چندروزپیشتر میرے گروپ روز ٹی وی پرلاہورکے بیوروچیف نے ایک خبربھجوائی، خبر چلنے کے بعد ڈی جی پی آر آفس لاہور میں گریڈ 20میں تعینات ڈاکٹر روبینہ جو گریڈ 18کے افسرا فراز احمد کے ماتحت کام کررہی ہیں کا مجھے فون آیا کہ آپ کے ٹی وی سے یہ خبر چلی ہے اس کو رکوائیں ،خبر میرے رپورٹر نے اپنے ذرائع سے دی تھی،مگر میں نے یہ خبر رکوا دی ، کچھ دیر بعد ڈی جی پی آر افراز احمد نے جو میرے اچھے دوست بھی ہیں نے خود فو ن کیا اور کہنے لگے فلاں خبر دینے والے رپورٹر کو فارغ کر دیں ورنہ آپ کو بلیک لسٹ کیا جا رہا ہے اور آپ کے اشتہارات روکے جا رہے ہیں۔ میں نے یہ فرمانِ افسر شاہی سنا اور عرض کی جناب والا، میرے میڈیا ہاﺅس کے ماہانہ اخراجات کروڑوں میں ہیں۔ اس میں آپ کے دو لاکھ نہ آنے سے ہم فاقہ کشی کا شکار نہیں ہو ں گے۔ آپ تسلی رکھیں۔ نہ ہی اس طرح رپورٹرفارغ کیے جاتے ہیں۔ ایسے کیا جاتا تو اب تک میڈیا ریگزار بن چکا ہوتا۔بعد میں، میں سوچتا رہا کہ اللہ کا شکر ہے ا س نے لوگوں کا رزق اپنے پاس رکھا ہے۔یہ اختیارات ڈی پی آر جیسی افسر شاہی کے پاس ہو تا تو بیوروکریسی کی مراعات کی نظرہو جاتا اور خلق خدا فاقہ کشی کرتی۔دو لاکھ کے اشتہارات روکنے کے فرمان میں یہ طنطنہ ہے تو اندازہ کیجیے پھر کیا عالم ہوتا جو مخلوق کا رزق بھی ان کے ہاتھ میں ہوتا۔برسوں پہلے جب میں نے صحافت میں قدم رکھاتو مجھے مجید نظامی جیسااستاد ملا اور حامدمیراورعرفان صدیقی جیسے اصحاب کی صحبت میسرآئی۔ مجیدنظامی مرحوم کاموٹوتھاکہ جابرسلطان کے سامنے کلمہ حق کہناجہاد ہے اوریہ موٹو مجھے توخون کے ذریعے وراثت میں ملا ہے ۔میراخمیرمیانوالی کی مٹی سے اٹھا ہے اورہمارے بارے میں مشہور ہے کہ ہم لوگ اپناکہااوردوسرے کاکیاہوا نہیں بھولتے،مجھے ہمیشہ اپنے صحافی ہونے پرنازرہاہے کہ اس کے ذریعے میں نے دکھی انسانیت کی خدمت کی ہے اسے کبھی کاروبارنہیں بنایا۔ دکھی انسانیت کی خدمات کے حوالے سے پورے پاکستان کو یہ اچھی طرح پتہ ہے کہ میری قیادت میں ایس کے این ٹرسٹ کام کررہاہے جو ہر آسمانی اورزمینی آفت آنے پرسب سے پہلے فلاح وبہبود کاکام شروع کردیتے ہیں اور ہم نے کبھی اسے میڈیا پرنہیں اچھالا کیونکہ ہم یہ کام اللہ کی رضا کے لئے کررہے ہیں نہ کہ شہرت کے حصول کے لئے۔اس ٹرسٹ نے 2005کے زلزلے میں 2010ءکے سیلاب اورحالیہ سیلاب میں جو انتھک کام کیا وہ خدا ہی بہتر جانتا ہے اس وقت بھی میرے ٹرسٹ کے رضاکار پاکستان کے تینوں صوبوں میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں موجود ہیں او روہاں پرمتاثرین سیلاب کی بحالی اوران کی آباد کاری کے لئے مصروف عمل ہیں۔ میری سماجی خدمات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں،میری سماجی خدمات اور نیو کلیئر رپورٹنگ پر ڈاکٹر عبد القدیر خان کی جانب سے مجھے گولڈ میڈل دیا گیا ، اس کے ساتھ ساتھ حکومت پاکستان کی جانب سے بھی مجھے تمغہ امتیاز عطا کیا گیا جو میری خدمات کا منہ بولتا ثبوت ہے ،اسی طرح کئی نیشنل اور انٹر نیشنل ایوارڈ ملے جو آن دی ریکارڈ موجود ہے ، میرے لکھے گئے کالموں اور دی گئی خبروں پر سپریم کورٹ نے کئی از خود نوٹس لیے اور پھر ان پر فیصلے کیے ، یہ تمام چیزیں اب پی ایل ڈی کا حصہ بن چکی ہیں اور سپریم کورٹ آف پاکستان کی آرکائیو میں موجود ہیں، یادش بخیرفردوس عاشق اعوان وفاق میں وزیراطلاعات ونشریات کے منصب پرفائزتھیں کسی حادثے میں زخمی ہوگئیں میں ان کی عیادت کے لئے ان کی رہائش گاہ پر گیاتو انہوں نے مجھ سے کہاکہ نیازی صاحب آپ سے ایک درخواست کرنی ہے کہ آپ اپنے سیالکوٹ کی بیوروچیف کو ہٹادیںمیں نے دریافت کیاکیوں؟ توکہنے لگیں کہ وہ میرے خلاف خبریں بہت لگاتی ہے آپ ایسا کریں تو میں آپ کے گروپ کے اخبارات کواشتہارات سے مالامال کردوں گی۔ ان کی یہ بات سن کرمیں مسکرادیا ،میری بیورو چیف آج بھی ادارے میں کام کررہی ہے ، اس واقعہ کے گواہ افتخار درانی صاحب زندہ سلامت موجود ہیں،پاکستان گروپ آف نیوز پیپرز کی ایک تاریخ ہے جو فلم کی صورت نظر میں گھوم گئی۔ ابھی کل معروف برطانوی اخبار انڈی پنڈنٹ کے اردو ورژن انڈی پنڈنٹ اردو میں سجاد اظہر کی ایک رپورٹ شائع ہوئی جو لمحوں میں وائرل ہو گئی۔ پاکستان کے ماحولیاتی بحران اور خوفناکی کو لیے اس رپورٹ کو میں پڑھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ جب یہ سجاد اظہر صاحب روزنامہ پاکستان کے میگزین ایڈیٹر کے طور پر میرے گروپ کے ساتھ و ابستہ تھے تو انہوں نے ایسے کئی فیچرلکھے اور خبریں دیں جس نے بہت سے لوگ خفا ہوئے۔ایک بار سجاد اظہر نے میرے ایک قریبی دوست کے بارے میں کچھ لکھ دیا جس پر میرے دوست نے مجھ سے گلہ کرتے ہوئے کہا کہ سجاد کو اس کے منصب سے ہٹا دیں مگر میں نے اسے نہیں ہٹایا،پھر امریکہ چلا گیا ،میری اس دوست کے ساتھ دوستی ختم ہو گئی مگر میں نے اپنے میگزین ایڈیٹر کو نہیں ہٹایا، اگر اس وقت میں دبا میں آکر اپنے کارکن صحافی کے خلاف فیصلہ کرتا تو پاکستان آج اتنے بڑے تجزیہ کار سے محروم ہو چکا ہوتا۔کیا پتا وہ کسی اور ہی شعبے کا انتخاب کر لیتے۔