سبھی جانتے ہےں کہ پچھلے دو روز میں حضرت مولانا نے دھڑا دھڑ انٹرویو دے کر سیاست اور صحافت کے میدان میں ایک کہرام سا برپا کر دیا ہے ۔موصوف نے ایک جانب بلا واسطہ اور بلواسطہ دونوں ڈھنگ سے پاک افواج اور قومی سلامتی کے اداروں کو حرف تنقید بنایا ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے ۔سنجیدہ حلقوں کے مطابق اس سے پہلے یہ سعادت محض بانی پی ٹی آئی کو ہی حاصل تھی مگر اب مولانا ہر اول دستے کے طور پر اس صف میں شامل ہو چکے ہےں۔اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے مبصرین نے کہا ہے کہ کچھ روز پہلے تک تو مولانا صاحب عمران خان کو یہودی ایجنٹ قرار دیتے نہےں تھکتے تھے اور اس ضمن میں ایسی ایسی گوہر افشانی فرماتے تھے جسے احاطہ تحریر میں لانا بھی خاصے دل گردے کا کام ہے ۔دوسری جانب یہ بھی کوئی راز کی بات نہےں کہ اپریل 2022میں تحریک عدم اعتماد کی منظوری کے بعد سے کپتان نے مولانا فضل الرحمن کےخلاف خصوصی مہم چلائی اور اپنے تمام 55جلسوں میں مولانا فضل الرحمن کو ”ڈیزل“ کے لقب سے متعارف کراتے رہے اور کارکنوں کی زبان سے اس بابت خاصا غیر مہذب انداز اختیارکروایا جاتا رہا اور اس ضمن میں عمران خان کو خاصی کامیابی بھی ملی مگر اسے حالات کی ستم ظریفی ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ اب دونوں فریق اس ضمن میں پوری طرح یو ٹرن لے چکے ہےںیہاں اس امر کا تکذہ بھی شائد دلچسپی سے خالی نہ ہو کہ گزشتہ رات ہی ’ڈیزل‘ کی قیمت میں 8 روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے ۔ایک جانب پچھلے دو بر س میں عمران خان نے پاکستان اور قومی اداروں کے خلاف ایک مخصوص پروپیگنڈہ شروع کیا ہوا تھا اور اب اس صف میں مولانا فضل الرحمن بھی شامل ہوگئے ہےں ۔ غیر جانبدار سیاسی اور سماجی حلقوں نے اس امر کو ایک بدقسمتی قرار دیتے ہوئے رائے ظاہر کی ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن نے اپنی پریس کانفرنس میں جو دعوے کےے انہےں ملک و قوم کے لئے ایک المیہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے کیوں کہ موصوف نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جس طور حرف تنقید بنایا ہے اس طرز عمل کو کسی بھی طور مستحسن قرار نہےں دیا جاسکتا بلکہ مولانا کی باتوں کو اگر قابل مذمت قرار دیا جائے تو بےجا نہ ہوگا۔اسی تناظر میں مولانا فضل الرحمٰن کا دعویٰ ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی اور اسی وجہ سے انہیں شکست ہوئی لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ مطلوبہ ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں اور صرف دوسروں کے کندھوں پر پارلیمنٹ میں جانا چاہتے تھے۔علاوہ ازیں مولانا اور دوسرے سیاست دان جو انتخابات کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں، انہیں پاکستان کے عوام درحقیقت مسترد کر چکے ہیں اور یہ اب اپنی شکست کےلئے ’اسٹیبلشمنٹ‘ پر الزام لگا رہے ہیں، جو ان کےلئے آسان راہ فرار ہے ۔ مبصرین کے مطابق مولانا کو اپنی شکست کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنے کے بجائے اپنے اندر جھانکنا ہوگاکیوں کہ مولا نا اور انکی جما عت اصل میں پی ٹی آئی جیسے نئی جماعت اور ان کے بیانیے کا مقابلہ ہی نہیں کر سکے اور الیکشن میں بری طرح ہار گئے اور اب دھاندلی کا الزام لگا کر راہ فرار اختیار کررہے ہیں۔ یاد رہے کہ مولانا سازشانہ جوڑ توڑ اور غیر جمہوری ساز باز کے ذریعے اپنے سابقہ اتحاد پی ڈی ایم کی مدد سے ملک کی صدارت سمیت قومی اسمبلی کی 10 اور صوبائی اسمبلی کی 20 نشستیں حاصل کرنا چاہتے تھے۔لیکن اب اس منصوبے میں ناکام ہو کر وہ انتخابات میں دھاندلی کا ڈھول بجا رہے ہیں۔اس تمام صورتحال میں سنجیدہ حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ یہ امر کسی تعارف کا محتاج نہےں کہ پاکستانی سیاست میں یہ چلن عام ہے کہ ہر ہارنے والا اپنی شکست کی تمام تر ذمہ داری پاک افواج پر ڈال کر ایک طرف ہو جاتا ہے اور اپنی کوتاہیوں سے پوری پلہ جھاڑ لیتا ہے اور یہ روش روز مرہ کا معمول بن چکا ہے اور اس تمام صورتحال میں موصوف بھی کسی سے پیچھے نہےں رہے۔اسی تناظر میں یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ عالمی میڈیا کا ایک بڑا حلقہ وقتاً فوقتاً پاک آرمی اور قومی سلامتی کے دیگر اداروں کو مطعون کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اور اس ضمن میں خود پاکستانی ذرائع ابلاغ اور اربابِ اقتدار میںسے کچھ عناصر شعوری یا نا دانستہ طور پہ حقائق کو اکثر اوقات توڑ مروڑ کر پیش کرتے رہتے ہیں، مثال کے طور پہ حالیہ دنوں میں ملک میں جاری سیاسی انتشار کے حوالے سے وطنِ عزیز کے میڈیا کا ایک حلقہ پاک فوج کے کردار کے ضمن میں عجیب و غریب افسانے گھڑ رہا ہے اورافواجِ پاکستان اور ISIکے انتہائی مثبت کردار کو منفی بنا کر پیش کیا جا رہا ہے یوں بالواسطہ اور براہ راست دونوں طرح سے مٹھی بھر پاک دشمن عناصر کو تقویت پہنچائی جا رہی ہے۔اس ضمن میںبعض اخبارات نے تواپنے ادارتی صفحات گویا اسی مقصد کے لئے مخصوص کر رکھے ہیں یوں قومی مفادات کو نقصان پہنچانے کے لئے ڈس انفارمیشن کا باقاعدہ سلسلہ جاری ہے۔خاص طور پر بعض ٹی وی چینل جعلی ریٹنگ کے ذریعے حقائق کو بری طرح مسخ کر رہے ہیں۔اس تمام منظر نامے کا جائزہ لیتے غیر جانبدار تجزیہ کاروں نے رائے ظاہر کی ہے کہ تیسری دنیا کے اکثر ممالک کی طرح اگرچہ وطنِ عزیز میں بھی سبھی حکومتی اور سیاسی معاملات مثالی حد تک صحیح نہیں ہیں اور ان میں بہتری کی گنجائش بہر طور موجود ہے مگر اس تلخ حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان اور قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف ڈس انفارمیشن پھیلانے والے یہ عناصر غالباً کسی مخصوص ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں کیونکہ گذشتہ کافی عرصے سے نظریہ پاکستان،ریاست اور قومی سلامتی کے اداروں کہ ہدفِ تنقید بنانا دانشوری،ترقی پسندی اور انسان دوستی کی واحد علامت بن گیا ہے اور یہ طرزِ عمل وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید پختگی اختیار کرتا جا رہا ہے حالانکہ مناسب اور تعمیری سوچ غالباً یہ ہونی چاہیے کہ خود احتسابی اور خود مذمتی کے مابین حدِ فاصل کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے اور صحافتی،سماجی اور سیاسی اکابرین اپنا سارا زورِ خطابت نظریہ پاکستان اور اس کے محافظ اداروں کو مطعون کرنے کی بجائے (پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ) کی سوچ کے تحت اپنی توانائیاں تعمیری ڈھنگ سے صرف کریں۔ایسے میں توقع کی جانی چاہےے کہ مولانا فضل الرحمن اپنی منفی روش کو تبدیل کرتے ہوئے ملک و قو م کی تعمیر و ترقی کی جانب قدم اٹھائیں گے۔