طبعاً ہمارا دھیان اپنی مادی تاریخ کی بجائے خیالی تاریخ کی طرف مائل اور متوجہ رہتا ہے۔ہمیں یہ جاننے سے کوئی دلچسپی نہیں کہ ہمارے خطے میں ماضی قریب اور ماضی بعید میں کون کونسی تہذیبیں پیدا ہوئیں اور پروان چڑھیں، تمدن کے کیسے کیسے نمونے یہاں طلوع ہوئے اور اب آثار کی صورت اس سرزمین میں محو خواب ہیں۔ان میں سے جو آثار منظر عام پر آئے بھی تھے تو وہ آرکیالوجی کے غیر ملکی ماہرین کی توجہ اور محنت کا نتیجہ تھے۔ ہمیں تو تاریخ میں نہیں ،تاریخ میں رہائش پذیر ہونے میں دلچسپی رہتی ہے ،وجہ یہ ہے کہ ہمیں یہی سکھایا ،بتایا اور پڑھایا گیا ہے۔ ہمیں ریاست کے کسی عمدہ اور مبنی بر انصاف تصور سے روشناس نہیں کرایا گیا۔چونکہ ہمارے اپنے دماغ سلا دیئے گئے اور دلوں کے چراغ بجھا دئے گئے تھے ،اس لیے کسی آزاد تخیئل، تصور اور نظریے کا ہمارے احاطہ خیال اور دائرہ امکان میں وارد ہونا ممکن نہیں۔یہاں کی ریاستیں اور راجواڑے کیونکر تباہ و برباد ہو گئے؟ ان کی تباہی و بربادی کی ذمہ داری قدرتی آفات کے علاہ ان ریاستوں کے اقتدار و اختیار پر متصرف افراد پر کتنی تھی۔ ان ریاستوں کے غنڈے کون تھے اور شرفا کس طرح کی شرافت کے مظاہرے کیا کرتے تھے۔ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔وجہ یہ ہے کہ پچھتر سال کی محنت سے ہمارے دماغ سلانے کےساتھ ساتھ ،دلوں کے دیئے بھی بجا دیئے گئے ہیں۔ اگرچہ علامہ اقبال نے پیشگی اطلاع ارزاں کر دی تھی کہ ؛
تمدن، تصوف، شریعت، کلام
بتانِ عجم کے پجاری تمام!
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
لیکن اس تنبیہ اور پیغام کی روح کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی ۔یہ افواہ پھیلا دی گئی کہ اس خطے پر ہمیشہ بیرون ملک سے آنے والے مہم جو عسکریوں نے حکومت کی ہے۔اگر حکومت کرنے سے مراد عامتہ الناس کے وسائل کو لوٹنا اور بدقماش جھتوں کا مل بانٹ کر کھا لینے کو کہتے ہیں ،تو یہ بات درست ہے کہ یہاں مہم جو عسکریوں اور لشکریوں نے حکومت کی ہے۔ لیکن اگر اس خطے کی تاریخ کے ایک ایک حملہ آور کی آمد ، مقاصد ، احوال اور مآل کا غیر جانبدار مطالعہ و تجزیہ کیا جائے تو عقدہ کھلے گا کہ سبھی چور اچھے ، لٹیرے اور اٹھائی گیرے تھے۔جو اپنے محروم وسائل خطوں سے تنگ آکر آسودہ حال خطوں کی خوشحالی کھانے ، نوچنے اور لوٹنے کےلئے آیا کرتے تھے۔خیر یہ پرانی باتیں ہیں اور ہماری تربیت ہی اس طور کی گئی ہے کہ ہمیں حال اور مستقبل کی بجائے تاریخ اور روایات کے اندر جینا سہل لگتا ہے ۔کرہ ارض پر حاصل ہونےوالے انعامات اور فتوحات ہم نے اس عارضی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھنے والے نادان لوگوں کےلئے چھوڑ رکھی ہیں، ہماری مصیبت اکہری ہرگز نہیں ہے، ہماری ریاست پر متصرف و مقتدر لوگ طاقتور ریاستوں کے اشاروں کنایوں سے اپنی ذمہ داریوں اور مزدوریوں کا اندازہ قائم کرتے اور اس پر عامل ہو جاتے ہیں۔وجہ شاید یہ ہے کہ طاقتور ریاستیں کمزور یا مزاحمت ، مقابلے اور مجادلے سے بچنے کی آرزو مند ریاستوں سے مرضی کا تاوان وصول کرتی ہیں۔عصر حاضر میں اسکی صورتیں کافی تبدیل ہو چکی ہیں۔انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ، ورلڈ بنک اور ریاستوں کے "راجہ امبھی” اسی تاوان کی وصولی کے مختلف طریقے خیال کیے جا سکتے ہیں۔ اب ہماری ریاست کا دارالحکومت بھی ٹیکسلا سے متصل بنایا گیا ہے ۔شاید اسی لیے اس ریاست کی بیرون سے آئے حملہ آوروں کے بارے حکمت عملی پنجاب کے راجہ پورس والی نہیں ہوتی، بلکہ ٹیکسلا کے راجہ امبھی والی ہی رہی ہے ۔ستم ظریف کہتا ہے کہ راجہ امبھی اپنے لوگوں کی جانیں بچانے اور انہیں جنگ کی دیگر تباہ۔کاریوں سے محفوظ رکھنے کےلئے تاوان کے عوض امان میں آیا تھالیکن عصر حاضر کے راجہ امبھی نہ تو اپنے لوگوں کی جان کی حفاظت پر متوجہ ہیں اور نہ ہی ملک کو جنگ کی ہمہ اقسام تباہیوں سے بچانا ضروری سمجھتے ہیں۔یہ صرف لوٹ پر یقین رکھتے اور مار یعنی جنگ و جدل کو کاروبار بنائے بیٹھے ہیں۔میں ستم ظریف کی رائے سے اتفاق نہیں کرتا۔ میرے خیال میں جنگ اگر منافع بخش کاروبار ہے بھی ،تو صرف اسلحہ بنانے اور بیچنے والوں کے لیے، کسی باقاعدہ یا بے قاعدہ محاذ جنگ پر آمنے سامنے لڑنے اور مسلسل و متواتر فائرنگ کرتے چلے جانے والے فاتر العقل لوگوں کےلئے جنگ میں تباہی اور جانیں گنوانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔دوسری بات یہ ہے کہ جنگ کو بطور کاروبار چلانا ماضی بعید کا قصہ سمجھئے ۔ تمام تر مسائل و معائب کے باوجود کرہ ارض پر موجود انسانوں نے کافی ترقی کر لی۔ہاں یہ بات درست ہے کہ دنیا میں ذہنی صحت کے پیچیدہ مسائل کا شکار مکاروں اور ریاکاروں میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے اور ان میں سے ایک اچھی خاصی تعداد ریاست کے فیصلہ کن اداروں اور محکموں نیز وزارتوں میں شامل ہوئے بیٹھے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو ریاست کی تقدیس کا مصنوعی سا ہالہ بن کر شہریوں اور معاشرے سے اسکی غیر مشروط پرستش کرانا چاہتے ہیں۔ستم ظریف میری توجیحات سے مطمئن نظر نہیں آیا اور کہنے لگا کہ آپ نے جو کہا وہ میں نے غور سے سنا، میرا اس سے پوری طرح سے متفق ہونا ضروری بھی نہیں۔لیکن ،وہ کہنے لگا کہ ؛اب وقت آ گیا ہے کہ ریاست میں ریاست کی پرستش کی بجائے شہری پرستی کی تحریک چلائی جائے ۔ریاست کی حکومت اور اسکے ادارے آقا و مولا کے کاذب خیال سے باہر نکل کر اپنے خدمت اور اطاعت کے منصب کو سمجھیں، اپنی حیثیت کو پہچانیں اور اسکے مطابق شہریوں کی خدمت اور نوکری کریں ۔انہیں نیلے خون کے حامل آسمانی تائید و حمایت والے حکمران ہونے کے وہم سے چھٹکارا پا لینا چاہیئے ۔یاد رکھنا چاہئے کہ جب وطن کے شہری بے نوا غلام سمجھے جانے لگیں تو وطن پرستی بھی بت پرستی کی طرح کا جذبہ بن جاتا ہے،اس جذبے کو گیتوں ،ترانوں ،من گھڑت کہانیوں اور فرضی شجاعت کے فاسق قصوں سے جتنا بھی مزین اورسیراب کر لیا جائے ، یہ بالآخر دم توڑ جائے گا۔ اچھا یہ باتیں چھوڑو ستم ظریف یہ بتا کہ ملک میں کیا چل رہا ہے؟ ستم ظریف بڑبڑایا ؛
ہوا پیری سے شیطاں کہنہ اندیش
گناہ تازہ تر لائے کہاں سے
چلو ستم ظریف یہ اندازہ تو ہو گیا کہ تم اقبال کا کلام دیکھتے پڑھتے رہتے ہو ،پر میں ملک کے تازہ حالات پوچھ رہا ہوں ،ان پر تبصرہ چاہتا ہوں ۔کہنے لگا کیا تبصرہ کروں ، ہمارے نصیب میں نئے اور تازہ گناہ تک نہیں ہیں کیونکہ اب کم وبیش مغربی پاکستان میں بھی سابق مشرقی پاکستان جیسے سلوک اور رویے روا رکھے جا رہے ہیں۔یہ صورت حال اس لیے زیادہ تشویشناک اور خطرناک خیال کی جانی چاہئے کہ ؛ یہاں بنگالی ،اور بنگلہ ہدف نہیں ہیں ،یہاں ایک کثیر القومی ہجوم سامنے ہے،یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی ہر ناکامی سے کچھ بھی سیکھنے کی بجائے نئے جرم کی منصوبہ بندی شروع کر دیتے ہیں ۔میں نے ستم ظریف کی طرف دیکھا، وہ سنجیدہ تھا،میں نے موضوع بدلا اچھا بھائی یہ بتا کہ وزیرستان اور اسکے مقابل کنٹر اور خوست میں کیا چل رہا ہے؟نیا تو کچھ نہیں ہے ستم ظریف گویا ہوا ،سب کچھ پرانے والا ہی ہے ۔ہاں انڈیا کی طرف سے دھیان ہٹا دیا گیا ہے۔ ہمیں ایک ایسی لڑائی کا ناٹک کرنے پر آمادہ کیا جا رہا ہے۔ جس میں دونوں طرف سے لڑنے والے ہاتھ ایک ہی جسم سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ سب باتیں چھوڑو ستم ظریف یہ بتاو کہ اس وقت ہم آپ جیسے عام لوگوں کو کیا کرنا چاہیئے ؟ میں کیسے بتا سکتا ہوں ،ستم ظریف بولا ۔کہنے لگا کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کا ہر شہری بڑا ہی سیانا ہے ،اور پاکستان ہی دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ہر اہم معاملے پر مثالی حماقت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ۔ایسے حالات میں ہم سب کو مل کر اپنے شہری حقوق کے بارے میں سوچنے کی بجائے ،اپنی گم شدہ ریاست تلاش کرنی چاہیئے۔
کالم
گم شدہ ریاست کی تلاش
- by web desk
- مارچ 23, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 617 Views
- 1 سال ago