حامد میر صاحب نے اسی پاکستان گرو پ آف نیوز پیپر میں کام کیا۔ اسامہ بن لادن جیسے آدمی کا انٹر ویو کیا۔ تہلکہ خیز خبریں دیں، کالم لکھے۔ تو کیا اس وقت دبا ﺅنہ آئے ہوں گے۔ اگر وہ دبا ﺅمیں نے قبول نہیں کیے تو ڈی جی پی آر کے دو لاکھ پر میرے ہاتھ پھول جائیں گے۔عرفان صدیقی صاحب میرے ادارے میں مختار رہے۔ کالم لکھتے رہے اور ٹی وی شو کرتے رہے۔ صحافت کا وہ ایک بھرپور نام ہیں۔ ان کے قلم کی کاٹ سے کتنی بارگاہیں خفا ہو جاتی تھیں۔ تو کیا میں ان سے معذرت کر لیتا کہ کوئی افسر بابو کوئی ڈی جی پی آر میرے دو لاکھ کے اشتہار نہ روک لے؟آزاد کشمیر اسمبلی کے اسپیکر انوار الحق میرے روز ٹی وی کے اینکر تھے بعد میں اسپیکر بننے میں کامیاب ہوئے ، ان کے اندر وزیراعظم بننے کی صلاحیت بھی ہے ، اور ہو سکتا ہے کہ کسی روز اچانک وہ وزیر اعظم بھی بن جائیں ، عرفان صدیقی جیسا سکہ بند صحافی میرے اخبار کا ایڈیٹر رہا ،پھر بعد میں وہ وزیر اعظم کے مشیر بنے اور اب وہ پاکستان کے ایوان بالا کے رکن بھی ہیں، میری چوہدری پرویز الٰہی کے خاندان سے اس وقت سے دوستی اور اچھے روابط چلے آرہے ہیں جب افراز صاحب پیدا بھی نہ ہوئے ہونگے اور پنجاب اسمبلی کے سپیکر میرے قریبی عزیز سبطین خان ہیں ،عروج رضاسیامی جو آج کل وزیر اعلی پنجاب کی ایڈوائزر برائے حقوق انسانی ہیں، میرے ہی ادارے کی اینکر ہیں، نہایت ذہین ہیں اور بہت ساری صلاحیتوں کی مالک ہیں، جب انہوں نے روز ٹی وی پر اپنا پروگرام شروع کیا تو میرے کولیگ نے بار بار مجبور کیا کہ ان کا پروگرام بند کردیں، مگر میں نے ایسا نہیں کیا، بلکہ اس کے بعد انہیں بڑھ کر اہمیت دینا شروع کر دی۔ان سے بھی لوگوں کو شکوے شکایات رہتے ہوں گے ۔ تو کیا مین ایک فون کال پر اپنے ادارے کے صحافیوں کا معاشی قتل عام کر دیا کروں؟سلیم صافی بھی یہاں ہمارے ادارے کا حصہ رہے۔ لگی لپٹی رکھے بغیر بات کہتے ہیں۔ تو کیا ان سے کوئی خفا نہ ہو گا؟ڈی جی پی آر جیسے لوگ یہ بات نہیں سمجھتے کہ افسر شاہی کے علاوہ بھی ایک دنیا موجود ہے۔جو گریڈوں سے نہیں وضع داری سے چلتی ہے۔، آزادی صحات ایک ایسا حق ہے جو دستور پاکستان نے فراہم کیا ہے۔کسی ڈی جی پی آر نے نہیں۔ ڈی جی پی آر کو چاہیے مولانا طارق جمیل سے اس آیت کی تفسیر معلوم کر لیں: واللہ خیر الرازقین۔
حلقہ احباب سردار خان نیازی
خاص خبریں
کالم
ڈی جی پی آر پنجاب کا فرمان
- by Daily Pakistan
- ستمبر 18, 2022
- 0 Comments
- Less than a minute
- 987 Views
- 2 سال ago