جب پاکستان بنا تو والد بزرگوار اس وقت دہلی میں مقیم تھے اور سرکاری ملازمت میں تھے، چنانچہ دوسرے سرکاری ملازمین کےساتھ وہ بھی کراچی آ گئے، یہاں ہم لوگ مارٹن کوارٹرز کی سرکاری رہایش گاہ میں رہنے لگے۔ صدر ایوب خان کے دور میں جب دارالحکومت اسلام آباد منتقلی کا فیصلہ کیا گیاتو ۳۶۹۱ءمیں والد صاحب اسلام آباد آگئے۔یہاں سپر مارکیٹ کے قریب سرکاری رہائشگاہ الاٹ ہو گئی۔ اس وقت اسلام آباد زیر تعمیر تھا، آبادی بہت کم تھی، چنانچہ ہماری آمد پر سی ڈی اے کی طرف سے ایک ہفتے تک صبح ناشتہ اور دونوں وقت کا کھانا فراہم کیا گیا ان دنوںشام ہی سے اسلام آباد میں ایک خوفناک سناٹا چھا جاتا اور رات کو گیدڑوں کے شور کی آوازیں بھی پریشان کیا کرتیں۔اس وقت ابتدائی طور پر چند وزارتوں کے ملازمین نے اسلام آباد سیکریٹریٹ کی راہداریوں میں زندگی کے رنگ بھرے۔جہاں کراچی قیام کے دوران ادبی سرگرمیاں بھی زندگی کا حصہ تھیں، وہیں اب اسلام آباد میں زندگی اداس اور محدود تھی اور یہاں کے مناظر میں سخت نوکیلے پتھروں اور پہاڑوں کی خشک چوٹیوں کے سوا زندگی کے آثار معدوم تھے۔ بس یوں لگتا تھا جیسے کوئی تنہائی میں نظر بندی کے دن گزار رہا ہو۔ رفتہ رفتہ کراچی سے باقی وزارتوں اور دفاتر کے ملازمین بھی اسلام آباد منتقل ہوتے گئے اور کبھی کبھی ہمارے بعض ساتھی ، جو ادبی ذوق رکھتے تھے،کسی ایک دوست کے کمرے میں جمع ہوتے تو اپنی ادبی نگارشات بھی ضرور سنایا کرتے۔اس وقت دارالحکومت میں کوئی باقاعدہ ادبی سرگرمی مفقود تھی اور کوئی ادبی پلیٹ فارم موجود نہ تھا۔ میرے والد جو کہ علی گڑھ کے پڑھے ہوئے تھے، انھیں بھی یہاں ادبی سرگرمیوں کی کمی خاصی محسوس ہوتی تھی۔ مجھے بھی ادبی ذوق ورثے میں ملا تھا، تاہم اس ذوق کی آبیاری کے مواقع کم کم ہی دستیاب تھے۔ پھر ۰۸ءکی دہائی میں میری تقرری وزارتِ داخلہ میں ہوئی تو یہیں ایک نوجوان دوست محترم ریاض الاسلام سے ملاقات ہوئی۔ اس نوجوان آفیسر نے جلد ہی مجھے متاثر کرلیا اور ہم دونوں کی دوستی جلد ہی برادرانہ تعلقات میں بدل گئی۔ ایک مدت بعد یہ راز بھی کھُلا کہ موصوف نہ صرف شاعر بلکہ نعت گو شاعر ہیں۔قلمی احباب میں انھیں عرش ہاشمی کے خوبصورت نام سے جانا جاتا ہے،ہمارا ساتھ برسوں پر محیط ہوتا چلا گیا اور رفتہ رفتہ عرش ہاشمی کی نشست و برخاست، عادات و اطوار میں سیرت کا رنگ جھلکنا اور نمایاں ہوتا گیا۔ ۹۸۹۱ءمیں ہاشمی نے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر اسلام آباد میں اولین نعتیہ ادبی تنظیم محفلِ نعت ، اسلام آباد کی تشکیل کی۔اس وقت تک یہاں فروغِ نعت کیلئے کوئی ادبی پلیٹ فارم موجود نہ تھا۔چنانچہ اسلام آباد جیسی سنگلاخ اور خشک زمین میں عرش ہاشمی نے اس وقت ایک ایسا سدا بہار پودا لگایا، نہ صرف پودا لگایا بلکہ اس کی نگہداشت اور اس کی آبیاری میں اپنی جوانی کی تمام توانائیاں صرف کر دیں۔ آج اسی کا نتیجہ ہے کہ محفلِ نعت اب محفلِ نعت پاکستان کے نام سے فروغِ نعت کے حوالے سے مستحکم و مضبوط انداز سے آگے بڑھ رہی ہے، محفلِ نعت پاکستان، اسلام آباد کی ماہانہ نعتیہ ادبی نشستوں میں مثالی تواتر اور تسلسل قائم ہے۔ پچھلے ۶۳ برسوں کے دوران کسی ایک ماہ بھی ماہانہ محفل کا ناغہ ہوا ہے اور نہ اس میں کوئی التوا کی صورت سامنے آئی ہے۔ محفلِ نعت پاکستان کی ایک شاخ حسن ابدال میں بھی ۶۱۰۲ءمیں قائم ہوئی جس کے روحِ رواں ملک ذوالفقار دانش تھے۔ محفلِ نعت پاکستان کے پہلے صدر نعت گو شاعر شاہ محمد سبطین شاہجہانی تھے جو اب اب خاصے بزرگ ہو چکے ہیں۔ آج کل صدرِ محفلِ نعت پاکستان کی ذمہ داری سید ابرار حسین کے سپرد ہے ، اسلام آباد میں آج سے ۵۳، ۶۳ سال قبل جب فروغِ نعت کے لئے عرش ہاشمی اور ان کے ساتھیوں نے یہ ادبی تنظیم قائم کی اس وقت پہلے ایسی کوئی مثال سامنے نہ تھی۔