔قائد اعظمؒ نے مسلم سٹوڈنٹس فےڈرےشن کی سالانہ کانفرنس مےں تقرےر کرتے ہوئے کہا ”پاکستان کے تصور کو جو مسلمانوں کےلئے اےک عقےدہ کی حےثےت رکھتا ہے مسلمانوں نے اچھی طرح سمجھ لےا ہے ان کی حفاظت ،نجات اور تقدےر کا راز اس مےں پوشےدہ ہے ۔اسی سے ےہ آواز اقصائے عالم مےں گونجے گی کہ دنےا مےں اےک اےسی مملکت بھی ہے جو اسلام کی عظمت گزشتہ کو از سر نو زندہ کرے گی ۔بعد ازاں انہوں نے 21نومبر1945ءکو فرنٹئےر مسلم لےگ پشاور کی کانفرنس مےں تقرےر کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان قےام پاکستان کا مطالبہ اس لئے کرتے ہےں کہ اسی مےں ان کی بقاءہے“۔قےام پاکستان کی جدوجہد سات سال تک جاری رہی جس عمارت کی پہلی اےنٹ سرسےد نے رکھی تھی اور جسے اقبال کی قرآنی فکر نے تقوےت دی وہ قائد اعظمؒ کی بصےرت و کردار کے صدقے اےک حقےقت ثابتہ بن کرتکمےل تک پہنچ گئی ۔پاکستان بن گےا ۔آج نئی نسل کو بتانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ قرار داد پاکستان کا ماخذ کےا تھا اور وہ کون سے مقاصد تھے جن کے تحت مسلمانان بر صغےر نے اپنے علےحدہ تشخص کی آواز اٹھائی اور جانوں کے نذرانے پےش کرتے ہوئے عظےم لےڈروں کی پر عزم قےادت مےں اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہی ۔جانے والے بے شک چلے گئے لےکن اپنا فرض اور عہد پورا کر گئے ۔وطن عزےز مےں بعض مصلحتوں کے پےش زےر اثر نظرےہ پاکستان سے رو گردانی اور اسے پس پشت ڈالنے کی ناکام سعی کی گئی ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri