چھبیسویں آئینی ترمیم کا ہر طرف غوغا مچا ہے ۔ سیاسی لوگوں کی ہا ہکار سے ہر طرف قیامت کا ساماں ہے ۔ آئینی ترمیم کیا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں ؟ حکومت کہتی ہے کہ وہ عوام کو سستے اور تیز رفتار انصاف کیلیے یہ ترمیم لانا چاہتی ہے ۔ اس سستے اور تیز رفتار انصاف کی فراہمی کا منصوبہ اور تحریک کی بنیاد میثاق جمہوریت میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے طے کی تھی ۔ ابھی تک میڈیا میں آنے والی خبروں سے اور حکومتی پریس کانفرنسوں سے سب سے پہلے تو اچھنبا ہوتا ہے کہ اتنے اہم موضوع پر اتنی سرعت اور اتنی بے توجہی سے حکومت کیسے ترمیم لا سکتی تھی ۔ حکومت کے پاس عددی اکثریت نہ سینٹ اور نہ ہی قومی اسمبلی میں پھر ایسا کیا تھا کہ یہ ترمیمی بل کا شوشہ چھوڑا گیا ۔ اس سے یہ شبہہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کو کسی طرح یقین تھا کہ عددی اکثریت پوری ہو جائے گی ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ یقین کس نے کس کو کب دلایا ۔ یہ یقین کیوں پورا نہیں ہوا اور حکومت کو خفت اٹھانا پڑی ۔ کیا اسکے ذمہ دار کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی ہو گی ۔ اب آتے ہیں حکومت کے اس دعوی کی طرف کہ یہ عوام کو سستا اور فوری انصاف مہیا کرنے کیلیے رکاوٹیں دور کرنے کی کوشش تھی ۔ پہلا سوال کیا آئینی مسائل کے حل کیلیے آئینی کورٹ کے قیام سے عام آدمی کو انصاف کی فراہمی سہل اور تیز ہو جاتی ۔ چیف جسٹس یا ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھا دینے سے حصول انصاف ممکن ہے ۔ریٹائر ججوں کو آئینی کورٹ میں کھپا دینے سے انصاف کی شاہراہ موٹر وے بن جائے گی ۔سیاسی مداخلت کیلیے چیف جسٹس کی تعیناتی کو سینیر موسٹ سے تین ججز میں سے انتخاب پر لانا جبکہ اس طریقہ سے انتہائی غیر متنازعہ طریقہ سے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد سینئر موسٹ پرموٹ ہو جاتے ہیں ۔ ابھی پنجاب کے چیف جسٹس کیلیے اس سے پہلے کبھی خبریں اور ٹکر نہیں چلیں اس دفعہ ہوا کیونکہ سنیارٹی کی بجائے اسی اصول کو اپنایا گیا ۔ میں یہاں واضح کردوں کہ کسی بھی عدالت کے جج کو دوسرے پر فوقیت دینے کا مطلب اس کی اہلیت پر شک ہی نہیں یقین کرنا ہے کہ وہ اس منصب کا اہل نہیں ۔ آرمی آفیسر یا سپریم ججز کا ٹاپ پوزیشن پر پرموٹ ہو کر پرفام کرنا یقینا اس سسٹم کی اہلیت پر شک ہے کہ وہ نااہل اور کم معیار کے افراد کو پرموٹ کر رہا ہے ۔ اب یہ دیکھنا بھی بنتا ہے کہ یہ افراد کس سیڑھی یا کس چور دروازہ سے اتنے اوپر آ جاتے ہیں ۔ کیا ججز کی خالی آسامیاں پر کر دی گئی ہیں ۔ کیا عام آدمی کو انصاف کی فراہمی میں مدد دینے کیلیے تھانے کچہری میں سیاسی اور سفارشی مداخلت کا خاتمہ ان ترمیم سے ممکن ہے ۔ انصاف کی فراہمی کیلیے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے نئے بینچ بنا کر اس میں ججز لگا کر انصاف کی فراہمی کو ممکن بنانے کا سادہ فارمولا ہمارے ہمدرد سیاستدانوں کے دماغ میں کیوں نہیں آتا ۔جب ایک بندہ ریٹائر ہو جاتا ہے تو کیا اس کا متبادل پورے محکمہ میں کوئی نہیں ہوتا ۔معذرت کے ساتھ انہی ریٹائر لوگوں کی ناکام سربراہی کا نتیجہ ناکام پاکستان کا نظام ہے ۔کونسا ادارہ ہے جس کو مثال بنا کر پیش کیا جائے ۔ہمارے معاشرہ کے اصل اہل شریف ایماندار افسر کو تو کوئی قریب بھی نہیں آنے دیتا ۔ آئینی مسائل پیدا کون کرتا ہے اور عدالتوں کو مصروف کون کرتا ہے ۔ آئین میں لکھا ہے 90دن میں انتخابات کرانا ہیں کس نے اس کیلئے حربے بہانے کس نے استعمال کیے ۔ اس کیلئے اداروں کو کس نے استعمال کیا ۔ نیب کا ادارہ اعلی اعہداداروں کے احتساب کیلئے بنا تھا اسے اس لیے متنازعہ بنایا گیا کہ ہمارے بادشاہ صفت حکمرانوں کو پوچھ گچھ کب قبول ہے ۔ سابق حکمران نیب کے ہر کیس سے یوں بری قرار پائے جیسے مکھن میں سے بال نکالا جاتا ہے ۔ جس دن ان پر فرد جرم عائد ہونی تھی اس دن ان سے ملک پر حکمرانی کا حلف لیا جاتا ہے ۔ ہمارے سیاسی قائدین میں دیوتا کوئی بھی نہیں ۔ میثاق جمہوریت جس کا حوالہ دیا جاتا ہے وہ دو سیاسی خاندانوں کے درمیان حکمرانی کا معائدہ ہے ۔ اب بھی دونوں خاندان مل کر حکومت کررہے ہیں ۔یہ ترمیم آنے والی نسلوں کی راہ سے روڑے چننے کا طریقہ تھی ۔جو مناسب منصوبہ بندی نہ ہونے کے سبب شاید ناکام ہو گئی ۔یہ کوشش جاری رکھیں گے اور پلٹ کر پلٹا کر کوشش ضرور کریں گے ۔