کالم

جنگ موتہ میں شہادت حضرت جعفر طیارؓ

riaz chu

جنگ موتہ جمادی الاول 8ھ میں جنوب مغربی اردن میں موتہ کے مقام پر ہوئی جو دریائے اردن اور اردن کے شہر کرک کے درمیان میں ہے۔ اس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شریک نہیں تھے اس لیے اسے غزوہ نہیں کہتے بلکہ جنگ یا سریہ یا معرکہ کہتے ہیں۔ اس میں علی المرتضیؓ سمیت کئی جلیل القدر صحابہ شامل نہیں تھے۔جنگ موتہ میں حضرت جعفر طیارؓ کی شہادت ہوئی۔”موتہ“ملک شام کاایک سرحدی قصبہ تھاجہاں یہ معرکہ ہوا۔ دعوت اسلام کے ساتھ غلبہ اسلام بھی مقصدبعثت میں سے ایک تھا۔صلح حدیبیہ کے بعد مسلمان اور قریش کے درمیان میں کچھ وقت کےلئے جنگ نہ ہوئی۔ یمن کے ساسانی گورنر کے اسلام قبول کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے قبائل بھی مسلمان ہو گئے تھے۔ اس طرف سے اطمینان کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسلام کی تبلیغ کیلئے کچھ سفیر اردن اور شام کے عرب قبائل کی طرف روانہ کیے جنہیں ان قبائل نے سفارتی روایات کے برخلاف قتل کر دیا۔ یہ عرب قبائل بازنطینی سلطنت (مشرقی روم کی سلطنت) کے باج گزار تھے۔ سفیروں کے قتل کے بعد ان قبائل کی سرکوبی کیلئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے 3000 کی ایک فوج تیار کر کے مغربی اردن کی طرف روانہ کی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سپہ سالاروں کی ترتیب یہ رکھی کہ زید بن حارثہ رَضی اللہ± تعالیٰ عنہ± کو اس لشکر کا امیر مقرر کیا ، ان کی شہادت کی صورت میں جعفر بنابی طالب(جعفر طیار) کو مقرر کیا اور ان کی شہادت کی صورت میں عبداللہ بن رواحہ کو مقرر کیا۔ اور یہ کہ اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو لشکر اپنا امیر خود چن لے۔ دوسری طرف سے ہرقل کی قیادت میں ایک لاکھ رومی اور ایک لاکھ عرب قبائل پر مشتمل فوج بھی تیار ہوئی جو مروجہ ہتھیاروں سے لیس تھی۔ جب مسلمان موتہ پہنچے اور دشمنوں کی تعداد کا پتہ چلا تو انہوں نے پہلے سوچا کہ مدینہ سے مزید کمک آنے کا انتظار کیا جائے مگرعبداللہ بن رواحہ رَضی اللہ± تعالیٰ عنہ± نے اسلامی فوج کی ہمت افزائی کی اور اسلامی فوج نے پیش قدمی جاری رکھتے ہوئے جنگ کی۔جنگ شروع ہوئی تو زید بن حارثہ رَضی اللہ± تعالیٰ عنہ± نے شجاعت کے ساتھ جنگ کی۔ رومی افواج تجربہ کار تھیں۔ انہوں نےزید بن حارثہ رَضی اللہ± تعالیٰ عنہ± کو نیزوں کی مدد سے زمین پر گرا کر شہید کر دیا تو جعفر طیار رَضی اللہ± تعالیٰ عنہ± نے علم سنبھال کر اسلامی افوج کی قیادت کی مگر جب وہ گھیرے میں آگئے اور محسوس کر لیا کہ اب شہادت قسمت میں لکھی ہے تو اپنا گھوڑا فارغ کر دیا اور پیدل نہایت خونریز جنگ کی اور 80 زخم کھائے۔ اس دوران میں ان کے دونوں ہاتھ کٹ گئے اور وہ شہید ہو گئے۔ان کے بعد عبداللہ بن رواحہ رَضی اللہ± تعالیٰ عنہ± نے علم سنبھالا اور رومی افواج کے مرکز میں زبردست حملہ کیا۔ شدید لڑائی میں وہ بھی شہید ہو گئے۔ جب یہ تینوں نامزد قائد شہید ہو گئے تو اسلامی فوج نے خالد بن ولید رَضی اللہ± تعالیٰ عنہ± کو اپنا امیر چنا۔خالد بن ولید رَضی اللہ± تعالیٰ عنہ± حال ہی میں اسلام لائے تھے اور اعلیٰ درجہ کے سپاہی اور جنگجو تھے۔ انہوں نے بھانپ لیا تھا کہ مسلمانوں کے جنگ جیتنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ اسی اثناءمیں رات ہو گئی۔ انہوں نے اپنی افواج کو پیچھے ہٹا لیا۔ انہوں نے ایک زبردست جنگی حربہ اختیار کیا۔ انہوں نے بے شمار سپاہیوں کو پہاڑ کی اوٹ میں بھیج دیا اور ان سے کہا کہ اگلی صبح نئے جھنڈوں کے ساتھ گردو غبار اڑاتے ہوئے پیچھے سے اسلامی فوج میں شامل ہو جائیں۔ اس تدبیر سے رومی سمجھے کہ مدینہ سے مسلمانوں کے لیے نئی امداد آ گئی ہے ۔ رومیوں نے اپنی فوج کو پیچھے ہٹا لیا اور جنگ رک گئی۔ اس طرح دونوں افواج واپس چلی گئیں اور مسلمانوں کو دو لاکھ کی رومی فوج سے بچا کر مدینہ واپس لایا گیا۔مطالعہ سیرة النبی کی مطالعاتی نشست میں ”جنگ موتہ(شہادت حضرت جعفرطیارؓ)“کے عنوان پر سید افتخار گیلانی نے بتایا کہ مسلمان سفیرکے قتل پرردعمل کےلئے حکم بنویکے تحت یہ معرکہ پیش آیاجس میں تین ہزارصحابہ کرام کی جماعت کا دولاکھ رومیوں سے مقابلہ درپیش تھا۔آپ نے بالترتیب تین سپہ سالار مقررکیے اورتینوں کی شہادت کے بعدآپنے فرمایاکہ اب اللہ کی تلوارمیں سے ایک تلوار،حضرت خالدبن ولیدؓنے قیادت سنبھال لی ہے۔ حضرت خالدبن ولیدکی نئی حکمت عملی سے دولاکھ کالشکرمیدان سے فرار ہوا اور 12 شہادتوں کی قیمت پرصحابہ کرام کا مقدس گروہ کامیابی سے ہمکنارہوا۔میدان جنگ میں ایک تنگ پہاڑی راستہ سے جب حضرت جعفرطیار باہر نکلے تودشمن نے انہیں اپنے نشانے پرلے کرانہیں شہیدکردیا۔ تین ہزار سے دولاکھ کاکوئی مقابلہ نہیں بنتالیکن صحابہ کرام کی ایمانی قوت نے انہیں کامیابی عطاکردی۔ نظم و ضبط،پختگی ایمان ، صبر اور اطاعت رسولایسے اوامرتھے جو فتح کاباعث بنے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے