کالم

ایک جماعت کے ساتھ نوازشات

ملک میں یوں تو الیکشن کمیشن سپریم کورٹ اور صدر مملکت کے حکم کے بعد آٹھ فروری کو انتخابات کرانے جا رہا ہے۔اور عوام میںیہ تاثرپختہ ہو رہا کہ ایک سیاسی جماعت ا ور اس کے سربراہ کو برسر اقتدار لانے کےلئے ہر قسم کی نوازشات کی جا رہی ہیںلیکن دوسری جانب ایک اور بڑی جماعت کے بارے میں الیکشن کمیشن کا طرز عمل غیر منصفانہ ہے۔ ملک میں الیکشن کمیشن کے پاس 175 سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں لیکن کمیشن نے کسی پارٹی کے انٹراپارٹی الیکشن بارے میں کوئی سوال نہیں اٹھایا۔ چنانچہ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جماعتوں میںنہ تو جمہوریت ہے اور نہ ہی مسلمہ طریقے سے ان میں انتخابات ہوتے ہیں۔ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے بارے میں ایسا طرز عمل الیکشن کمیشن کو زیب نہیں دیتا اور کمیشن کے حکام جتنے چاہیں بیانات دیں، ان پر جانبداری کا داغ دھل نہیں سکتا۔مجھے تحریک پاکستان کے کارکن کی حیثیت سے 1945-46کے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے دوران کام کرنے کا موقع ملا۔میں نے اپنے چندمرحوم ساتھیوں کے ساتھ امرتسر شہر اور تحصیل کے کئی پولنگ سٹیشنوں پر کام کیا۔ میں ان انتخابات کے بعد پاکستان بھر میں ہونے والے تمام انتخابات کے حقائق بخوبی جانتا ہوں اور اللہ کو حاضر ناظرجان کر یہ کہہ رہا ہوں کہ وطن عزیز میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کبھی صاف ، شفاف اور آزادانہ نہیں ہوئے۔ انیس سو چھپن میں انتخابی اصلاحات کی تجاویز دینے والے سرکاری کمیشن نے اعتراف کیا کہ پاکستان بننے کے بعد سات برس کے عرصے میںجتنے بھی صوبائی انتخابات ہوئے وہ جعل سازی، فراڈ اور مذاق سے زیادہ نہیں تھے۔اور پھر انہی منتخب صوبائی اسمبلیوں نے انیس سو چون میں پاکستان کی دوسری مجلس دستور سازکا انتخاب کیا جس نے مشرقی و مغربی پاکستان سے چالیس چالیس ارکان منتخب کئے۔ چودھری محمد علی مرحوم مغفور وزیر اعظم بنے انہوں نے اپنے گیارہ ماہ کے دور میں 1956ءکا مکمل جمہوری اور اسلامی آئین تیار کیا اور پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا گیا ۔ میجر جنرل سکندر مرزا پہلے صدر مقرر ہوئے اور پھر آئین کے تحت ملک میں پہلی مرتبہ ایک تین رکنی الیکشن کمیشن تشکیل دیاگیالیکن اس سے پہلے کہ یہ الیکشن کمیشن انتخابات کرا تا، صدر میجر جنرل سکندر مرزا نے7 اکتوبر کو اس وقت کے وزیر اعظم سرفیروز خان نون کے نام خط لکھا کہ اس آئین کو منسوخ نہ کیا گیا توانہیں ملک سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے مارشل لاءلگا کر جنرل ایوب خان کوچیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر لگا دیا۔ایوب خان نے بنیادی جمہورتوں کا نظام قائم کیا اور انہوں نے 1964ءمیں صدارتی انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا۔1962ءکے آئین کے تحت اپنے عہدے پر موجود سربراہ صدارتی انتخاب نہیں لڑ سکتا تھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنی اہلیت کےلئے آئین میں ترمیم کرنا پڑی ۔ اس وقت ایوب خان کی کنونشن لیگ کو قومی اسمبلی میں 102 ارکان کی حمایت حاصل تھی جبکہ آئینی ترمیم کےلئے 104 ارکان مطلوب تھے۔ ایوب خان نے مفتی محمود مرحوم سے ترمیم کی حمایت کرنے کےلئے سودے بازی کی اور قومی اسمبلی کے سینئر ڈپٹی سپیکر چودھری محمد افضل چیمہ کو ترمیم کی حمایت اور کاسٹنگ ووٹ استعمال کرنے کےلئے اس شرط پر آمادہ کیا کہ انہیں مغربی پاکستان ہائی کورٹ کا جج بنا دیا جائےگا۔
