کالم

جنرل پرویز مشرف کادورتاریخ کے آئینے میں

riaz chu

سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگانے والے سابق صدر مملکت جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف انتقال کر گئے۔ ان کا انتقال اتوار کی صبح متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی کے ایک امریکی نجی ہسپتال میں ہوا۔ ان کی عمر 79 برس تھی اور وہ امریکن ہسپتال دبئی میں زیر علاج تھے۔ پرویز مشرف خرابی صحت کے اس مرحلے میں تھے جہاں صحت یابی ممکن نہیں اور اعضا خراب ہو رہے تھے۔ پرویز مشرف کی تدفین کراچی میں ہوگی۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی، وزیر اعظم محمد شہباز شریف، سیاسی ومذہبی جماعتوں کے قائدین، عسکری قیادت نے بھی پرویز مشرف کے انتقال پر اظہار افسوس کیا ہے۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، آرمی چیف اور تینوں سروسز چیفس نے پرویز مشرف کے درجات کی بلندی اور اہل خانہ کیلئے صبر جمیل کی دعا کی۔صدر جنرل (ر) پرویز مشرف گیارہ اگست 1943 کو وہ دہلی میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد والدین کے ہمراہ کراچی منتقل ہوگئے۔ پرویز مشرف عمر کے ابتدائی سالوں میں والدکی پوسٹنگ کے دوران ترکی انقرہ میں رہے، اس کے بعد کراچی میں سینٹ پیٹرک ہائی اسکول اور ایف سی کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔انہوں نے 1961 میں پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا اور اسپیشل سروسز گروپ میں شمولیت اختیار کی۔ 1965اور 1971 کی جنگوں میں بھی حصہ لیا۔ کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ سے گریجویشن کی اور رائل کالج اور ڈیفنس اسٹڈیز برطانیہ سے بھی کورسز کیے ۔ اپنے ملٹری کیرئیر میں پرویز مشرف نے کئی کمانڈز اور تربیتی سربراہ کے عہدوں پر کام کیا اور ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کے اہم عہد ے پر بھی فائز رہے۔ انہیں فوجی تاریخ میں کارگل آپریشن کے مرکزی کردار کےطور پر جانا جاتا ہے۔جنرل پرویز مشرف کو اکتوبر 1998ءمیں اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے آرمی چیف مقرر کیا تھا۔ ان کی سربراہی میں کارگل کا مشہور زمانہ معرکہ ہوا۔ 12 اکتوبر 1999ءکو انھوں نے منتخب حکومت کو ہٹا کر مارشل لاءنافذ کر دیا اور آرمی چیف کے ساتھ ملک کے چیف ایگزیکٹو کی ذمہ داریاں بھی سنبھال لیں۔ 20 جون کو ایک ریفرنڈم کے ذریعے وہ صدرِ مملکت بن گئے ۔ جنرل پرویزمشرف وردی کو اپنی چمڑی کہتے تھے اور حکومت کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے تھے ۔ وہ چیف جسٹس افتخار چودھری کو اپنی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔سابق صدر پرویزمشرف کے زوال کا آغاز تو ا±س وقت کے پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی برطرفی کے بعد ا±ن کی عدلیہ سے محاز آرائی کی شکل میں شروع ہوا۔صدر مشرف نے اپنے خصوصی نمائندے کے ذریعے راقم الحروف سے را بطہ کیا تھا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے خلاف جوریفرنس دائر ہوا ہے اس کی حمایت میں کالم لکھا جائے۔ اس کےلئے سینکڑوں صفحات پر مشتمل مسودہ بھی بھجوایا اور اس کےلئے بہت بڑی رقم کی پیشکش بھی ہوئی۔ مگر میں نے اس سے انکار کر دیا کہ میں اپنے ضمیر کے خلاف نہیں لکھ سکتا۔ میں جسٹس افتخار چودھری کے خلاف ریفرنس کو غلط سمجھتا ہوں اور یہ جو آپ نے اقدام کیا ہے اس کا قانون و آئین میں کوئی جواز نہیں ہے۔ ان کے دور حکومت میں ملک کے شمالی سرحدی علاقوں میں آپریشن اور ڈرون حملوں میں سیکڑوں ہلاکتیں ہوئیں ،سوئی میں ڈاکٹر شازیہ ریپ کیس، نواب اکبر بگٹی کی شہادت اور لال مسجد آپریشن پرعوامی ، سیاسی سماجی حلقوں میں انتہائی غم و غصہ پایا گیا جس نے ان کو ایک متنازع شخصیت بنادیا۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور میں بہت سے متنازعہ فیصلے کیے جن کے ملک پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ امریکا کی طرف سے افغانستان پر مسلط کی جانے والی جنگ میں انھوں نے امریکا کے فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کیا اور پورے ملک کو دہشت گردی کی ایک نا ختم ہونے والی جنگ میں دھکیل دیا۔ آج بھی پاکستان جس دہشت گردی کے عذاب میں مبتلا ہے اس کے ایک ذمہ دار پرویز مشرف بھی ہیں۔ انہوں نے ڈالروں کی خاطر پاکستانیوں کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ کے حوالے کیا جانا بھی ان ہی کے دور کی بات ہے۔ ان ڈالروں کی وجہ سے ملک میں مہنگائی تو نہیں ہوئی مگر ڈالروں کی عوض خود مختیاری، سالمیت اور قومی غیرت کے سودے کئے گئے۔ اب تک 83000 افراد دہشت گرد حملوں میں شہید ہو چکے ہیں۔بھارت وزیر اعظم واجپائی کے ساتھ امن مذاکرات کو سبو تاژ کیا ۔انھوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں ایک فارمولہ بھی پیش کیا لیکن اسے کہیں سے بھی پذیرائی حاصل نہ ہو سکی۔جب اقتدار میں آئے تو غیر جانبدارانہ تحقیقات اور احتساب کرنے کا نعرہ لگایا مگر کچھ نہ کیا۔ بلکہ اپنی پارٹی بنا کر سیاسی لوگوں کو اس میں شامل کیا۔ انہیں این آر او دیا۔ آٹھ اگست 2008 کو سابق وزیر اعظم اور اس وقت مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف نے اس وقت پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے زرداری ہاو¿س اسلام آباد میں ملاقات کی اور پرویز مشرف کو ہٹانے کا اعلان کیا۔ یعنی اگر مشرف استعفیٰ دے دیں تو ٹھیک ورنہ ا±ن کے مواخذے کا اشارہ کر دیا گیا۔18 اگست کو پرویز مشرف نے دن تقریباً دو بجے ایک طویل خطاب کے اختتامی حصے میں اپنے استعفے کا اعلان کیا اور گارڈ آف آنر لے کر ایوان صدر سے رخصت ہو گئے اور کچھ عرصہ بعد بیرون ملک خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لی۔صدرِ مملکت کے عہدے سے سبکدوشی کے بعد ان کے خلاف مختلف مقدمات قائم کیے گئے تاہم انھیں کسی کیس میں بھی سزا نہ ہو سکی۔ آئین توڑنے کے جرم میں سنگین غداری کا مقدمہ بھی درج ہوا جس پر انھیں خصوصی عدالت نے سزائے موت سنا دی تاہم اسے بعد میں کالعدم قرار دے دیا گیا۔ بہرحال جنرل پرویز مشرف کی وفات کے بعد ایک دور کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ وہ اپنے خالق کے حضور پیش ہو چکے، ان کے خلاف مقدمات اور ان کے فیصلے اور اقدامات اب اس بڑی عدالت میں چلے گئے ہیں جہاں کوئی سفارش کام نہیں آتی۔ہم ان کے انتقال پر اظہار افسوس کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی کوتاہیوں پر درگزر کرتے ہوئے مغفرت فرمائے۔ ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کر ے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے