وزیراعظم پاکستان کی جانب سے 94 فیصد گھریلو بجلی کے صارفین کو بلوں میں ریلیف ملک کی معاشی صورت حال میں بڑی حد تک قابل تعریف قرار دیا جارہا ہے، شہبازشریف کے مطابق غریب اور متوسط طبقے کو دئیے جانے والے ریلیف سے حکومت کے 50 ارب روپے خرچ ہوں گے ، بتایا گیا ہے کہ رواں ماہ بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 7 روپے 12 پیسے اضافہ کو وزیر اعظم کے اس ریلیف پروگرام سے مستفید ہونے والوں پر لاگو نہیں کیا جائے گا، اس میں دوآرا نہیں کہ مہنگائی کے اس کے دور میں 200 یونٹ استمعال کرنے والے صارفین کو تین ماہ تک ریلیف دینا قابل تحسین اقدام ہے ،دوسری طرف وطن عزیز میں بجلی کے بلزمیں اضافہ کا سلسلے رکنے کا نام نہیں لے رہا ، اس صورت حال پر حکومت کا تشویش میں مبتلا ہونا قدرتی امر ہے ، حقیقت یہ ہے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومت لوگوں کے غم وغصہ کی ہرگز متحمل نہیں ہوسکتی، جمہوریت کی ایک خوبصورتی یہ بھی ہے کہ ہر مقررہ مدت کے بعد سیاسی جماعتیں عوام میں جاکر ووٹ مانگتی ہیں چنانچہ یہ حیران کن نہیں ہونا چاہے جب عوام منتخب نمائندوں کا اپنے ووٹ کی طاقت سے احتساب کریں ، مگر سوال یہ ہے کہ آخر مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتیں کیونکر مجبور ہیں کہ وہ آئے روز بجلی کے بلوں میں اضافہ کرکے عوامی غیض وغصب برداشت کررہی ییں،سچ یہ ہے کہ وزیر اعظم کے بجلی کے بلوں میں ریلیف دینے کے مذکورہ اعلان سے چند روز قبل پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان سات ارب ڈالر کا سٹاف لیول معاہدہ طے پایا جس کا مقصد پاکستان میں معاشی استحکام لاتے ہوئے افراط زر میں کمی لانا ہے ، حکومتی کوشش اپنی جگہ مگر عام لوگوں میں یہ تاثر موجود ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کے نتیجے میں بجلی اور پیڑولیم مصنوعات کے دام مذید بھی بڑھ سکتے ہیں، معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان میں حالیہ برسوں میں بجلی کی قیمت میں کم وبیش دو گنا اضافہ ہوچکا ، جس سے جہاں کاروباری طبقے کی مشکلات میں اضافہ ہوا وہی یہ عام آدمی کی جیب پر بھی بھاری پڑا ، ماہرین کا یہ بھی دعوی ہےکہ دو سالوں میں بجلی کی قیمت کسی طور پر کم ہونے کا نام نہیں لے رہی جبکہ رواں سال مجموعی طور پر اب تک بجلی کے دام 12 فیصد تک دام بڑھ چکے ہیں، اب جب کسی فیکڑی، دوکان یا آفس میں بجلی کے بل زیادہ آئے گا تو وہ عام آدمی کے لیے اپنے سروسز چارجر بھی بڑھا دے گا۔ آئی ایم ایف نے بھی پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ توانائی کے شعبے کی عملداری کو بحال کرنے اور توانائی کے شعبے کی بروقت ایڈجسٹمنٹ کرے، یہاں سوال یہ ہے کہ توانائی کےشعبے پر آئی ایم ایف کی توجہ کیونکر ہے، دراصل آئی ایم ایف جانتا ہے کہ اس وقت پاور سیکٹر ہی معیشت پر بوجھ بنا ہوا ہے، آئی ایم ایف ہی نہیں حکومت ہی نہیں باقی اداروں کا بھی خیال ہے کہ جب تک پاور سیکڑ مستحکم نہیں ہوگا تب تک توانائی کے شعبے کے مسائل حل نہیں ہوں گے ،یہ بھی پوچھا جارہا ہے کہ کیا بجلی کے بلوں میں اضافہ کی تمام تر زمہ داری شہبازشریف حکومت پر عائد ہوتی ہے یقینا ایسا نہیں ، بادی النظر میں توانائی بحران کو حل کرنے میں حکومت اور اپوزیشن ہی نہیں ریاست کے تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے ، مثلا ہم جانتے ہیں کہ اگر حکومت نے بجلی مہنگی کرنے والے کمپینوں کے خلاف کسی قسم کی کوئی کاروائی کی تو عین ممکن ہے کہ مذکورہ کمپنیاں گرمی کے اس موسم میں بجلی کی ترسیل میں رکاوٹ پیدا کردیں جس کا حتمی نتیجہ زیادہ لوڈ شیڈنگ کی شکل میں نمودار ہو ، اس ممکنہ صورت حال کا یقینا نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ پہلے سے حکومت کے خلاف محاذ کھولے ہوئے اپوزیش جماعتیں مسلہ حل کرنے کی بجائے عوامی احتجاج بڑھانے میں اپنا کردار ادا کریں ، درپیش چیلنج سے نمٹنے کی کوشش کا ایک نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں حکومت کے ساتھ اپنا ہونے والا معاہدہ لے کر عدالت میں جا پہنچیں اور یوں اپنے لیے ریلیف کا کوئی اور انتظام کرنے میں کامیاب ہوجائیں ، اس پس منظر میں ارباب اختیار کو یہ بات تسلیم کرلینا چاہے کہ مملکت خداداد اس وقت جن حالات سے دوچار ہے اس سے نکلنے کا واحد راستہ اتفاق واتحاد ہے ، جب تک ہم ذاتی اور گروہی مفادات سے نکل کر حقیقی معنوں میں عوام اور صرف عوام کی فلاح وبہبود کا نہیں سوچیں گے اس وقت تک موجودہ بے چینی واضطراب ختم نہیں ہوگا، یقینا شہبازشریف حکومت تن تنہا تمام مسائل کو حل نہیں کرسکتی ، بجلی کے بلوں میں ریلیف اور لوڈ شیڈنگ کے خاتمہ کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کو آگے بڑھنا ہوگا، اپوزیشن جماعتوں کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ محض تماشائی کا کردار نبھانے کی بجائے مثبت تجاویز دیں ، حزب اختلاف کو اس سوچ سے باہر نکلنا ہوگا کہ شہبازشریف حکومت جتنی مشکلات کا شکار ہوگی ان کا بیانیہ اتینا ہی مقبول ہوگا،پاکستان تحریک انصاف کے لیے لازم ہے کہ وہ آئینی ، قانونی ، سیاسی اور سب سے بڑھ کر اخلاقی زمہ داریوں کا سچے دل سے احساس کرے بصورت دیگر عوام کو درپیش موجودہ مسائل میں اس کے کردارسے انکار کرنا مشکل ہی رہے گا۔