کالم

تعلیمی اداروں میں منشیات کے خاتمے کا فیصلہ

riaz-chuadary

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں منشیات کے عادی افراد خاص طور پر نشے کی لت کا شکار نوجوان طلباءو طالبات کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں بھی اس حوالے سے صورتحال اتنی اچھی نہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال بھی خطرے کی علامت ہے جس کے تباہ کن اثرات نہ صرف نشہ کرنے والے فرد بلکہ اس کے خاندان کے دیگر افراد اور معاشرے تک محسوس کئے جاتے ہیں۔وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے تعلیمی اداروں میں منشیات کے بڑھتے ہوئے رحجان پر سخت تشویش کااظہار کرتے ہوئے ان کو منشیات سے پاک کرنے کیلئے سخت قانون سازی کا فیصلہ کیا ہے۔ اس ضمن میں پنجاب کنٹرول آف نارکوٹکس سبسٹنس ایکٹ 2022کا مسودہ تیار کر لیا گیا ہے جسے جلد ہی حتمی شکل دے کر پنجاب اسمبلی سے منظور کرایا جائےگا۔
ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد 76 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے جن میں 78 فیصد مرد اور 22 فیصد خواتین ہیں۔ منشیات کے عادی افراد میں 13سے 24سال کے لوگ شامل ہیں جو ایک یا ایک سے زائد بار نشے کی طرف مائل ہوئے ہیں۔ پاکستان میں امیر اور غریب افراد کے نشے میں واضح فرق ہے کیونکہ نشہ اب سستا نہیں ہے۔ پیسے والا طبقہ آئس کرسٹل، میتھ ، حشیش اورہیروئن کےساتھ ساتھ مختلف دواو¿ں کا استعمال کرنا پسند کرتا ہے جبکہ متوسط طبقے وا لے فارماسیوٹیکل ڈرگز، شراب، چرس، پان، گٹکا، نسوار اورسگریٹ وغیرہ کا سہارا لیتے ہیں۔
اس قانون کے تحت سکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں منشیات کے استعمال، خرید و فروخت پر سخت سزائیں دی جائیں گی۔جبکہ منشیات کی خرید و فروخت اور استعمال پر سزائیں بڑھانے کا فیصلہ کیا گیااورکم از کم سزا 2 سال قید اور زیادہ سے زیادہ سزا عمر قید رکھنے کی تجویز پر غور کیا گیا۔ کابینہ اجلاس میں منشیات کے سدباب کیلئے خود مختار ادارہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس کےلئے خصوصی عدالتیں قائم ہوں گی۔اینٹی نارکوٹکس پولیس سٹیشن بھی بنائے جائیں گے۔تعلیمی اداروں میں منشیات فروشی اوراستعمال پر ادارے کے مالکان اورملازمین بھی ذمہ دار ہوں گے۔
یہ ضروری ہے کہ نئی نسل کو ہر قیمت پر منشیات کے زہر سے بچایا جائے ۔تعلیمی اداروں میں منشیات فروشی قطعی طورپرناقابل برداشت ہے۔ نجی تعلیمی اداروں میں منشیات فروشی اوراستعمال پر ادارے کے مالکان اورملازمین بھی ذمہ دار ہوں گے۔اسی طرح سرکاری تعلیمی اداروں میں بھی ملازمین اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اس لعنت کو ادارے سے ختم کرے۔
نشے کی عادت جہاں انسانی تباہی کا باعث بنتی ہے وہیں کئی معاشرتی اور سماجی برائیوں کو بھی جنم دیتی ہے۔ منشیات کے عادی افراد میں ایک جانب زمانے کے ٹھکرائے ہوئے یا ناکامی کے بوجھ تلے افراد شامل ہیں جو صرف راہ فرار تو دوسری جانب شوقیہ نشہ کرنے والے دولت مند ہیں جو اپنی روزمرہ زندگی میں کسی تبدیلی یا ایڈونچر کی غرض سے نشہ کرتے ہیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ ان میں بڑی تعداد ایسی کم عمر لڑکیوں کی ہے جو مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں اوران کے دوستوں میں نشہ آور اشیا کا استعمال عام بات ہے اسی وجہ سے بیشتر لڑکیاں دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کےلئے جبکہ ایک بڑی تعداد وزن پر قابو پانے کرنے کےلئے چرس کا نشہ کرتی۔
تعلیمی اداروں میں نشے کے استعمال کی روک تھام کرنے والے ادارے کی ٹیم نے لاہور سمیت پنجاب کے دیگر شہروں میں خفیہ طور پر پبلک اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں وزٹ کر کے ایک رپورٹ تیار کی جس کے مطابق تعلیمی اداروں میں زیادہ تر پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں کچھ طلبہ و طلبات سیگریٹ نوشی ، شراب اور شیشے کا استعمال کر رہے ہیں۔ آخر تعلیمی درسگاہوں میںمنشیات کس طرح پہنچائی جاتی ہے اس بارے میںذرائع کا کہنا ہے کہ سکول ، کالج اور یونیورسٹی کے جنرل سٹورز، کنٹینز،فروٹ شاپس،ہوٹلز، لانڈری اور باربر شاپس پر کا م کرنے والے ملازمین اپنے تعلیمی اداروں میں منشیات سمگل کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں بلکہ کچھ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے گارڈز بھی منشیات فروخت کرنے میں ملوث ہیں۔ تعلیمی اداروں کے باہر کھڑے چند ٹیکسی اوررکشہ چلانے والے ڈرائیورزجو بچوں کو تعلیمی اداروں میںپک اِن ڈراپ دیتے ہیں وہ بھی یہ کام بڑی مہارت کے ساتھ کرتے ہیں۔تعلیمی درسگاہوں کے اندر رہنے ولے بچے جب نشہ کرتے ہیں تو ا±ن بچوں کے منہ سے نشے کی بدب±و نہیں آتی کیونکہ وہ اپنے منہ میں خوشبو والا سپرے کر لیتے ہیں تاکہ کسی کو شک بھی نہ ہو سکے ۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں اینٹی نارکوٹکس فورس کے ہونے کے باجود بھی تعلیمی اداروں میں نشے کا رحجان کیوں بڑھ رہا ہے؟
بہر حال وزیر اعلیٰ پنجاب نے تعلیمی اداروں سے منشیات کی روک تھام کےلئے جو قدم اٹھایا ہے تو بہت بروقت اور نوجوان نسل کو اس علت سے دور رکھنے کی انتہائی مو¿ثر کوشش ہے۔ اس ضمن میں قانون سازی کے بعد قانون پر عمل درآمد بھی ہونا لازمی ہے تاکہ ذمہ دار افراد کو قرار واقعی سزا ملے اور ہمارا مستقبل محفوظ ہوجائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے