کالم

ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے

riaz chu

چند روز پہلے کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے واٹس ایپ پر ایک بیان جاری کیا گیا تھا جس میں تنظیم کے کارکنوں سے کہا گیا تھا کہ وہ پاکستان میں حملے شروع کر دیں۔ یہ بیان تنظیم کے ترجمان نے تنظیم کے شعبہ دفاع یا مزاحم کی طرف سے جاری کیا تھا اور بیان کے آخر میں اسے جاری کرنے والے کا نام ’مفتی مزاحم‘ لکھا گیا تھا۔ ٹی ٹی پی کا پاکستان حکومت کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ گذشتہ سال افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد شروع ہوا تھا اور رواں برس جون میں طالبان نے غیر معینہ مدت تک کے لیے جنگ بندی کا اعلان کر دیا تھا۔تاہم یہ جنگ بندی چند ماہ ہی رہی اور 28 نومبر کو کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے بیان جاری کیا گیا جس میں تنظیم کے کارکنوں کو ملک بھر میں حملے کرنے کی ترغیب دی گئی۔دو روز قبل کوئٹہ میں ٹی ٹی پی کی جانب سے کیے جانے والے ایک خود کش حملے میں پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ جبکہ اس کے علاوہ شمالی وزیرستان ، چارسدہ اور دیگر علاقوں میں بھی سکیورٹی اہلکاروں اور پولیس پر حملے کیے گئے ہیں۔ پاکستان کے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے بھی گذشتہ روز طالبان کی بڑھتی کارروائیوں کا ذکر کیا تھا۔اسلام امن و صلاح کا مذہب ہے۔ اس میں جبر نام کی کوئی چیز نہیں۔ ارشاد ربانی ہے”اور جو کوئی کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب“۔زندگی اللہ کی امانت ہے اور اس میںخیانت کرنا اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک ایک بڑا جرم ہے۔ سورة النساءمیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (اور اپنی جانیں قتل نہ کرو، بےشک اللہ تم پر مہربان ہے اور جو ظلم اور زیادتی سے ایسا کرے گا تو عنقریب ہم اسے آگ میں داخل کریں گے اور یہ اللہ کو بہت آسان ہے) ۔اس الزام کو بھی بار بار دہرایا گیا کہ اسلام کا نظریہ جہاد ہی خدانخواستہ دہشت گردی کی اصل جڑہے۔سورہ المائدہ ‘ آیت نمبر 32میں ارشادباری تعالیٰ ہے ” جو شخص کسی کو ناحق قتل کرے گا(یعنی) بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے یاملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے ۔ اس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کیا اور جس شخص نے ایک شخص کی جان بچائی اس نے گویا تمام لوگوں کی جان بچائی“۔سورئہ النساءآیت 29 میں خودکشی کو واضح طور پر حرام قرار دیا گیا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے” خود کو قتل نہ کرو ‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تم پر رحم کرنےوالا ہے “ خودکشی کرنا اللہ تعالیٰ کے کاموں میں مداخلت کے مترادف ہے ۔ اسے کفر ان نعمت ہی تصور کیاجائے گا کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ زندگی کا چراغ خود ہی بجھا دیا جائے ۔کسی بھی انسان کو ناقابل برداشت مصائب اور آزمائش کی گھڑی میں بھی اپنی جان لینے کی اجازت نہیں ہے ۔خود کش حملے اور بم دھماکے کرنے والے پوری انسانیت کے دشمن ہیں اور دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کرکے اس کا ابھرتا ہوا تاثر خراب کرنا چاہتے ہیں۔ کچہری پر حملے اور ججوں کو ہراساں کر کے عوام کوعدل وانصاف کی فراہمی کی راہ میں حائل ہونا چاہتے ہیں۔سکولوں پر حملہ کر کے تعلیم میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ بازاروں میں خود کش دھماکے کر کے معیشت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔کوئی بھی ذی ہوش مسلمان ان دھماکوں کو قطعاً اسلامی فعل نہیں سمجھتا۔ دھماکہ کرنے اور کروانےوالے لوگ اسلام پسند نہیں ہیں۔ اب تک ان لوگوں نے ہمارے ہزاروں بھائی مارے ہیں۔ عورتیں بیوہ ہوئی ہیں، ہمارے بچے یتیم ہوئے ہیں۔ ہمارے ماں باپ بے سہارا کئے ہیں۔ ہمارے کاروبار تباہ کئے ہیں۔ ان لوگوں کو ہمارے درد کا احساس نہیں ہے۔ اگر ان کے عزیز اس طرح مارے جاتے تو شائد ان کو احساس ہوتا۔ اسلام تحمل برداشت اور روداری کا نام ہے اس میںنفرت ، غصہ اور انتہا پسندی کی کہیں بھی مثال نہیں ملتی اور اسلام کو ایک انتہا پسند مذہب کے طورپر جانا گیا۔ انتہا پسند اسلام کا جو تصور پیش کر رہے ہیں یہ ان کا اپنا ہی پیدا کردہ ہے۔ دہشت گردی اسلام کا وطیرہ نہیں بلکہ یہ عفوو درگزر کا درس دیتا ہے جو امن کی ضمانت ہے مگر مسلمانوں کو بنیاد پرست، انتہا پسند اور دہشت گرد قرار دےکر بدنام کیا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کے بارے میں غلط تاثرات کے خاتمے کےلئے بار آور کوششیں ہونی چاہیں۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی سے جمہوری رویے، آزادی اظہار رائے اور ایک دوسرے کی بات سننے اور برداشت کرنے کا مادہ آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا ہے ۔ معاشرہ انارکی اور تخریب کاری کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ ملک میں ترقی اور امن کا قیام بھی متاثر ہو رہا ہے۔ عوام میں عدم تحفظ پایا جاتا ہے۔بہت سے عالم دین نے خود کش حملوں کو حرام قرار دیتے ہوئے خود کش حملہ آور کو موت کو خود کشی قرار دیا ہے جو نہ صرف اپنی جان لیتا ہے بلکہ بہت سے بے گناہ لوگوں کی جان لینے کا باعث بھی بنتا ہے۔ خود کش حملے ناجائز، حرام اور اسلام کے منافی ہیں۔ کوئی مسلمان ایسی گری ہوئی حرکت نہیںکر سکتا۔ اس سے مسلمانوں اور خصوصاً غریب عوام کا نقصان ہو رہا ہے۔ لوگ جاں بحق ہو رہے ہیں۔ جہاد اور دہشت گردی میں فرق ہے مگر مغربی دنیا جہاد کو دہشت گردی سے نتھی کر کے اسلام کو بدنام کرنے پر تلی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے