اداریہ کالم

وزیراعظم کاحلف اورمہنگائی کاچیلنج

وزیر اعظم نے گزشتہ روز صدر علوی کے ہاتھوں حلف اٹھالیا ہے ، حلف اٹھانے کے بعد انہوں نے ملک میں معاشی استحکام کی بات کی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک افسوسناک خبر یہ بھی ہے کہ آئی ایم ایف نے پٹرول ، بجلی اور دیگر اشیا پر 35فیصد مزید ٹیکس لگانے کا حکم دیا ہے ، مہنگائی پہلے اس قدر زیادہ ہے ، اوپر سے الیکشن کے اخراجات یہ سب جب عوام کے جیب سے نکلیں گے تو معاشی استحکام کی پلاننگ دھری کی دھری رہ جائیگی ،لہٰذا حکومت کو اس جانب بھی خصوصی اور فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے ، ایک غریب آدمی کیلئے تیس ہزار روپیہ میں گھر کا بجٹ بنانا نہایت مشکل ہے جس روز غریب کی معاشی حالت بہتر ہوگی ہم سمجھیںگے کہ ملک میں معاشی استحکام آچکا ہے ، گزشتہ روز نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 24ویں وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ایوان صدر میں منعقد ہونیوالی تقریب حلف برداری میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے نومنتخب وزیراعظم سے عہدے کا حلف لیا ، سبکدوش ہونیوالے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑبھی موجود تھے ۔تینوں صوبوں کے وزرائے اعلی اور مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما، قائد مسلم لیگ ن و سابق وزیراعظم نوازشریف، سابق صدر و شریک چیئرمین پیپلزپارٹی آصف علی زرداری اور چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو ،آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور دیگر سروسز چیفس، اعلی بیوروکریٹس اور سفرا بھی وزیراعظم کی حلف برداری کی تقریب میں شریک ہوئے۔ وزیراعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے وزیراعظم کی تقریب حلف برداری میں شرکت نہیں ۔حلف برداری کے بعد وزیراعظم ہاو¿س میں وزیراعظم شہبازشریف کے اعزاز میں گارڈ آف آنر کی تقریب ہوئی ، مسلح افواج کے چاق وچوبند دستے نے وزیراعظم کو گارڈ آف آنر پیش کیا۔ وزیر اعظم ہاو¿س کے عملے کا تعارف بھی کروایا گیا۔دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف سے مسلح افواج کے سربراہان نے ایوان صدر میں ملاقات کی ہے ،افواج پاکستان کی قیادت نے دوسری بار وزارت اعظمی کا منصب سنبھالنے پر شہباز شریف کو مبارک باد دی،شہباز شریف نے عسکری قیادت کی نیک خواہشات اور مبارکباد پر ان کا شکریہ ادا کیا ،ملاقات تیس منٹ سے زائد جاری رہی ،ملاقات میں قومی و داخلی سلامتی سے متعلق اہم امور پر تبادلہ خیال کیا،بعدازاں وزیراعظم شہباز شریف اور سبکدوش ہونے والے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی ملاقات ہوئی۔وزیراعظم محمد شہباز شریف نے نگران حکومت کے ملکی ترقی کے تسلسل کیلئے اقدامات کی تعریف کی۔ نیک خواہشات کا اظہار کیا۔سابق نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے ٹویٹ میں کہا کہ پاکستان کے نگران وزیراعظم کے طور پر میرا دور ختم ہونے پر میں سب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے اس ترقی پر فخر ہے جو ہم نے ملکر کی ہے، آنے والی حکومت کی کامیابی اور خوشحالی کی خواہش کرتے ہیں کیونکہ وہ مستقبل میں پاکستان کی رہنمائی کریں گے۔ دعا ہے کہ پاکستان خوشحال اور ترقی کی منازل طے کرتا رہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے حلف اٹھانے کے بعد ملکی معیشت کے حوالے سے اجلاس سے خطاب میں کہا ہے کہ نقصان میں جانے والے حکومتی ملکیتی اداروں کی نجکاری کی جائیگی۔وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ملکی معیشت کی بحالی سے متعلق اجلاس ہوا جس میں سیکرٹری خزانہ نے ملکی معاشی صورتحال پر تفصیلی بریفنگ دی ۔ وزیراعظم کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ ان کی ہدایت پر ایف بی آر نے 65 ارب روپوں کے ٹیکس ریفنڈز کلئیر کر دیے۔ وزیراعظم نے معاشی صورتحال کی بحالی کیلئے ہنگامی بنیادوں پر لائحہ عمل تیار کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ ملکی معیشت کو بہتر کرنے کا مینڈیٹ ملا ہے اور یہی ہماری حکومت کی اولین ترجیح ہے۔حکومت سرمایہ کاری کے فروغ اور کاروباری برادری کو سہولیات کی فراہمی کیلئے کام کرے گی۔وزیراعظم نے کہا کہ برآمدات میں اضافے،معیشت میں ویلیو ایڈیشن کےلئے کام کرنے والے ٹیکس دہندگان ہمارے سروں کا تاج ہیں، اچھے ٹیکس پیئرز کی حکومتی سطح پر پذیرائی کی جائے گی۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں شفافیت لانے کیلئے آٹومیشن ناگزیر ہے لہٰذا ایف بی آر اور دیگر اداروں کی آٹومیشن پر فی الفور کام شروع کیا جائے۔شہباز شریف نے اعلان کیا کہ نقصان میں جانے والے حکومتی ملکیتی اداروں کی نجکاری کی جائیگی۔ انہوں نے کہا کہ ایسے ادارے جن کی ضرورت نہیں انہیں ضم یا بند کر دیا جائے۔وزیراعظم نے حکومتی بورڈز ممبران کی مراعات میں کمی کیلئے حکمت عملی پر کمیٹی تشکیل دینے اور پاور،گیس سیکٹرزکی اسمارٹ میٹرنگ پر منتقلی کیلئے لائحہ عمل تیار کرنے کی ہدایت کی۔ ا سمارٹ میٹرنگ سے لائن لاسز کم کرنے مدد ملے گی۔شہباز شریف کا کہنا تھاکہ تمام بینکس اور مالیاتی ادارے درمیانے اور چھوٹے درجے کے کاروبار کے فروغ کیلئے حکمت عملی تیار کریں، اس سے ملک کے نوجوانوں کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد مل سکے گی۔ عوام کو سہولیات فراہم کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں گے، کاروباری برادری، سرمایہ کاروں اورنوجوانوں کوسہولیات فراہم کرنےکی یقین دہانی کراتے ہیں، ایس آئی ایف سی معاشی استحکام کیلئے انتہائی اہم قدم ہے جسے مزید مستحکم کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگلا اجلاس فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے حوالے سے منعقد کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں گے؛ کاروباری برادری ، سرمایہ کاروں اور نوجوانوں کو سہولیات فراہم کرنے کی یقین دہانی کراتے ہیں۔اجلاس میں سینیٹر مصدق ملک، ارکان قومی اسمبلی عطا تارڑ، شزا فاطمہ، رومینہ خورشید ، احد چیمہ ، جہانزیب خان اور دیگر اہم عہدیداران نے شرکت کی۔علاوہ ازیںوزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ میں محمود خان اچکزئی کا احترام کرتا ہوں لیکن ذاتیات کی بات ہوگی تو بات دور تک جائے گی۔ قومی اسمبلی اجلاس میں محمود خان اچکزئی کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے وزیراعظم شہبازشریف نے اسپیکر قومی اسمبلی سے درخواست کی کہ ان کے الفاظ حذف کردیں۔ جس پر ایاز صادق نے کہا کہ محمودخان اچکزئی ذاتیات پر بات نہ کریں۔ اس سے قبل محمود خان اچکزئی نے کہا کہ میں پانچویں دفعہ اس ایوان کا ممبر منتخب ہوا ہوں، ہم آئین کی پاسداری اور حفاظت کرنے کا حلف تو لیتے ہیں، یہ آئین ہی ہے جس نے ہم سب کو جوڑے رکھا ہے، پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کرنے کی پاداش میں میرے گھر پر حملہ ہوا۔
الیکشن کمیشن کانرالافیصلہ
الیکشن کمیشن کے بعض فیصلے نرالے اور عجیب ہیں کہ اب اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں دینے سے انکار کردیا ہے ، چونکہ یہ فیصلہ الیکشن کمیشن کونسل کا ہے اس لئے اس پر زیادہ بات نہیںکی جاسکتی تاہم ہم سمجھتے ہیں کہ دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح مخصوص نشستوں کا اصول سنی اتحاد کونسل کا حق ہے ۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مخصوص نشستوں کیلئے سنی اتحاد کونسل کی درخواست مسترد کردی۔الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستوں سے متعلق محفوظ فیصلہ جاری کر دیا، الیکشن کمیشن نے 1-4 کے تناسب سے فیصلہ جاری کیا۔تحریری فیصلے میں الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی درخواست مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ سنی اتحاد کونسل خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے کوٹے کی مستحق نہیں۔ قانون کی خلاف ورزی اور پارٹی فہرست کی ابتدا میں فراہمی میں ناکامی کے باعث سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں۔ الیکشن کمیشن کا فیصلہ 22صفحات پر مشتمل ہے۔سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دینے کا فیصلہ متفقہ طور پرسنایا گیا تاہم مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں کو دینے کے فیصلے سے ممبر پنجاب بابر حسن بھروانہ نے اختلاف کیا۔ ممبر الیکشن کمیشن پنجاب بابر حسن بھروانہ نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ چاروں ممبران سے اتفاق کرتا ہوں کہ نشستیں سنی اتحاد کونسل کو نہیں دی جاسکتیں، لیکن یہ مخصوص نشستیں باقی سیاسی جماعتوں میں بھی تقسیم نہیں کی جاسکتیں۔اختلافی نوٹ میں ان کا کہنا تھا کہ یہ نشستیں آئین کے آرٹیکل 51اور 106کے تحت خالی رکھی جائیں۔بابر حسن بھروانہ کے مطابق آئین کا آرٹیکل 106واضح ہے کہ ہر سیاسی جماعت کو حاصل شدہ جنرل نشستوں کے مطابق مخصوص نشستیں ملیں گی، نشستیں تب تک خالی رکھی جائیں جب تک آئین کے آرٹیکل 51اور 106میں ترمیم نہیں ہوجاتی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے