کائنات ایک سسٹم کے تحت چل رہی ہے۔دنیا کی کوئی بھی چیز لیں ،وہ مقرر نظام سے چلتی ہے اور اگر وہ نظام کا انحراف کرے یا الٹ چلے تو وہ زیادہ دیر نہیں چل سکتی ۔آپ سورج ،چاند اورزمین کو دیکھ لیں ،وہ طے شدہ راستوںپر رواں دواں ہیں۔اسی طرح آپ معاملات زیست کو دیکھ لیں، آپ درست سمت پر چل رہے ہیں تو آپ کامران ہیں۔ آپ ایک گھر یا ادارے کودیکھ لیں ،وہ قواعد وضوابط کے تحت چلے تو وہ کامیاب ہے۔ اسی طرح ریاست کے نظام کوچلانے کےلئے آئین ہوتا ہے۔کائنات ، دنیا ، ریاست ، ادارہ اور گھر وغیرہ سب اصول وضوابط کے مطابق چلتے ہیں۔ریاست ماں جیسی ہے، ماں سب کے ساتھ انصاف کرتی ہے۔وہ بڑے اور چھوٹے کا یکساں لحاظ کرتی ہے۔وہ کھبی ایسا نہیں کرتی ہے کہ بڑا غلطی کرے تو این آراو دے جبکہ چھوٹے کو سزا دے یا اس پر جبر کرے۔ بڑے کو تمام سہولیات مفت میسر ہوں، وہ عیاشیاں کرے جبکہ چھوٹا بنیادی سہولیات سے محروم ہو اور اس کو دو وقت کھانے کے لالے پڑے ہوں۔انصاف کے بغیر کوئی ملک اور معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا ہے۔ملک تحفے میں نہیں ملا بلکہ طویل جدوجہد اور عظیم قربانیوں سے ملا ۔برصغیر پاک وہند کے بٹوارے کے وقت لاکھوں خاندانوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا،لاکھوں افراد قتل ہوئے، لاتعدادلوگ مضروب ہوئے ،ہزاروں خواتین کی عصمت دری ہوئی، لوگوں نے بھوک سمیت متعددصعوبیتں جھیلیں۔75سالوں کے بعد بھی ان لوگوں کو بنیادی سہولیات نہ ملیںتو پھر قصور کس کا ہے؟عصر حاضر میں تقریباً ہر شخص نالاں و پریشان ہے۔ملک میںغیر یقینی صورت حال ہے، معیشت سمیت سب درست سمت میں نہیں چلے رہے ہیں۔ان حالات کے ذمہ داروہ سب ہیں جن کے پاس اختیار ات تھے اور ہیں۔وقت کا تقاضا ہے کہ اپنی روش میں تبدیلی لائیں،اس کےلئے قربانیاں دینی کی اشد ضرورت ہے۔عوام 75 سالوں سے قربانیاں دے رہی ہے لیکن حالات نہیں سدھر رہے ہیں تو کیوں نا، اب مراعات یافتہ طبقہ قربانیاں دیں۔اگر مراعات یافتہ طبقہ قربانی نہیں دی گا تو وقت اور حالات قابو سے باہر ہوجائیں گے تو پھر تمام تدبیریں الٹ ہوجائیں گی ۔ موجودہ صورت حال کو سمجھنے کےلئے محلات اور دفاتر سے باہر نکلنا ہوگاکیونکہ محلات اور دفاتر کے اندر سے باہر کے حالات کاباخوبی اندازہ نہیں ہوسکتا۔ اسٹیبلیشمنٹ، عدلیہ اور سیاست دانوں کو حالات کی نزاکت کو سمجھنا چاہیے کیونکہ اب غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔ اسٹیبلیشمنٹ کو مزید تجربات سے قطعی پرہیز کرنا چاہیے،عدلیہ کو بھی انصاف فراہمی اور میرٹ پرفیصلوں میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے ،نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کےلئے دفن کرنا چاہیے۔سیاست دانوں کو اپنی سیاست ، پارٹی اور ذاتی مفادات کی بجائے ملک کے مفادات کو مدنظر رکھنا چاہیے ۔ ملک کےلئے چند اقدامات اٹھانے ناگزیز ہیں ۔ (الف)ضرورت اس امر کی ہے کہ جتنے سیاستدانوں ، جنرلوں ، ججوںاور بیوروکریٹس کی دولت ملک سے باہر ہے ،ان کو واپس لے آئیں۔سب کو ملک کے مفادات کےلئے آخری مرتبہ این آر او دینا چاہیے،ملک میں دولت واپس کرنےوالے سے کسی قسم کی پوچھ گچھ نہیں ہونی چاہیے، بلکہ اس دولت سے صنعت لگانے والوں کو پانچ سال ٹیکس چھوٹ بھی دینی چاہیے،سب کو موقع دینا چاہیے،اس کے بعد جس کی بھی جائےداد ملک سے باہر ہو،ان پر عوامی عہدہ دینے کی پابندی ہونی چاہیے اور اس کو کسی قسم کے مراعات نہیں دینے چاہئیں۔(ب)اس کالم کے توسط سے اقوام متحدہ ، تمام عالمی اداروں اوردنیا کے تمام ممالک کے حکمرانوں اور عدالتوں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ جس فرد نے بھی ناجائز دولت کسی بھی ملک میں رکھی ہو ،اس کے اکاﺅنٹ منجمد اور جائیداد ضبط کریں،اس کی دولت متعلقہ ملکمیں واپس بھیج دیں۔ کوئی ملک کسی بھی شخص کی ناجائز دولت نہ رکھے ،اگر کوئی ملک کسی بھی شخص کی ناجائز دولت رکھے گا تو اس ملک پر پابندی لگنی چاہیے اور اس ملک کاشمار چور،منی لانڈرنگ اور بلیک منی کرنے والوں کی فہرست میں ہوناچاہیے اور ایسے ملک کو جرائم پیشہ افراد کا سرغنہ سمجھنا چاہیے۔(ج)اگر ادنی ملازم یا مزدور اپنی جیب سے پٹرول ، بجلی ، گیس ، فون ، علاج، سیکورٹی، گھر ، گاڑی اور دیگر اخراجات کرسکتا ہے تو سیاستدان ، جج، افسر اپنے جیب سے یہ اخراجات کیوں نہیں کرسکتے ہیں؟ لہذا پٹرول ، بجلی ، گیس ، فون ، علاج، سیکورٹی، گھر ، گاڑی اور دیگر مراعات کسی کوبھی نہیں ملنی چاہئیں ۔ان مراعات کے سب سے زیادہ حق دار ادنی ملازمین اور مزدور ہیں۔(د)ملک اس وقت معاشی بحران کا شکار ہے لہذا صدر ، وزیراعظم ،گورنرز، وزرائے اعلی ، وفاقی و صوبائی وزرائ، ممبران قومی و صوبائی اسمبلیز اور سینٹ تنخواہ اور دیگر مراعات نہ لیں۔ سرکاری اخراجات پر دعوتوں ، ظہرانوں اور عشائیوں پر پابندی ہونی چاہیے۔(ر)معیشت اور اہم قومی منصوبوںپر سیاست کرنے کی پابندی ہونی چاہیے۔اہم خارجہ امور اور سنجیدہ معاملات پر بھی سیاست کرنے پر قدغن ہونی چاہیے۔(ز) بجلی ، گیس ، پٹرولیم مصنوعات سمیت تمام توانائی کے ذرائع کی قیمتوں میں واضح کمی کرنی چاہیے ،اس سے مہنگائی ختم ہوجائے گی،معیشت میں بہتری آئے گی اور ہمارے کارخانوں میں سستی اشیاءتیار ہونگی تو عالمی مارکیٹ میں پروڈکٹس آسانی سے فروخت کرسکیں گے۔(س) ملک کا زرخیززرعی رقبہ بہت کم ہوچکا ہے ،زرعی ملک ہونے کے باوجود ملک غذائی قلت کا شکار ہے،زرعی اجناس برآمد کرنے پرمجبور ہیں۔جہاں سرسبز وشاداب اور لہلاتی فصلیں ہوتی تھیں اور جہاں باغ تھے ،آج وہاں عمارتیں ہیں۔ریاست کی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ وہ آبادی اور ضرورت کے مطابق ہاﺅسنگ اسکیمیںومکانات تعمیر کرے اور نئے شہربسائے لیکن ہاﺅسنگ اسکیمیں، مکانات وغیرہ زرعی زمینوں پر قطعی نہ بنائیں۔مستقبل میں دنیا میںغذائی قلت کا بحران مزید سنگین ہوگا۔پراپرٹی کا کاروبار کرنے والے اپنا سرمایہ صنعتی شعبے میں لگائیں۔ (ش) سیلابوں سے بچنے کےلئے چھوٹے بڑے ڈیمز بنانے چاہئیں، ڈیموں سے سستی بجلی پیدا ہوگی اور فصلوں کےلئے وافر مقدار میں پانی میسر ہوگا۔ ڈیموں سے صنعتوں اور زراعت میں انقلاب برپا کرسکتے ہیں۔(ص)گلیشیرز تیز ی سے پگھل رہے ہیں لہذادرجہ حرات اور آلودگی کو کم کرنے کےلئے اداروں، گھروں، موٹرویز، سڑکوں، دریاﺅںاور نہروں کے کنارے درخت لگانے چاہئیں ۔ (ض )ملک بھر میں صاف و شفاف بلدیاتی الیکشن کرانے چاہییں،گلیاں ،نالیاں ، بجلی ، گیس ،پانی ،صفائی، تعلیم ،صحت سمیت سب کام بلدیاتی اداروں کے سپرد کرنے چاہییں، بلدیاتی انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوں۔ایم این ایز اور ایم پی ایز وغیرہ کے پاس فنڈز نہیں ہونے چاہییں، یہ صرف قانون سازی کریں۔ (ط)دوہری شہریت کا ڈرامہ بھی بند ہونا چاہیے ۔ دوہری شہریت کے افراد کو عوامی عہدہ نہیں دینا چاہیے۔(ظ)کرپشن ناسور ہے،اس کو جڑ سے ختم کرنے کےلئے سخت سزا ہونی چاہیے ۔ (ع) پڑوسیوں کے ساتھ استوار تعلقات رکھنے چاہئیں ۔قارئین کرام! رضاکارانہ طور پر ملک سے باہر دولت واپس لائی جائے اوراشرافیہ مراعات نہ لیں تو ہمارا ملک ایشین ٹائیگر بن سکتا ہے، علاوہ ازیں وقت کا تقاضا ہے کہ عوام اور ریاست پر توجہ دینی چاہیے یقینا ہمارا ملک دنیا کا امیرترین ، ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بن سکتا ہے۔