نوازشریف تین بار وزیراعظم منتخب ہوئے لیکن ان کو تینوں مرتبہ اینگزمکمل کرنے نہیںدی گئی ۔نوازشریف تین بار قبل ازوقت کیوں آﺅٹ ہوئے ؟اس میں پیچ اور موسمی حالات کے ساتھ ساتھ ان کی اپنی غلطیاں بھی ہیں،جب ان کو معلوم تھا کہ پیچ اور موسم ساز گار نہیں ہے تو پھر ان کو ہر گیند پر کریز سے باہر نکل کر چھکے لگانے کی کیا ضرورت تھی؟ایسی صورت میںپیچ اور موسم کے مطابق کھیلنا پڑتا ہے لیکن تینوں بار نواز شریف پیچ اور موسم کے حالات کے برعکس کھیلے۔اب ایک بار پھرنوازشریف نے لندن میں پیچ اور موسمی حالات کے برعکس کھیلنے کا اشارہ دیا ہے۔نوازشریف کو وطن واپس آنا چاہیے کیونکہ پاکستان ان کا اپنا ملک ہے،ان کو مشرف دور میں جلاوطنی کا آپشن قبول نہیں کرنا چاہیے تھا اور پھر عمران خان کی حکومت میںعلاج کی غرض سے باہر نہیں جانا چاہیے تھابلکہ ان کو مشکل وقت اور حالات پاکستان ہی میں گذارنے چاہیے تھے۔ سیاست دانوں پر مشکل وقت اور بُرے حالات آتے رہتے ہیں،ان سے گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے۔ خاکسار نے چند روز قبل صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبر پختوانخواہ کے چند اضلاع کا وزٹ کیا،مختلف مکتبہ فکر کے افراد سے ملاقاتیں کیں،ان کے ساتھ مختلف موضوعات پر گفتگوکی،ان کے سامنے نواز شریف کی وطن واپسی کا سوال بھی رکھا،ان لوگوں کی گفتگو کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے ۔”ان کے مطابق نوازشریف کو وطن واپس آنا چاہیے کیونکہ یہ ان کا اپنا ملک ہے۔نوازشریف تین مرتبہ وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب بھی رہے لیکن اُنھوں نے اُس لیول کا اسپتال نہیں بنایا جس میں وہ اپنا علاج کرواسکتے۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے موت کو گلے لگایا لیکن ڈیل کرکے باہر نہیں گئے۔ نوازشریف کو ڈیل کرکے دو مرتبہ ملک کو نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔نوازشریف کے دونوں بیٹے ملک سے باہر ہیں جبکہ عمران خان کے بھی دونوں بیٹے ملک سے باہر ہیں۔ان دونوں نواز شریف اور عمران خان کو کم از کم اپنے بیٹوں کوملک واپس لانا چاہیے ۔جب ان کے اپنے بیٹے ملک میں نہیں رہتے ہیں تو یہ دوسروں نوجوانوں سے کیا توقع رکھیں کہ ملک سے ٹیلنٹ باہر نہ جائے ۔ عمران حکومت کے خاتمے کے بعد نواز شریف کے بھائی شہبازشریف وزیراعظم رہے اور اسحاق ڈار وزیر خزانہ رہے ،ان اٹھارہ مہینوں میں ہر چیز کی قیمت ڈبل سے بھی زیادہ ہوگئی،انھوں نے حسب روایت تمام ملبہ سابقہ حکومت پر ڈالنے کی سعی کی۔ پی ٹی آئی حکومت کے آخری مہینے مارچ 2022ء میںآٹا78روپے فی کلو،پٹرول150روپے لیٹر، چینی 80روپے کلو، ڈالڈا گھی300 روپے کلو، بجلی14روپے فی یونٹ اور ڈالر178، زرمبادلہ کے ذخائز 21ارب ڈالر تھے جبکہ پی ڈی ایم حکومت کے آخری مہینے جولائی 2023ء میںآٹا 155 روپے فی کلو،پٹرول273روپے لیٹر، چینی170 روپے، بجلی فی یونٹ پچاس روپے،ڈالر286 روپے اور زرمبادلہ کے ذخائر 8.73 ارب ڈالر تھے۔نوازشریف مہنگائی کم کرنے اور ملک کی حالت بہتر کرنے کی نوید لیکر آرہے ہیں تو انھوں نے اپنے بھائی سابق وزیراعظم شہباز شریف اور سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار کو وہ فارمولہ کیوں نہیں بتایا کہ جس سے وہ ملک میں مہنگائی کم کرتے اورپاکستان کے حالات بہتر کرتے۔