سرکاری دفاتر میں حکومت کا بنایا ہوا ایک رول ٹونیٹی موجود ہے جس کا استعمال اسوقت ہوتا ہے جب کوئی ملا زم کسی وجہ سے اللہ کو پیارا ہو جائے تو اسکی فیملی کو مالی مشکلات سے بچانے کیلئے مرحوم کی تعلیم یافتہ مرحوم میں سے ایک فرد کو سرکاری ملازمت میں رکھ لیا جاتا ہے اگرمرحوم کو سرکاری رہائش گاہ فراہم کی گئی تھی تو اسکی فیملی کو وہی یا عہد کے مطابق مکان کا اس بیٹے یا بیٹی کے نام اسٹیٹ آفس کے ذریعے سے الاٹ کر دی جاتی ہے تا کہ مرحوم کی فیملی مالی اور رہائی پریشانیوں کے بھنور میں نہ پھنس جائے۔اسی طرح سیاستدانوں نے پاکستان کو اپنی جاگیر بنا رکھا ہے اور اس پر حکمرانی کے لیئے اپنی نسلوں کو تیار کرتے ہیں تا کہ اقتدار کے ساتھ بے پناہ واضح اور غیر واضح سہولیات انہیں حاصل ہوتی رہیں ۔ سیاستدان ابا جی اپنی اولاد کو ہر وہ حربہ یا گر سکھا دیتے ہیں کہ دولت ان کے گھر کی باندی بنی رہے۔ نوازشہبازفیملی کو دیکھ لیں زرداری اور بھٹو فیملی بھی کسی سے پیچھے نہیں پی ٹی آئی بھی شب خون مارنے کے چکر میں ہے ،اسی طرح بعض اسلامی جماعتیںبھی کسی سے کم نہیں ،اسمبلی تک پہنچنے کیلئے ہر طرح کا حربہ استعمال کیا جاتا ہے ۔ سیاست در اصل پیسے والوں کا کھیل ہے جنکی تجوریاں کسی بھی حربے یا حربوں سے بھری ہوں وہ اس میدان میں نمایاں رہتے ہیں۔ عوام جنگی اکثریت اب تعلیم یافتہ افراد کی ہے وہ اس طرف آنے کا کبھی سوچتے ہی نہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ اکثریت کے گھر کا ماہانہ خرچہ ہی پورا نہیں ہوتا وہ ہینڈ ٹو ماؤتھ کے چکر میں پھنسے رہتے ہیں،اس لئے وہ قابلیت صلاحیت اور اہلیت ہونے باوجود انگور کھٹے ہیں کی شہادت بنے ہوئے ہیں۔ وہ سیاست دان جوقسمت کے دھنی آٹھ یا نو بار منتخب ہو کر اسمبلی کی زینت بنتے ہیں وہ پیشہ ور سیاست دان ہیں ،جنہیں آپ موروثی سیاست دان بھی کہہ سکتے ہیں وہ اپنی شان و شوکت دیکھ رہے ہیں کہ وہ ہر انتخاب میں حصہ لیکر سیاسی حربوں کے ذریعے کامیاب ہو جاتے ہیں اور پھر وہی چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی وہ اب بھی ہے کے مصداق اسمبلی میں آتے جاتے ہوتے ہیں ،لاکھوںروپے تنخواہ اور دیگر مراعات کے با وجود انہیں صبر نہیں آتا بلکہ مزید دولت کیلئے انکی رالیں ٹپکتی رہتی ہیں۔ ترقیاتی منصوبے اور پھر فنڈ ز موجاں لگا دیتے ہیں غریب عوام کا پیسہ دونوں ہاتھوں بلکہ پاؤں سے بھی سمیٹتے ہیں۔ نہ کوئی پوچھنے والا اور نہ ہی کوئی احتساب کرنے والا ،کھلی چھٹی ۔ آپ ایمانداری سے بتائیں اسمبلی میں کتنے لوگ عوام کے مصائب مالی مشکلات مہنگائی کے بارے میں بولتے ہیں ۔ ارکان اسمبلی کے مفادات پر مبنی تجاویز ہوں تو ہرممبر اظہار رائے کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے پھر ایک ہی جھٹکے میں نہ صرف تنخواہیں بلکہ دیگر مراعات میں حیران کن اضافہ ہو جاتا ہے ۔ ملک ہر سال قرض میں اضافہ میں اضافہ دیکھتا ہے ۔ 1947 سے لیکر اب تک عوام کی زندگی بہترین بنانے کیلئے کیا کچھ کیا گیا ،جواب صفر،بین الاقوامی مالی ادروں سے بات چیت کے بعد حاصل رقم ریاست پر کم خرچ ہوتی ہے، جیبی منصوبوں پر زیادہ خرچ ہوتی ہے ۔ عوام کو نچوڑنے کے نئے نئے حربے ہر سال بجٹ میں سامنے آتے ہیں ہر طرف زندہ باد اور مردہ باد کے نعروں کی آوازیں گونجنا شروع ہو جاتی ہیں بلکہ ہڑ تالوں کا موسم بھی انگڑائیاں لینے لگتا ہے ۔ پوری قوم آئی ایم ایف ورلڈ بینک اور اسی طرح کے مالی اداروں کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔نجات کی کوئی راہ نظر نہیں آتی ،عرب ممالک کے صدقوں اور خیرات پرقوم کے دن گزر ہی جاتے ہیں یا پھر چین کے گٹے گوڈے پکڑکر مشکل دن گزارنے کا آسرا بن جاتا ہے۔ غریب قوم کن کن اداروں کے مخیر حضرات اور حاضرات کے لیے دعائیں مانگے ۔ پوری دنیا میں ہم فائیو سٹار ہوٹلز میں قیام کرنے کے بعد انگریزی بول کر امداد کی درخواست کرتے ہیں نہ مانگنے والوں کو شرم آتی ہے اور نہ یہی دینے والوں کو بس ایک دوسرے کے لحاظ میں قوم دن بدن میریک منگی ہوتی جا رہی ہے ۔ لوگ جب یہ محسوس کریں کہ انکی سانسوں پر بھی ٹیکس لگا رہا ہے تو پھر حالات تاریخی واقعات کا سہارا لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے عمران جو عوام کے ووٹوں سے کامیاب ہوئے ہیں وہ اب اس زمینی مخلوق کے سلام کا جواب دنیا تو در کنار وہ انکی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ نئے انتخابات میں پھر چاول اور چائے کیساتھ ڈھول پر بھنگڑے ڈالنے والے خریدیں گے جو مل بھی جائیں گے۔ عوام اس انتظار میں ہیں کہ قدرت کی طرف سے ایسا تھپیڑا لگے کہ خون چوسنے والا والے کھٹمل نما راہبروں سے جانی چھوٹے اور کوئی ایسا خدا ترس بندہ حکومت سنبھالے جو اس ملک کو نہ صرف خوشحال بلکہ فلاحی ریاست بنا دے ۔ معاشرتی درجہ بندی جو کہ اب خلیج بن چکی ہے۔ اسے نفرتوں سے نکال کر محبت احترام کے رشتوں میں باندھ دے وہ بے لوث ہو۔ اپنی جیبوں کو بھرنے کی بجائے عوام کی فلاح و بہبود کا خیال رکھے۔ ہم اسلامی ملک ہیں نہ جانے اسلامی قوانین کیوں صیح معنوں میں نافذ نہیں ہوتے۔ ہم قرآن اور سنت پر مبنی قوانین کے بجائے انگریزی قوانین جو کہ ہم پر ایک غلام قوم ہونے کی وجہ سے نافذ تھے ان سے کیوں جانی نہیں چھڑاتے۔ اس وقت عوام دو وقت کی روٹی کھانے کیلئے بھی مشکل میں ہے ۔ گھریلو اشیاء کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ ماہا نہ آمدنی اخراجات کی مطابقت میں نہیں۔ تقریباً ہر بندہ قرض لینے پر مجبور ہو چکا ہے ۔ یہ قرض کیسے اترے گا آمدنی تو محدود ہے دماغ پریشان ہو جاتا ہے یہ سوچ کر کہ ہم مقروض ہیں کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم اپنی بد ترین معاشی حالت کو بیان کر کے اُن تمام اداروں اور ممالک سے قرض معاف کر دینے کی درخواست کریں اور اگر ان کے دل میں رحم جاگ جائے تو وہی پیسہ جو ہم قرض اتارنے پر مختص کرتے ہیں وہ عوام کی فلاح کیلئے خرچ ہو اور آئندہ کبھی قرض لینے کا سوچیں بھی نہ۔غافل سیاستدان جو مختلف حربوں سے عوام کا پیسہ سمیٹ کرنئے اور پرا نے امیر بن گئے ہیں کب تک بے حسی کی چادر میں لپٹے رہیں گے ۔دولت کتنی بھی ہو دنیا میں رہ جانی ہے بعد میں یہ دولت اولاد کے گُل چھرے اڑانے کے کام آتی ہے۔ یاد رکھیں آپ پیسہ لاشعوری طور پر دوسروں کیلئے جمع کرتے ہیں اور غلط فہمی یہ ہوتی ہے کہ میری دولت ہے ۔اصل میں یہ کسی کی بھی نہیں ہوتی ضرورتیں پوری کرنے کا ذریع ہے اور یہ سفر میں رہتی ہے آگے سے آگے چلتی رہتی ہے اپنی تجوریاں بھرتے بھرتے خالی ہاتھ بچا اورلینڈ کروزر کی بجائے دوسروں کے کندھوں پر سوار ہو کر منوں مٹی میں دفن ہو جاتے ہیں۔ قیمی لباس بھی یہی رہ جاتے ہیں صرف کفن ملتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد اولاد کو والد کی تاریخ وفات بھی یاد نہیں رہتی نہ ان کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے کہ والد کو قرآن خود پڑھ کر بھیج دیں ۔ ابھی وقت ہے اگر عوامی خدمت کا ڈھونگ رچایا ہوا ہے تو اسے حقیقت کا رنگ دیں ۔ پتہ نہیں کس وقت عزرائیل اللہ کا پیغام لے کر آجائے پھر یہ نہیں دیکھا جاتا کہ آپ کہاں ہیں کسی کام میں مشغول ہیں یا ارسطو کا کون سا فلسفہ بیان کیا جا رہا ہے۔ بس ایک جھٹکے میں بندہ یہاں سے وہاں پہنچا دیا جاتا ہے۔ اپنا احتساب ہر شخص کو کرتے رہنا چاہیئے ورنہ کائنات کے مالک کا احتساب برداشت نہیں ہوگا اور آخری منزل بھی اپنی خواہش کی مطابقت میں حاصل کرنا مشکل ہوگا ۔ اللہ پاک میرے ملک کے غریب بے بس مقروض عوام کو اب ان پیشہ ور سیاستدانوں کی ریشہ دوانیوں سے ہمیشہ محفوظ رکھے ۔ آمین