کالم

اسرائیل اور مغربی طاقتوں کی ذلت آمیز ناکامی

فلسطین اسرائیل جنگ کا جائزہ لیا جائے تو چھ ماہ قبل اسرائیل نے حماس کا نام و نشان ختم کرنے اور تمام یرغمالیوں کو واپس لانے کی بڑھک ماری تھی،اس کام میں دنیا کی بڑی طاقتوں نے اسرائیل کی مکمل طور پر پشت پناہی کی اور اسے بھرپور وسائل فراہم کئے لیکن ان سب کے باوجود اسرائیل اپنے اہداف حاصل کرنے میں یکسر ناکام رہا ہے اور اپنے ہی مقرر کردہ اہداف کے نصف تک بھی نہیں پہنچ پایا،اسرائیل کی اپنی رپورٹ کے مطابق حماس کے تیس ہزار سے زائد جنگجو ہیں جن میں سے13ہزار جنگجو ہلاک کرنے کے دعوے کئے جارہے ہیں ان اسرائیلی دعووں کی آزادانہ تصدیق بھی نہیں ہوئی،اسرائیل حماس کی اعلیٰ قیادت کے قریب تک نہیں پہنچ سکا،اگرچہ درجنوں کمانڈروں کی ہلاکت کے دعوے کئے گئے ہیں لیکن ان دعووں میں بھی حقیقت دکھائی نہیں دیتی غزہ میں حماس کی مقبول قیادت اب بھی برسر پیکار ہے اوعلاقے میں حماس کا اثرو رسوخ مکمل طور پر قائم ہے۔ اسرائیل چھ ماہ کے دوران اپنے یرغمالیوں کی رہائی میں بھی ناکام رہا ہے اور اب بھی ایک سو سے زائد یرغمالی حماس کی قید میں موجود ہیں جبکہ رہا ہونے والے یرغمالیوں کی تعداد ان سے کم ہے،اسرائیلی اہداف میں حماس کے زیر زمین سرنگوں کے نظام کو ختم کرنا بھی شامل تھا،کہا جاتا ہے کہ سرنگوں کا یہ نظام 500کلو میٹر سے بھی زیادہ طویل ہے،چھ ماہ تک طاقت کے بھرپور استعمال کے باوجود اسرائیل ان سرنگوں کو خاطر خواہ نقصان پہنچانے میں ناکام رہا ہے،اگرچہ اسرائیلی حکومت درجنوں کی تعداد میں سرنگوں کو تباہ کرنے کے دعوے کرتی ہے لیکن زیادہ تر کاروائیوں میں سرنگوں کے دہانے یا بیرونی حصے ہی متاثر ہوئے ہیں سرنگوں کا بیشتر نظام اسی طرح قائم ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ خوف ہے ، اسرائیلی فورسز سرنگوںکے اندر داخل ہو کر کاروائی کرنے کی جرا¿ت ہی نہیں کر پائی،اسرائیل کے حاصل کئے گئے اہداف جنگی جرائم پر مبنی ہیں،فلسطینی مسلمانوں کی تیس ہزار سے زائد شہادتیں ہیں جن میںدو تہائی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے ، فلسطین کی فوجی کاروائیوں کے دوران غزہ میں نصف سے زائد عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں ، رہائشی علاقے تباہ وبرباد ہو چکے ہیں ، درسگاہیں ، ہسپتال انتظامی محکموں کے مراکز،بجلی پانی کا نظام نابود ہو چکا ہے اور دو ملین کے قریب مسلمان بے گھر ہو چکے ہیں ۔ فلسطین پر قابض غاصب اسرائیلی حکومت اور ان کے امریکی و مغربی حواری مدت سے اس کوشش میں ہیں کہ فلسطین کے نام اور تاریخ کو دنیا کی یاداشت سے صاف کردیا جائے اور فلسطین یا فلسطینی نام کی کوئی شے زمین پر باقی نہ رہے،ان کی یہ غیر انسانی کوششیں عصر حاضر میں اپنے عروج پر پہنچ چکی ہیں،اسرائیل اور اس کے پس پشت امریکہ و مغربی طاقتوں کو یہ زعم ہے کہ وہ اپنے ظلم و جبر،مجرمانہ اقدامات اور غیر انسانی حرکات سے فلسطینی قوم کو مغلوب کرلیں گے تو یہ ان کی بہت بڑی غلط فہمی ہے ، صہیونی طاقتوں کی یہ کوشش نئی نہیں ہے بلکہ گزشتہ 77برسوں سے اسی تگ و دو میں ہیں ، لیکن وہ اپنی ان مذموم کوششوں میں نہ تو آج تک کامیاب ہو سکے ہیں اور نہ ہی آئندہ کامیاب ہو سکتے ہیں، یہ اس زعم میں ہیں کہ فلسطین اور فلسطینی قوم کو مٹا لے جائیں گے۔ لیکن فلسطینی قوم ہمیشہ باقی رہے گی اور فلسطین بھی باقی رہے گا، وہ فلسطین کا نام مٹانے کی خواہش پوری نہیں کر سکیں گے بلکہ اسی کوشش میں وہ خود ہی صفحہ ہستی اور تاریخ کے اوراق سے ناپید ہو جائیں گے، اہل فلسطین اپنی بے مثال شجاعت وبہادری اور اپنی استقامت سے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ فلسطین ان کا ہے اور جلد یا بدیر غاصب طاقتوں کو حقیقت کے آگے سرجھکانا پڑے گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اہل فلسطین کے حمایت کے فرض سے کوئی بھی مسلمان خود کو سبکدوش نہ سمجھے،اپنی طاقت کے مطابق فلسطینی قوم کی مدد و حمایت مسلسل جاری رکھی جائے،ان کو وسائل اور ضروریات زندگی مہیا کئے جائیں ، ان کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ وہ اپنی جرات مندانہ جدوجہد کو جاری رکھ سکیں،فلسطین کے مسلمانوں کی مزاحمت و استقامت کو عالم اسلام کی بھرپور حمایت تسلسل کے ساتھ درکار ہے، سب سے بڑ المیہ تو یہ ہے کہ سفارتی سطح پر بھی مسلم حکومتوں کا کردار عدم تعاون پر محیط ہے اسرائیل پر سفارتی دباﺅ کی ازحد کمی محسوس کی جارہی ہے اگر مسلم ممالک کی حکومتیں اسرائیل پر سفارتی دباﺅ ڈالیں تو فلسطینی بھائیوں کے ساتھ ہونےوالے ظلم و جبر کا راستہ روکا جا سکتا ہے یہی نہیں عرب ممالک کا پاس تیل کا بہت بڑا ہتھیار موجود ہے،اگر اسرائیل کی حمایت کرنےوالے ممالک کا تیل ایک ماہ کےلئے ہی بند کردیا جائے تو ان ممالک کا نظام زندگی معطل ہو جائے گا،واضح رہے کہ امریکہ و دیگر مغربی قوتیں گندم اور دیگر غذائی اشیا کو بھی اسلحے کے طور پر استعمال کر چکی ہیں تو ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ مسلم ممالک تیل کی طاقت کو ہتھیار کے طور پر کیوں استعمال نہیں کرتے؟۔فلسطینی قوم پر ظلم و جبر کی جو داستان لکھی جارہی ہے تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی لیکن پھر بھی دنیا کو اس کا حقیقی پہلو نہیں دکھایا جاسکا،مسلمان حکومتوں سے لیکر عام مسلمانوں تک کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس غیر انسانی ظلم و جبر کو دنیا پر آشکار کریں،سوشل میڈیا سے لیکر عالمی میڈیا تک کا بے دریغ استعمال کیا جائے،اسرائیلی ظلم و ستم اور فلسطینی مظلومیت کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرکے بھی اپنے فلسطینی بھائیوں کا ساتھ دیا جا سکتا ہے،فلسطینی عوام کی مالی مدد بھی وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ہر مسلمان پر یہ فرض ہو چکا ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق فلسطینی بھائیوں کی مدد کرے تاکہ انہیں استقامت حاصل ہو سکے،اس وقت فلسطینی قوم اللہ کی مدد و نصرت کے بھروسے پر ایک عظیم اور تاریخی ذمہ داری سرانجام دے رہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri