اداریہ کالم

8بجے دکانیں بندکرنے کاحکومتی فیصلہ

idaria

ہماری حکومتیں بجلی کی پیداوار بڑھانے کی بجائے بجلی بچانے پر زور دیتی چلی آئی ہیں، پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے چارموسم عطاءکئے ہیں اوروافرآبی ذخائرمہیاکررکھے ہیں جس کو زیراستعمال لاکرہم سستی پن بجلی تیارکرسکتے ہیں مگر وجہ سمجھ نہیں آتی کہ بجلی کے نئے منصوبے بنانے کی بجائے سولرپلیٹیں اورجرنیٹردرآمدکرنے پرزوردیاجاتارہاہے ،مبینہ طورپریہ بھی کہاجاتاہے کہ جرنیٹروں اورسولرپلیٹوںکی درآمدمیں اعلیٰ حکومتی حلقوں کاہاتھ ہے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لئے پن بجلی کے نئے منصوبے نہیں بنائے جاتے اورجومنصوبے جنرل پرویزمشرف کے دور میں شروع ہوئے تھے وہ بھی سست روی کاشکار ہیں ۔ پاکستان اگر چاہے تو پن بجلی سے اس قدر بجلی بناسکتاہے کہ نہ صرف ہمارے اپنے استعمال میں آسکتی ہے بلکہ اسے ہم پڑوسی ممالک کو بھی درآمد کرسکتے ہیں ۔اب گزشتہ روزایک فیصلہ سامنے آیاہے جس کے مطابق بازار ،مارکیٹیں اورتجارتی مراکزآٹھ بجے بند کرنے کاسختی سے حکم دیاگیاہے کہ یہ اچھا ہوتا کہ حکومت بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں ہوا سے بجلی تیارکرنے کے منصوبے تیارکرتی، پنجاب، کے پی کے اوربلوچستان میں شیردریاسندھ گزررہاہے یہاں پرپن بجلی کے منصوبے قائم کئے جاتے جبکہ پہاڑی علاقوں کے مکینوں کوچھوٹے چھوٹے یونٹ کے ذریعے خود بجلی تیارکرنے کی اجازت دیدی جاتی تو بھی اتنی مشکل پیش نہ آتی۔آزادکشمیراورکے پی کے کے پہاڑی علاقوں میں پانچ سوگھر،ہزارگھر کو بجلی فراہم کرنے کے چھوٹے یونٹ باآسانی بنائے جاسکتے ہیںمگر محسوس یہ ہوتاہے کہ حکومتیں اپنے سارے اخراجات اورمصارف بجلی کی مد میں ٹیکس درٹیکس لگاکربجلی کے بلوں کی مد میں غریب عوام سے نکالناچاہتی ہے۔اب گزشتہ روز کے فیصلے کے مطابق ۔قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں قومی توانائی بچت پلان پیش کیا گیا جس کے تحت مارکیٹیں رات 8 بجے بند کرنے کا فیصلہ ہوا۔قومی اقتصادی کونسل اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ توانائی بچانے کیلئے دکانیں رات 8 بجے بند کرنے کا فیصلہ ہوا ہے، کمرشل ایریا رات 8 بجے بند ہوں گے، انرجی کی بچت کیلئے صوبائی حکومتیں عملدرآمد کرائیں گی، امریکا، یورپ، چین میں کمرشل ایریاز کو کھولنے کی اجازت نہیں ہوتی، توانائی کی بچت سے ملک کو سالانہ ایک ارب ڈالر کی بچت ہو سکتی ہے۔ ترقی کیلئے سیاسی استحکام بھی ضروری ہے، ہمیں معاشی بحران ورثے میں ملا، مسلم لیگ کی گزشتہ حکومت میں انرجی بحران کو حل کیا گیا، گزشتہ حکومت کے پاس ترقی کا کوئی روڈ میپ نہیں تھا، ہمارے دور میں سی پیک منصوبہ شروع کیا گیا، معیشت کی بہتری کیلئے برآمدات بڑھاناہوں گی، انٹرنیٹ فار آل منصوبے کو فروغ دیں گے۔ ڈیجیٹل پاکستان کی طرف تیزی سے اقدامات کیے جا رہے ہیں، مستقبل میں مضبوط ڈیجیٹل نظام سے تیزی سے ترقی ممکن ہوگی، حالیہ سیلاب سے پاکستان کو بہت زیادہ نقصان ہوا، مینوفیکچرنگ کے شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کو اپنایا جائے گا، پاکستان کو اس وقت موسمیاتی تبدیلی سے شدید خطرات درپیش ہیں، گزشتہ حکومت نے ملکی ترقی کیلئے کچھ کام نہ کیا۔دوسری جانب حکومت کی جانب سے دکانیں و کاروباری مراکز رات 8 بجے بند کرنے کے فیصلے پر آل پاکستان انجمن تاجران نے فیصلے کومسترد کرتے ہوئے کہاکہ تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بغیر یہ منصوبہ ناقابل عمل ہو گا، سب سے پہلے صوبائی حکومتوں کو تاجر نمائندوں کے ساتھ بٹھایا جائے، جب تک تمام سٹیک ہولڈرز بیٹھ کر فیصلہ نہیں کریں گے تو حکومتی اعلان کی حیثیت محض رسمی ہو گی۔صدر آل پاکستان انجمن تاجران اجمل بلوچ نے کہا کہ حکومت 8بجے دکانیں بند کرنے کا فیصلہ واپس لے۔حکومت توانائی بچانے کیلئے مفت میں چلنے والی بجلی بند کرے، حکمران اپنے ایئر کنڈیشنر بند کریں، ہر گھر کا پنکھا چلے گا۔ بدقسمتی کی انتہا ہے توانائی بچانے کی بات یا وزیر دفاع کرتا ہے یا وزیر پلاننگ، وزیر توانائی کو چاہئے تاجر نمائندوں کے ساتھ بیٹھ کر بات کریں۔ نیز وزیراعظم کی زیرصدارت ایک اوراجلاس میں قومی اقتصادی کونسل نے مالی سال 24-2023کےلئے 2ہزار 700ارب روپے کے ترقیاتی پروگرام کی منظوری دیدی۔قومی اقتصادی کونسل نے ملکی مجموعی معاشی صورتحال کا جائزہ لیا اور تفصیلی مشاورت کی، وزیرِ اعظم نے اجلاس کے شرکا کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ صوبے وفاق کی اکائیاں ہیں اور پاکستان کی خوشحالی تب تک ممکن نہیں جب تک صوبے خوشحال نہ ہوں۔ محدود معاشی وسائل کے باوجود حکومت صوبوں کے ترقیاتی مطالبے پورے کریگی اور وسائل کی منصفانہ و شفاف تقسیم یقینی بنائے گی، اس حوالے سے وزیر منصوبہ بندی کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جو اس امر کو یقینی بنائے گی کہ صوبوں کو ملنے والے فنڈز میں کسی قسم کی تخصیص نہیں برتی جائےگی بلکہ تمام صوبوں کو ان کی ضروریات کے مطابق موجودہ وسائل منصفانہ اور شفاف بنیادوں پر تقسیم کئے جائیں۔قومی اقتصادی کونسل نے گزشتہ حکومت کی چھوڑی ہوئی معاشی مشکلات و پاکستان میں تاریخی سیلاب کے باوجود اس سال حاصل ہونےوالی 0.3فیصد شرح نمو کی منظوری دی، آئندہ مالی سال کیلئے ترقی کی شرح کا ہدف 3.5 فیصد پر رکھنے کی بھی منظوری دی گئی۔
پاک عراق بہترین تعلقات
عراق کے ساتھ تعلقات کو بہتربنانے کے لئے وفاقی حکومت کی جانب سے کی جانے والی کوششیں بہتراندازمیں جاری ہیں ۔ماضی میں عراق ہمارے ازلی حریف بھارت کاحریف رہاہے مگر اب حکومتی کوششوں سے عراق جانے والے زائرین کے مسائل کے حل کےلئے بہتر اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔اسی حوالے سے وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے دورہ عراق کے دوران بغداد میں پاکستانی اور عراقی تاجر برادری کے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان اور عراق مضبوط تاریخی، ثقافتی اور مذہبی رشتوں سے منسلک ہیں،دونوں ممالک کے مابین موجود ہ دوطرفہ تجارت وسیع امکانات کے مطابق نہیں ،پاک عراق بزنس فورم دونوں اطراف کے ممکنہ سرمایہ کاروں اور تجارتی شراکت داروں کے درمیان جی ٹو جی روابط اور کاروباری نیٹ ورکنگ کےلئے یکساں مواقع فراہم کرے گا، مشترکہ منصوبوں اور تعاون کے ذریعے اپنے برادرانہ تعلقات کو مستحکم کرنے کا یہ بہترین وقت ہے ۔ دونوں ممالک کی کاروباری برادری کی سہولت میںتاجروں اور سرمایہ کاروں کےلئے ویزا کے لچکدار نظام اور کاروباری وفود کے تبادلے پر تبادلہ خیال کیا ۔ پاکستان نے کاروبار کرنے میں آسانی کے اپنے اقدام کے ایک حصے کے طور پر پاکستان آنے والے غیر ملکی سرمایہ کاروں کےلئے ویزا کی سہولت اور طویل مدت کے ویزے کے اجراءکےلئے پہلے ہی انتظامات کئے ہیں۔
ایس کے نیازی سی پی این ای کمیٹی کے چیئرمین منتخب
ایس کے نیازی کاشمارملک کے صفحہ اول کی جہاندیدہ اورتجربہ کارصحافیوں میں ہوتا ہے ،آپ نے اپنے قلم کے ذریعے ہردورمیں جہاد کیاہے ، آپ کی تحریریں ،کالم اورروز ٹی وی پر نشر ہونیوالے پروگراموں میں ہمیشہ اسلام ،افواج پاکستان اورغریب عوام کے حق میں بات کی گئی ہے ، صحافتی اور مالکان کی یونینوں میں آپ ہمیشہ سے سرگرم رہے ہیں، حکومتی اور صحافتی حلقوں میں انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھاجاتاہے مگرچونکہ وہ حق بات کہتے ہیں ۔کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز نے سال 2023-24کےلئے دو کمیٹیوں کی تشکیل کا اعلان کردیا ہے جن میں اسلام آباد،راولپنڈی کمیٹی اور پنجاب کمیٹی شامل ہے۔اسلام آباد ، راولپنڈی کمیٹی2023-24کا چیئرمین سردار خان نیازی، ڈپٹی چیئرمین یحییٰ سدوزئی کو مقرر کیا گیا ہے۔اس کمیٹی کا مقصدوفاقی دارالحکومت میں کام کرنےوالے سی پی این ای کے رکن اخبارات و جرائد کے مفادات کا تحفظ کرنا، وفاقی دارالحکومت میں پرنٹ میڈیا کی سرگرمیاں جےسے فنکشنز، ورکشاپس اور سیمینار وغیرہ کا انعقاد کرنا ہے تاکہ پرنٹ میڈیا کے معیارات کو فروغ حاصل ہو ۔ وفاقی دارالحکومت میں سی پی این ای اجلاس اور فنکشنزکے انعقاد میں اسٹینڈنگ کمیٹی کی معاونت کرنا،سیکرٹری جنرل ،اسٹینڈنگ کمیٹی کی طرف سے تفویض کردہ دیگر امور کی انجام دہی یقینی بنانا، پریس سے متعلق امور پر غور کرنا اور انہیں اسٹینڈنگ کمیٹی کو پیش کرنا ،پریس کے کردار اور اہمیت کو اجاگر کرنے کےلئے مختلف پروگراموں کا انعقاد کرنا ہے جبکہ پنجاب کمیٹی کا چیئرمین یوسف نظامی ، ڈپٹی چیئرمین ایاز خان کو بنایا گیا ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے