پاکستان ہمیشہ سے ہی بدقسمت رہا ہے کہ اِس پر حکومت تو اپنوں کی رہی ہے مگر قبضہ ہمیشہ غیروں کا ہی رہا ہے جو وہ اپنی کٹھ پتلیوں کے ذریعے قائم رکھتا ہے۔ یہ اغیار ہی ہیں کہ جنہوں نے ہمیں ہر اہم موقع پر استعمال کیا ہے ۔ اپنا آپ منوایا ہے اور اس کے عوض چند ڈالر ہمارے مُنہ پر دے مارے ہیں اور ہم ہیں کہ خوش ہو جاتے ہیں کہ شُکر ہے ڈالر مل گئے اور ملکی سلامتی و وقار کی ذرا سی بھی فکر نہیں کرتے ہیں۔ ہم ایسا کیوں کرتے ہیں اس کی وجہ اور کچھ بھی نہیں ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی بھوک ہی اتنی ہے کہ ڈالروں سے کم کسی اور چیز سے بُجھتی ہی نہیں ہے۔ دُنیا بھر میں موجود متعدد کرنسیوں کے باوجود ہماری نظر ہمیشہ ڈالر پر ہی جا ٹکتی اور سکون پاتی ہے۔ ہماری یہی وہ کمزوری ہے کہ جو ہمارا ازلی دشمن پوری طرح بھانپ گیا ہے اور ہم سے اپنے مذموم عزائم پورا کرنے کےلئے کچھ ڈالروں کے عوض تکمیل چاہتا ہے اور ہم یہ کرتے ہیں کیونکہ ہمیں اپنے ذاتی مفادات عزیز ہوتے ہیں۔ایسے میں ملک و قوم کا کیا بنے گا اس کا احساس کم کم ہی کرتے ہیں اور عوام الناس کا بھی اس طرف دھیان نہ جائے اس کو بھی مختلفُ النوع مسائل اور اُلجھنوں میں ہی دھکیلے رکھتے ہیں۔ ایسے ممالک میں جو صرف اپنے مفادات کا اسیر، ہمارے ملک کی کٹھ پتلیوں کے ذریعے سے ایسے کام لینے کا عادی ہو چکا ہے اور پھر ڈالروں کی چمک ہی ایسی ہے کہ ہم خود ہی اچانک سے ڈھیر ہو جاتے ہیں کہ وہ ہم سے افغانستان پر حملے کےلئے ہمیں تورا پورا بنا دینے کی دھمکی لگا کر لاجسٹک سپورٹ تک لے لیتا ہے اور خطے میں پھر وہ اُدھم مچاتا ہے کہ اس کا سفر پھر 20 سال بعد تمام تر ذلالتوں کے ساتھ ہار کی شکل میں ہی اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔ وہ ہم سے عالمِ اسلام کی معصوم و مظلوم بیٹی عافیہ صدیقی مانگ لیتا ہے اور ہم کچھ کر نہیں پاتے ہیں۔ وہ ہم سے اپنے رائمنڈ ڈیوس جیسے بیشتر لوگ چھڑوا لیتا ہے اور ہم احتجاج تو دور، اُف تک بھی نہیں کر سکتے۔ وہ ہماری حکومتیں چلاتا، اِدھر اُدھر کرتا ہے اور ہم سب برداشت کر جاتے ہیں۔ پاکستان میں عدمِ استحکام میں سب سے بڑا ہاتھ اور کردار اسی کا ہے اور مانتا بھی نہیں ہے۔ رجیم چینج گیم اس کا محبوب مشغلہ ٹھہرا، جہاں کوئی نہ مانا، پوری رجیم ہی بدل دیتا ہے۔ پھر اپنے تابع فرما لوگوں کو نوازتا ہے اور مختلف احکاماتُ و فرامین جاری کرتا ہے اور یس سر کی طرح اِنھیں چلاتا ہے۔ پیسوں کی برسات میں اپنا آرڈر منواتا ہے اور جو چاہے کرواتا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، مُوجودہ چھبیسویں آئینی ترمیمی مسودہ کا کرتا دھرتا بھی یہی مکار مُلک ہے۔ یہ مسودہ وہاں سے مُبینہ طور پر ایک ”صاحب” کے ذریعے سے ایک اور اہم شخصیت کو مُوصول ہوا اور پھر ایک کٹھ پتلی کے ہاتھ میں تھما دیا گیا جو اسے بیچ پارلیمنٹ لیے، سب چھپائے، تھوڑا بہت دکھائے رات کے اندھیروں میں بن دیکھے ہی پارلیمنٹ میں پِیش کروا کر اسے منظور کروانا چاہتا تھا جسے فضل الرحمن اور بیرسٹر گوہر جیسی گھاگ آنکھیں جان گئی تھی اور سمجھ گئی کہ یہ کوئی معمولی مسودہ نہیں ہے کہیں خاص سے ہی آیا ہے۔حکومت کا اس کو بن دیکھے رات کے گُھپ اندھیروں میں منظور کروانے کی کوشش دال میں کچھ نہیں، بہت کچھ کالا والی بات ہے۔ مولانا نہیں مانے اور آئینی ترمیمی مسودہ پروگرام لٹک گیا اور منظوری مراحل تک نہیں پہنچ پایا ہے۔ اِسی دوران پارلیمنٹ اجلاس غیر معینہ مدت کےلئے ملتوی کردیا گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن اور پارٹی موقف واضح کہ پہلے پورا مسودہ پڑھیں گے، وکلا کو دکھائیں گے پھر اس پر کوئی بات کریں گے۔پاکستانی عوام اسے ایک گھٹن زدہ اچھا شگون قرار دے رہی ہے اور فضل الرحمن کی ہر طرف جے جے کار ہو رہی ہے اور کیونکرنہ ہو، فضل الرحمن نے کام ہی ایسا کیا ہے۔ یہ مسودہ منظوری مراحل سے دور ہے تو صرف فضل الرحمن کی دور اندیش نظروں کے سبب جو سارے حال جان گئی ہے اور بہت سی پُرکشش آفرز اور کچھ ہوئے خاص فونز کے سامنے بھی ڈھیر نہ ہوئی ہے ورنہ حکومت تو پُر امید تھی کہ کام بن گیا ہے مگر ایسا نہ ہو سکا ہے۔ جس پر باہر اور اندر ایک عجیب سی بے چینی پائی جاتی ہے اور سبھی افراد تڑپ کے رہ گئے ہیں کہ یہ کیا ہوا ہے۔اوروں کے سجائے اس آئینی ترمیمی مسودہ سٹیج ڈرامہ کھیل کا ڈی اینڈ ایسا ہوگا، کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ مولانا فضل الرحمن ڈٹ گئے اور ساری امیدیں دم توڑ گئی ہیں۔ایسے میں اس گیم کو لانے گھمانے اور چلانے والے بھلا کیسے سکون سے رہ سکتے تھے ۔ ان کی رات کی نیندیں اور دن کا چین جانے ہی لگا تھا کہ اپنے وعدوں کی تکمیل اور اپنی بقا کےلئے وہ وہ کر گئے کہ جسے تاریخ میں بہ طور عبرت یا تماشہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور بہت دیر تک اس کھیل کی بازگشت دور دور تک سُنائی دیتی رہے گی اور سُپریم کورٹ کامعیار بلند کیوں نہیں ہوتا، اس کی وجہ دہراتی رہے گی کہ سارے آئینی و قانونی تقاضے رہے ایک طرف سُپریم کورٹ کی بقا کے ہی در پے ہو گئے ہیں ۔ اپنی من چاہی خواہش پربمطابق ہدایت عمل چاہتے ہیں۔سپریم کورٹ فیصلوں کو محض کاغذ کا ایک ٹکرا، ردی کا ٹکڑا کہہ لیا جائے تو زیادہ مناسب ہے، بنا دیا ہے۔ سُپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے کے سامنے ہمراہ گرو اقلیتی آڑ بنے کھڑی ہیں اور مسئلہ کچھ بھی نہیں ہے کہ صرف اور صرف اپنی بقا اور فقط صرف ایک ایکسٹینشن اور آئینی وفاقی عدالت کے قیام کا سوال ہے اور ساتھ ساتھ کچھ دوستوں اور بیوروکریٹس کو نوازنے کا ارادہ ہے۔ عدلیہ اور عوام کے فیصلوں کو پس پُشت ڈالے پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سُپریم کورٹ کے پر کترتے ہوئے اپنے اور اپنے مفادات کے تحفظ کےلئے ایک ایسی وفاقی آئینی عدالت فصیل بنانا چاہتے ہیں جس میں صرف یہ پاور میں ہوں اور دوسرا پاس سے بھی نہ پھٹکے اور جو چاہے کرنا، کر سکیں اور اِن کے فیصلوں کو چیلنج کرنےوالا بھی کوئی نہ ہو۔ یہ جو کچھ کرنا چاہ رہے ہیں اس کی دنیا میں کسی اور ملک میں نظیر نہیں ملتی ہے۔یہ لوگ اوروں کے بچھائے ہوئے جال میں محض صرف اپنے اپنے سواد کےلئے ملک و قوم کو غرق کرنا چاہتے ہیں۔ اگر یہ آئینی ترمیمی مسودہ اتنا ہی ملک و قوم کے فائدے میں ہے تو اِنھیں چاہیے کہ عوام کے وسیع تر مفادات میں اِسے پبلک کریں مگر یاد رکھیے گا کہ یہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ یہ آئینی ترمیمی مسودہ ان کےلئے تو کسی حد تک فائدہ مند ہو سکتا ہے ملک و قوم کےلئے کسی طور پر بھی بہتر نہیں ہے۔یہ اس آئینی ترمیمی مسودے کو پاس کرنے کی پوری کوشش کریں گے مگر عوام کے سامنے لا کر پاس نہیں کروائیں گے۔ یہ مسودہ کہاں سے آیا ہے اور اس مسودے میں دراصل ہے کیا؟ان حکمرانوں سے پوچھنے والا اصل سوال یہ ہے جس پر کم ہی کسی کی نظر ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ایسی وفاقی آئینی عدالت ہوگی کہ جس کے خدوخال، صُورتِ حال اور افراد دیکھ کر پاکستانی عوام ششدر رہ جائیں گے کہ یہ کیا سنا تھا اور کیا پایا ہے۔ حکومتی پلان اے فیل ہو چکا ہے۔ پلان بی اور سی جاری ہے۔ مخصوص نشستوں پر شب خون مارنے کی سوچ بھی ہے ۔ الیکشن ٹربیونل کیس کے فیصلے بھی اُلٹ پلٹ کر کے اور 63 A فلور کراسنگ جائز سارے حربے زیرِ غُور ہیں۔ 224 کا ہندسہ پورا کرنے کے عہد و پیمان پر کام بھی جاری و ساری ہے۔پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی صدارتی آرڈیننس آ چکا ہے۔ عدالت سے معطل ہوتا ہے یا ختم ہوتا ہے۔یہ فیصلہ کیا آتا ہے کا تو پتہ نہیں ہے مگر حالات جیسے بھی ہوں،جس جانب بھی کروٹ لیں ، اس سے پہلے ہی اپوزیشن سائیڈ کو چاہیے کہ اپنے تمام ایم این ایز اور سینیٹرز کو 25 اکتوبر تک پشاور میں کسی خفیہ مقام پر چھپا لیں کہ حکومتی تدبیریں کارگر ثابت نہ ہو۔آئینی ترامیم کے خواہش مند اپنے ٹارگٹ سیٹ کیے اپنے منصوبوں کی طرف مسلسل بڑھ رہے ہیں اور ان کی کامیابی کے امکانات جیسی اب کی صورتحال ہے واضح ہیں۔ایسے میں اپوزیشن کےلئے اپنے ارکان قومی اسمبلی وسنیٹرز کو محفوظ مقام پر منتقل اور سخت پہرے میں رکھنا اور بچائے رکھنا اِنھیں اس آئینی ترامیم،ایکسٹینشن مسائل اور سیاسی و عدالتی پیدا شدہ بحران سے نجات دلا سکتا ہے ۔ یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