دسمبر ہر سال آتا ہے ۔ہر سال ہمےں اپنے ”مشرقی بازو“ کے الگ ہونے کی تلخ حقےقت کی ےاد دلاتا ہے ۔ےہ ےاد صدےوں کے غموں کا بوجھ لئے ہوئے ہے لےکن جو بڑی آسانی سے واقع ہو گئی اور بڑی آسانی سے اسے فراموش کر دےا گےا ۔بےسوےں صدی مےں سقوط ڈھاکہ کا ذلت آمےز منظر مسلمانوں پر ٹوٹنے والی سب سے بڑی قےامت ہے ۔ تارےخ شاہد ہے کہ شاےد کسی رات کے اندھےرے اس قدر ہولناک ہوں گے جس قدر ہولناک اندھےروں سے ہمےں ان چند لمحات مےں گزرنا پڑا ،جب آل انڈےا رےڈےو ےہ اعلان کر رہا تھا کہ وطن عزےز کی افواج نے بھارتی فوج کے سامنے ہتھےار ڈال دئےے ہےں ۔ سقوط ڈھاکہ پر اندرا گاندھی نے جھومتے ہوئے کہا تھا کہ اےک ہزار سالہ تارےخ کا انتقام چکا دےا گےا ہے اور ےہ کہ دو قومی نظرےے کو خلےج بنگال کے پانےوں مےں غرق کر دےا گےا ہے ۔حقےقت ےہ ہے کہ پاکستان کے دو لخت ہونے کا غم بھلاےا نہےں جا سکتا ۔آج زےادہ تکلےف دہ حقےقت ےہ ہے کہ اےک طرف پاکستان مےں رہنے والے لوگ اس واقعے کی ےاد دکھ ،صدمے اور افسوس کے ساتھ مناتے ہےں دوسری طرف مشرقی پاکستان موجودہ بنگلہ دےش مےں اس دن کو ” آزادی“ کے دن کے طور پر مناےا جاتا ہے اور آج تک پاکستان کے متعلق وہ غلےظ زبان استعمال کی جاتی ہے کہ جسے سننا تو دور کی بات ہے اس کا تصور کرنا بھی اذےت کا باعث ہے ۔پاکستان کو ملنے والے ان نازےبا الفاظ اور بد زبانےوں کا اندازہ اس نوجوان نسل کے روےے سے بھی ہوتا ہے جو اس سانحے کے بعد ےا اس موقع پر پےدا ہوئی اور اب وہ نوجوانی کی حدود سے بھی نکل رہی ہے ۔اس مےں شاےد ان کا قصور بھی نہےں ہے اس لئے کہ انہےں پاکستان ،اس کے باسےوں ، اس کی فوج اور اس کے حکمرانوں کے متعلق جو کچھ بتاےا جاتا ہے اس کا لازمی طور پر ےہی اثر اور نتےجہ ہونا چاہےے تھا ۔ان لوگوں کا اگر بس چلے تو تو شاےد شےخ مجےب الرحمٰن کی قےادت مےں لڑی جانے والی تحرےک آزادی ےا پاکستان کے خےال مےں بغاوت کا انتقام ہر پاکستانی سے لےں ۔اب جبکہ بنگلہ دےش کو قائم ہوئے آدھی صدی گزر چکی لےکن نفرت کا سےلاب دونوں ممالک کے رہنے والوں مےں اب تک موجود ہے اور جوں جوں وقت گزر رہا ہے نفرت کے اس سےلاب مےں بتدرےج اضافہ ہو رہا ہے ،خصوصاً بنگلہ دےشےوں کے دلوں مےں اہل پاکستان کےلئے محبت کے بجائے نفرت اور الفت کی بجائے عداوت پےدا کی جارہی ہے ۔ شےخ مجےب الرحمٰن کی بےٹی حسےنہ واجد اس نفرت مےں اضافے کا سبب بن گئی ہےں جس کے اندر لگی سےاسی انتقام کی آگ بجھنے کا نام نہےں لے رہی ۔بنگلہ دےش کی حکومت تمام بےن الاقوامی قوانےن کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان شہرےوں کو پھانسےاں دےتی جا رہی ہے جن پر 45برس بعد اس نے الزام لگاےا کہ انہوں نے 1971ءمےں جنگی جرائم کا ارتکاب کےا تھا حالانکہ ان کا جرم صرف پاکستان سے محبت تھا ۔ بہر حال 16دسمبر کا دن ہمےں مشرقی پاکستان موجودہ بنگلہ دےش سے بچھڑنے کی وجوہات اور نتائج سے آگاہ کرتا ہے ۔ےہ اےک حقےقت ہے کہ پاکستان بابائے قوم محمد علی جناحؒ پرجوش قےادت کے نتےجے مےں کی گئی جمہوری اصولوں پر مبنی کوششوں کی وجہ سے وجود مےں آےا ۔اس نو تعمےر شدہ ملک کو اس وقت پہلی دفعہ شدےد مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جب قائد اعظمؒ قےام پاکستان سے اےک سال بعد ہی اس جہان فانی سے کوچ کر گئے ۔اگر وہ کچھ عرصہ مزےد زندہ رہتے اور ملک کی قےادت کرتے تو پاکستان کی تارےخ مختلف ہوتی ۔اس کے بعد پاکستان کے پہلے وزےر اعظم اور قائد اعظمؒ کے قرےبی ساتھی لےاقت علی خان کا پر اسرار قتل پاکستان کےلئے مزےد مشکلات کا سبب بنا اور ملکی سےاست مےں اےک بہت بڑا خلاءپےدا ہو گےا ۔ آزادی کے وقت پاکستان کے دو حصے تھے اور ان دونوں حصوں کو بھارت کا اےک ہزار مےل پر مشتمل وسےع رقبہ تقسےم کرتا تھا ۔دونوں حصوں کی سےاسی سر گرمےاں اےک دوسرے سے مختلف تھےں ۔ملک کے مشرقی بازو مےں جمہورےت کےلئے صورتحال سازگار نہ تھی ۔انگرےز حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنے کےلئے بھی انہوں نے مغربی پاکستان کی عوام سے زےادہ جدوجہد کی جبکہ مغربی پاکستان کے لوگ اس سےاسی بصےرت سے محروم تھے کےونکہ ےہاں کی سےاست پر جاگےر دار طبقہ چھاےا ہوا تھا ۔ملکی حالات اس وقت مزےد خراب ہونا شروع ہوئے جب دونوں بازوﺅں کے درمےان اتحاد کو فروغ دےنے کےلئے اردو زبان کو پورے ملک کی مشترکہ زبان قرار دے دےا گےا لےکن اس فےصلے سے ملک کے اتحاد اور سالمےت پر الٹے اثرات پڑے ۔بنگالےوں نے اس فےصلے کو اپنی زبان اور ثقافت کو دبانے کی اےک سازش تصور کرتے ہوئے مشرقی بازو مےں حکومت کے خلاف مظاہرے شروع کر دئےے اور اےک مظاہرے مےں تےن طالب علموں کی ہلاکت نے جلتی آگ کو ہوا دی اور مظاہروں مےں شدت بڑھ گئی ۔اےک اور اہم وجہ جس نے مشرقی پاکستان مےں بے اعتمادی کی فضا مےں اضافہ کےا وہ خواجہ ناظم الدےن کی بر طرفی تھی جنہوں نے لےاقت علی خان کے بعد وزےر اعظم کا عہدہ سنبھالا تھا اور ان کا تعلق بھی مشرقی پاکستان سے تھا ۔1964ءکے صوبائی انتخابات مےں مشرقی پاکستان کی عوام کا متفقہ فےصلہ اس بات کا واضع ثبوت تھا کہ وہ مشرقی پاکستان کے ساتھ ہونے والے مرکزی حکومت کے ناروا سلوک سے خوش نہےں ہےں ۔ وہاں ملک کی سب سے بڑی جماعت مسلم لےگ کو اےک بہت بڑے مارجن سے شکست کا سامنا کرنا پڑا لےکن افسوس کہ مرکزی حکومت کے بےوروکرےٹس سےاسی پہلوﺅں کے پےمانوں ، فےصلوں اور روےوں کو سمجھنے کےلئے دور اندےشی اور عقلمندی سے کام نہ لے سکے ۔