شہباز شریف کے دور میں ایسے افراد مشیراور کوارڈینٹروغیرہ بنے جن کے پاس خوشامد کے علاوہ کوئی اہلیت نہیں تھی،وہ مکمل پروٹوکول اور مراعاتیں لیتے رہے اورلے رہے ہیںلیکن ان کے گھروں کے آس پاس ایک آدھ مربع کلومیٹر رقبے میں لوگ پانی ،بجلی، گیس ، سیوریج، پختہ گلیوں،تعلیم اور صحت سمیت تمام سہولیات سے محروم ہیں، نواز شریف صاحب کو جنرلوں اور ججوں کا احتساب کرنے کی بجائے پہلے ایسے مشیروں اور کوارڈینٹروں کا احتساب کرنا چاہیے، جوعوام کے ٹیکس پر پروٹوکول لیتے رہے لیکن اپنے علاقے میںعوام کو بنیادی سہولیات سے محروم رکھا ۔نواز شریف کے اپنے دور میں بھی بعض افراد اہم عہدوں پر رہے لیکن ان کے پاس اس عہدے کی اہلیت نہیں تھی۔لاہور نواز شریف کا آبائی شہر ہے، پاکستان کا دل اور سب سے بڑے صوبے کا دارالحکومت ہے لیکن پوش علاقہ جات کے علاوہ عام علاقوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ان میںبنیادی سہولیات کا فقدان ہے اورصفائی کی حالت ابتر ہے۔مسلم لیگ ن حکومت نے لاہور میں عوام کومیٹرو بس ، اسپیڈو بس اور اورنج ٹرین سروس جیسی سہولیات فراہم کیں جو کہ قابل تعریف ہیں لیکن عام علاقوں کو بالکل نظر انداز کیا ہے ۔لاہور دنیا کا آلودہ ترین شہر بن چکا ہے،دھواں ،اسموگ کے ساتھ اب پھیری والے اور آئس کریم بیجنے والے لاوڈ اسپیکر بہت زیادہ استعمال کرکے صوتی آلودگی میں بہت اضافہ کررہے ہیں،لاوڈ اسپیکر ایکٹ کی کھلی خلاف ورزی کررہے ہیں، رہائشی علاقوں میں لوگوں کا جینا دوبھر کردیا لیکن آئی جی پولیس پنجاب اور سیکرٹری ماحولیات ان کو کنٹرول نہیں کرسکتے ہیں۔علاوہ ازیں لاہور میںبعض نوسرباز پراپرٹی ڈیلر لوگوں کو فریب دے کر ایسے پلاٹ بیچ رہے ہیں ،جہاں بجلی، گیس اور دیگر سہولیات موجود نہیں ہوتی ۔وہ لوگوں کو کہتے ہیں کہ بس جلد بجلی، گیس اور دیگر سہولیات پہنچ جائیں گی لیکن پھر لوگ سالوں بنیادی سہولیات کے بغیر رہنے پر مجبور ہوتے ہیں، وہ نوسر باز بااثر ہیں ،ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیتا تو اس لیے لوگ چپ پر اکتفا کرتے ہیں۔لاہور میں بجلی اور گیس کی چوری بھی زیادہ ہے۔لاہور مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتا رہا لیکن اب حالات اس قدربھیانک ہوچکے ہیں،جہاں عام آدمی کی زیست میں سکھ نہیں ۔لوگ یہ سوال بھی کررہے ہیں کہ نواز شریف، شہباز شریف اور مسلم لیگ ن کے رہنماﺅں نے ان مسائل کی طرف توجہ کیوں نہیں دی؟نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز اور دیگر مسلم لیگ ن کے رہنماﺅں کو چاہیے کہ وہ خوشامدی ٹولوں کے اسیر سے باہر نکل کر زمینی حقائق کا خود مشاہدہ کریں اور اپنی سرگرمیاں پوش علاقوں تک محدود نہ رکھیں۔علاوہ ازیںملک میں جہاں مہنگائی بہت زیادہ ہے، وہاں بے روزگاری بھی بہت زیادہ ہے۔پانچ چھ سالوں سے نوجوانوں کو نوکریاں یا روزگار نہیں ملا ہے، وہ روزگار کی تلاش میں دربدر ہیںاور نوجوان طبقہ نالاں ہے۔”قارئین کرام! عام آدمی کیا سوچتا اور کیا محسوس کرتا ہے، اس کی معمولی جھلک دکھائی گئی ہے۔یہ سب سابقہ حکومتوں کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔نوازشریف کو وطن واپس آنا چاہیے، عدالتوں کا سامنا کرنا چاہیے،ان کے ساتھ انصاف ہوناچاہیے، ان کو سیاسی سرگرمیوں میں بھرپور شرکت کاموقع دیناچاہیے، عوام نے ان پر اعتماد کیا تو پھر ان کو پانچ سال پورے کرنے کا موقع دینا چاہیے۔الیکشن میں غیر ضروری تاخیر نہیں کرنی چاہیے ،عوام جس کو بھی ووٹ دے ،ان کو حکومت بنانے کا موقع دینا چاہیے،جس کی بھی حکومت بنے،ان کو کابینہ تشکیل دینے سمیت تمام کام میرٹ پر کرنے چاہئیں اور ایسے کام کرنے چاہئیں،جس سے مہنگائی، غربت اور بے روزگاری ختم ہو جائے،ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے۔
٭٭٭٭٭
کالم
نوازشریف کی وطن واپسی۔۔۔!
- by web desk
- اکتوبر 9, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 364 Views
- 1 سال ago