اسلام آباد: آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کیلیے حکومت کی طرف سے قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے اسٹیٹ بینک کی مکمل خود مختاری کے بل پروزیراعظم آفس نے بھی سنجیدہ سوالات اٹھادیے ہیں۔
وزیراعظم آفس اسٹیٹ بینک ترمیمی بل2021ء میں حکومت پراسٹیٹ بینک سے قرضہ لینے پر پابندی،گورنر کی مدت 3 سال سے بڑھا کر 5 سال کرنے، اسٹیٹ بینک بورڈ کے ارکان کے کسی بھی حکومتی عہدیدار کو جوابدہ نہ ہونے پرناخوش ہے۔ مجوزہ بل کی شق 46 B (4)کے تحت گورنر اسٹیٹ بینک کو وزیراعظم بھی معاشی امور سمیت کسی معاملے پرطلب نہیں کرسکیں گے۔
حکومتی ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم آفس کے ان اعتراضات کے باوجود آئی ایم ایف کے دباؤکی وجہ سے انھیں دور نہیں کیا گیا۔وزیراعظم مجوزہ بل کی شق 46 B (4)ختم کرنا چاہتا ہے۔ اس بل کے تحت سٹیٹ بینک کی خودمختاری کا ہمہ وقت احترام کیا جائے گا،اسٹیٹ بینک کے بورڈ ارکان،ایگزیکٹوکمیٹی ،مانیٹری پالیسی کمیٹی یا بینک کے دوسرے اسٹاف پر ان کی کارکردگی کے حوالے سے اثراندازہونے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔
وفاقی وزیرقانون فروغ نسیم نے بتایا کہ آئی ایم ایف بعض ترامیم پر مُصر تھا لیکن ہم نے اس بات کو یقینی بنایا کہ کوئی ایسی ترمیم نہیں کی جائے گی جو آئین کے خلاف ہو۔ہم نے کوشش کی ہے کہ اسٹیٹ بینک کو عالمی اصولوں کے مطابق خود مختاری دی جائے لیکن ایسا نہیں کہ اسٹیٹ بینک وفاقی حکومت کو پالیسیوں اور ڈائریکٹوز کو نظرانداز کرنا شروع کردے۔سٹیٹ بینک آف پاکستان پارلیمنٹ، وفاقی حکومت کو جوابدہ رہے گا۔ اسٹیٹ بینک کے گورنر سمیت تمام عہدیداربھی حکومت کو جوابدہ رہیں گے۔
اپوزیشن جماعتیں،میڈیا اور دیگرحلقوں میں سٹیٹ بینک کی خودمختاری کے حوالے سے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔یہ بل قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا ہے ،اب یہ بل قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے پاس جائے گا جہاں اس پر شق وار بحث ہوگی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم آفس مانیٹری اور فیسکل پالیسی کوآرڈینشن بورڈ کے تحلیل پر بھی معترض ہے تاہم وزیراعظم آفس کوبتایا گیا کہ اس ضمن میں وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک میں مشاورت کیلئے بورڈ کی جگہ لائزن تجویز کیا گیا ہے لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ لائزن بورڈ کے متبادل نہیں ہوسکتا۔