جنرل اےوب خان کے مارشل لاءدور حکومت سے تمام مشرقی پاکستانےوں کو نکال دےا گےا جس کے باعث ان مےں احساس محرومی بڑھ گئی ۔ 1965ءکی پاک بھارت جنگ متحدہ پاکستان کےلئے اےک جھٹکا ثابت ہوئی ۔اس جنگ مےں انتہائی کمزور منصوبہ بندی کی گئی تھی کےونکہ تمام تر فوج مغربی سرحدوں پر لگا دی گئی اور مشرقی پاکستان کو غےر محفوظ چھوڑ دےا گےا ۔ اس طرح شےخ مجےب الرحمٰن کو اےک آزاد بنگلہ دےش پر آواز اٹھانے کا بھرپور موقع مل گےا اور اس نے اےک چھ نکاتی فارمولہ پےش کےا جس کا مقصد صرف اور صرف علےحدہ ملک کا قےام تھا ۔ جنرل اےوب خان نے اپنا اقتدار غےر آئےنی طور پر جنرل ےحےیٰ کو منتقل کر دےا ۔جنرل ےحےیٰ نے مغربی پاکستان مےں ون ےونٹ ختم کر کے چاروں صوبوں کو بحال کر دےا اور اسمبلی مےں سےٹوں کی تقسےم کا تعےن صوبوں کی آبادی کی بنےاد پر کر دےا جس کے باعث مشرقی پاکستان نے اس وقت واضع اکثرےت حاصل کر لی ۔ 1970ءکے عام انتخابات مےں عوامی لےگ نے مشرقی بازو مےں 167سےٹےں حاصل کےں جبکہ مغربی بازو مےں اےک بھی سےٹ حاصل نہ کر سکی۔دوسری طرف ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت پاکستان پےپلز پارٹی نے صوبہ سندھ اور صوبہ پنجاب مےں بھاری اکثرےت حاصل کی ۔ظاہراً انتخابات نے ملک کو دو حصوں مےں تقسےم کر دےا تھا کےونکہ ملک مےں کوئی اےسی قومی جماعت نہ تھی جو دونوں بازوﺅں کی نمائندگی کرتی۔انتخابات کے بعد صورتحال مزےد گھمبےر ہو گئی اور آخر کار 16دسمبر1971ءکے دن پاکستان کو اےک اےسے المناک اور شرمناک سانحے سے دوچار ہونا پڑا جس کو ےاد کر کے آج بھی محب وطن پاکستانےوں کے سر شرم سے جھک جاتے ہےں ۔حقےقت ےہ ہے کہ پاکستان کے ٹکڑے ہونے کا غم کبھی نہےں بھلاےا جا سکتا ۔ےہ سانحہ ہماری ملکی تارےخ کے نازک ترےن حادثات مےں سے اےک ہے ،نہ صرف ملک دو لخت ہوا ،اےک لاکھ فوجی اور شہری جنگی قےدی بنے ۔ہتھےارر ڈالنے کی تقرےب ڈھاکہ مےں اس طرح منعقد ہوئی کہ پاکستان اور اس کی فوج کو دنےا بھر کے سامنے ہر طرح سے ذلت اور تضحےک کا نشانہ گےا۔معزز قارئےن ےہ مہےنہ پاکستانےوں ،پاکستان کے مقتدر طبقوں اور سےاسی رہنماﺅں کےلئے لمحہ فکرےہ بھی ہے کہ وہ چلتے چلتے ٹھہرےں ،ذرا رکےں ،سوچےں اور پےچھے کی طرف نظر دوڑائےں ،غور کرےں کہ کہ وہ کےا حقائق تھے جن کا ےہ روح فرسا نتےجہ برآمد ہوا ۔ ضرورت ہے کہ اےسے حالات کو بدلا جائے اور ماضی سے سبق حاصل کر کے اپنے حال کو ڈھالا جائے اور ملکی آزادی ،سالمےت اور استحکام کا تحفظ قومی ےک جہتی سے کےا جائے ۔
کالم
عالم اسلام کا المےہ
- by Daily Pakistan
- دسمبر 17, 2022
- 0 Comments
- Less than a minute
- 453 Views
- 2 سال ago