تاہم اس دوران اس تنظیم کے بہت مثبت نتائج سامنے آئے۔ محفلِ نعت کی تقلید میں اسلام آباد میں ۰۰۰۲ءکے لگ بھگ ایک دوسری ادبی تنظیم بزمِ حمدونعت کے نام سے قائم ہوئی۔ اس طرح ان دونوں ادبی تنظیموں کے باہمی تعاون اور اشتراک سے متعدد غزل لکھنے والے شعراءمکمل طور سے نعت کی طرف آ گئے۔ محفلِ نعت پاکستان اور بزمِ حمدونعت سے منسلک احباب میں سے اکثر کے نعتیہ مجموعے سامنے آ چکے ہیں۔اسی طرح شاعرات کی ایک تعداد ایسی منظم ہو گئی ہے ، جس کا رجحان اب غزل سے نعت کی طرف ہو چکا ہے۔ اسلام آباد میں مقیم ایک بزرگ شاعرہ ایسی بھی ہیں جن کے اس عرصہ میں تین نعتیہ مجموعے سرکاری سطح پر سیرت ایوارڈ کے مستحق قرار دئے گئے ہیں اور اب حال ہی میں ان کا تازہ مجموعہءنعت بھی اشاعت پذیر ہوچکا ہے۔ محفلِ نعت پاکستان نے گزشتہ چند برسوں کے دوران ایک اور بہت مفید اقدام اٹھایا ہے اور یہ کہ اپریل کے مہینے میں نئے سال کے آغاز پر سالانہ مشاعرے کیلئے ردیف پہلے سے طے کر کےاس کا پہلے سے اعلان کر دیا جاتا ہے اور سالانہ مشاعرے میں صرف دی گئی ردیف پر نعتیہ کلام پیش کیا جاتا ہے۔ بے شک اس علمِ خاکی میں حضور نبی کریم ﷺ کا ظہور اللہ عزوجل کا انسانیت اور خصوصا ایمان والوں پر احسانِ بے پایاں ہے۔ آپ کا پیغام انسانیت کیلئے آبِ حیات کا درجہ رکھتا ہے۔ زیست کا کوئی بھی مرحلہ ہو صرف آپ ﷺ سے رہنمائی حاصل کر کے ہی کا میابی کی راہ پر گامزن ہوا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ ﷺ کی عظمتیں اور آپ ﷺ کے اوصافِ حمیدہ کون بشر بیان کر سکتا ہے؟ سوائے اللہ عزوجل کی ذات کے کون ہے جو آپ ﷺ کی شان اور مرتبہ و مقام سے کما حقہ آگاہ ہو؟ اللہ عزوجل ہی البتہ ایسے بندوں کو منتخب کر لیتا ہے جنھیں اپنے محبوب ﷺ کی مدح و ثنا اور توصیف و مدحت کے لئے مقرر فرما دیتا ہے، اور مجھے یقین ہے کہ ایسے ہی منتخب لوگوں میں محفلِ نعت پاکستان کے اراکین اور ذمہ داران بھی شامل ہیں۔ دارالحکومت میں آج مستحکم نعتیہ ادبی فضا تشکیل پا چکی ہے اور اس کا کریڈٹ عرش ہاشمی اور ان کے رفقاءکو ہی جاتا ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ کی عظمتوں کو بیان کرنے والے اور آپ کو باقاعدگی اور تواتر و تسلسل سے خراجِ تحسین اور خراجِ عقیدت پیش کرنے کیلئے ہر ماہ اہتمام کرنےوالے افراد بھی لائقِ مبارک باد ہیں ۔یقینا اللہ اپنے منتخب اور پسندیدہ بندوں کو ہی یہ توفیق مرحمت فرماتا ہے کہ وہ نبیِ آخرالزماں ﷺ کے حضور نذرانہءعقیدت و محبت پیش کرتے رہیں اور دوسروں کو بھی اس کی رغبت دلائیں۔ عرش ہاشمی اور محفلِ نعت پاکستان، اسلام آباد کے تمام اراکین بھی یقینا انہی چنیدہ بندوں میں شامل ہیں، جن کے شب و روزمدحتِ سرکارِ دو عالمﷺ کے مبارک کام میں صرف ہوتے ہیں۔ہماری دعا ہے کہ اللہ عزوجل انھیں مزید کامیابیاں اور ہمتیں عطا فرمائے۔ مارچ ۵۲ءمیں محفلِ نعت کے ۶۳ برس کا سفر مکمل ہوا اور اپریل میں ۷۳ویں برس کا آغاز بھی حسبِ روایت ایک شاندارردیفی نعتیہ مشاعرے کے انعقاد کے ذریعے کیا جا رہا ہے ، جس کے لئے ردیف ©، وجہِ کون و مکاں، کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے، میرا ایمان ہے کہ اللہ عزوجل جن بندوں کو اپنے حبیبِ پاکﷺ کی محبت اور ان کی مدح سرائی کا ذوق عطا کر دیتا ہے، وہ یقینا خوش بخت ہیں اورہماری دعا ہے کہ اللہ ان سب لوگوں پر اپنی مزید رحمتوں کے در وا کرے جو تسلسل سے حبیبِ کردگارﷺ کے حضور اپنا نذرانہءعقیدت پیش کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور جو محفلِ نعت پاکستان جیسی مبارک تنظیموں کو پھیلا رہے ہیںاور شب و روز اللہ عزوجل کی رحمتوں کے سائے میں مزید کامیابیوں کے لئے رواں دواں ہیں۔