اس وقت ملک میں موجود مشترکہ حزب اختلاف کی جماعتوں نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی انتخاب کےلئے نامزد کیا۔ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی قیادت میں مادر ملت نے صدارتی انتخاب میں بھاری اکثریت حاصل کی جبکہ مغربی پاکستان میں وسیع پیمانے پر دھاندلی کی گئی اس میں دھونس اور سرکاری سرمایہ استعمال ہوا بلکہ اس وقت بھی ایک ریاستی ادارے کو انتخاب جیتنے کےلئے استعمال کیا گیا۔ 6 ستمبر 1965ءکو جب بھارت نے حملہ کیا تو ایوب خان نےاس دارے کے سربراہ برگیڈیئر ریاض حسین سے پوچھا کہ انہیں اس حملے کی اطلاع کیوں نہ ملی تو انہوں نے جواب میں کہا کہ آپ نے ہمیںہر صورت انتخاب جیتنے کےلئے ذمہ داری سونپ رکھی تھی اس لئے بھار تی حملے کا پہلے سے علم نہ ہو سکا۔ بعد ازاں متحدہ حزب اختلاف نے جنرل ایوب خان کے خلاف ملک گیر تحریک چلائی۔ فروری کے ہفتے میں لاہور میں چودھری محمد علی مرحوم کی رہائش گاہ پر حزب اختلاف کا مشترکہ اجلاس ہوا اس میںمولانا سید ابواعلیٰ مودودی،میاں ممتاز خان دولتانہ، عبدالولی خان، نواب زادہ نصراللہ خان اور شیخ مجیب الرحمن سمیت دیگر رہنما شریک ہوئے۔ اس اجلاس میں طے کیا گیا کہ آئندہ انتخابات بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہوں گے اور مشرقی و مغربی پاکستان کو آبادی کے لحاظ سے نمائندگی ملے گی۔ ایوب خان نے یہ مطالبات تسلیم کرتے ہوئے آئندہ انتخاب میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا۔ اس کے ساتھ ہی ان کی سرکاری نظم و نسق پر گرفت کمزور ہو گئی اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل یحییٰ خان فلیش مین ہوٹل بیٹھ کر یہ بات کہتے رہے کہ ایوب خان کو جلد عہدے سے فارغ کر دیا جائے گا۔ چنانچہ انہوں نے مارچ 1969 ءمیں چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر بن کر اقتدار سنبھال لیا۔ جنرل یحییٰ کے دور میں جوانتخابات ہوئے وہ بھی شفاف اور آزادانہ ہرگز نہ تھے۔ ان انتخابات کے دوران مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان میں دھونس ، دھاندلی کی بنا پر بیلٹ پیپرز پر ٹھپے لگائے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے مشرقی پاکستان میں کوئی امیدوار کھڑا کرنا مناسب نہ سمجھا۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے مسلح کارکنوںاور بھارتی ایجنٹوں نے پولنگ سٹیشنوںپر کھلم کھلاقبضہ کر رکھا تھا۔ اگرچہ تحریک انصاف کے بانی اکثر کہتے رہے ہیں کہ 1970ءکے انتخابات بڑے شفاف تھے لیکن حقائق اسکے برعکس ہیں۔ان کی رائے سنی سنائی باتوں پر مبنی ہے۔ وطن عزیز کی بڑی بدقسمتی ہے کہ جب جنرل یحییٰ نے 3 مارچ کو ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا تو اسے بھٹو صاحب کے مطالبے پر منسوخ کر دیا گیا۔ 3 مارچ 1971ءتک مشرقی پاکستان میں حالات پرامن تھے اور مشرقی پاکستان کے عوامی لیگ کا کوئی رکن اسمبلی چھ نکات یا مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ شیخ مجیب الرحمن مغربی پاکستان کی جیل میں تھے اور وہ اکثریتی پارٹی کے لیڈر تھے اور وہ مطالبہ کر رہے تھے کہ قومی اسمبلی کا فوری اجلاس بلایا جائے لیکن یہ قوم کی بہت بڑی بدقسمتی تھی کہ یحییٰ نے بھٹو صاحب کے دباو¿ کی وجہ سے اس مطالبے کو تسلیم نہ کیا۔ بھٹو صاحب نے لاہور میں یہاں تک کہا کہ پیپلز پارٹی کے جو لوگ ڈھاکہ جائیں گے ان کی ہڈیاں توڑ دی جائیں گی۔ بھٹو صاحب مجیب الرحمن سے یہ یقین دہانی چاہتے تھے کہ انہیں نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ منتخب کیا جائے۔ لیکن عوامی لیگ کی قیادت ہر فیصلہ اسمبلی کے اجلاس میں کرنا چاہتی تھی۔ ایک مرحلے پر یحییٰ خان نے شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان اجلاس کا اہتمام کیا تو بھٹو صاحب نے مجیب الرحمن سے کہا آپ وزیر اعظم بن جائیں،تو میں ملک کا صدر بن جاو¿ں گا اس پر شیخ مجیب الرحمن نے کہا کہ صدر تو جنرل یحییٰ خان ہیںکیونکہ جنرل یحییٰ اور شیخ مجیب الرحمن ایک خفیہ اجلاس میں طے کر چکے تھے کہ شیخ مجیب الرحمن وزیر اعظم ہوں گے تو وہ (جنرل یحییٰ)صدارت کے عہدے پر فائز رہیں گے ۔ 3 مارچ 1971ءکے بعد مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کرنے کا فیصلہ ہوا تو عوامی لیگ کے غنڈوں اور بھارتی فوج نے مکتی باہنی کی آڑ میںمغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے اور پاکستان کی سالمیت و یکجہتی کے حامی محب وطن رہنماو¿ں اور عام لوگوں کا قتل عام شروع کر دیا اور بھارت نے کھلم کھلا مختلف مقامات پر مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا۔ ان دنوں بھی وطن عزیز سیاسی ، معاشرتی اور اقتصادی بحران سے گزر رہاہے۔ہمارے نگران وزیر اعظم کواس کا کوئی ادراک نہیں۔ نگران حکومت کے دور میں افغانستان سے حالات سدھارنے کےلئے کوئی صحیح اقدام نہیں اٹھایا گیا بلکہ اس کے برعکس افغانوں کو جلا وطن کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔پاکستان نے بڑے عرصے تک افغان مہاجرین کے قیام و طعام کےلئے انتظامات کئے۔ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاءکے بعد ہمارے سابقہ حکمرانوں نے نئی افغان حکومت کو تسلیم نہ کیا ۔ ملک میںموجود تحریک پاکستان کے کارکن ، محب وطن، باشعور ، دردمند پاکستانی نگرانوں کی پالیسیوں سے سخت مایوس ہیں۔ اس وقت قوم بلا شبہ ملکی حالات کے بارے میںمایوسی کا شکار ہے۔ نگران حکومت نے علامہ اقبالؒ ، حضرت قائد اعظمؒ اور مفکر اسلام مولانا مودودیؒ کے فلسطین کے بارے میں واضح مو¿قف سے انحراف کی راہ اختیار کی ہے۔ دفاعی اعتبار سے پاکستان ایک بڑی ریاست تصور کی جاتی ہے۔ پاکستان کی جانب سے کبھی جرات مندانہ اقدام یا بیان اسرائیل اور امریکہ کو بے یارو مددگار فلسطینیوں پر اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملوں کو روک سکتا تھا لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان کی نگران حکومت نے اس بارے میں کوئی مو¿ثر اور مضبوط مو¿قف اختیار نہیں کیا بلکہ نگران وزیر اعظم نے بزدلی کا مظاہرہ کیا اور فلسطینیوں کی آواز پر لبیک نہیں کہا۔ کشمیریوں اور فلسطینیوں کو پاکستان سے بڑی توقعات وابستہ تھیں لیکن سولہ ماہ کی پی ڈی ایم کی حکومت اور اس کے بعد نگران حکومت پاکستانی قوم کی توقعات پر پورا نہیں اتری۔ پاکستانی حکام تدبر، فراست اور حکمت اور دانائی سے غور فکر کرتے اور کشمیریوں و فلسطینیوں کی مو¿ثر امداد کےلئے کوئی صحیح راستہ اور مضبوط مو¿قف اختیار کرتے تو شاید فلسطین میں بیس ہزار سے زائدشہادتیں نہ ہوتیں۔ ہمارے نگرانوں نے نہ صرف امت مسلمہ کے تصور کو نظر انداز کیا بلکہ مسلمان ملکوں کے مشترکہ اجلاس میں کوئی ٹھوس آواز نہیں اٹھائی۔ اگرچہ الیکشن کمیشن صاف شفاف انتخابات کرانا چاہتا ہے مگرہمیں ایسی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ ایک جماعت کے ساتھ کمیشن کا سوتیلاپن صاف ظاہر ہو رہا ہے۔ ان انتخابات کو کون تسلیم کرے گا۔ مختلف ذرائع سے ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ اگر تحریک انصاف کو انتخابی آزادی مل جائے اور وہ کامیاب بھی ہو جائے تو اسے بہر صورت اقتدار میں نہ رکھا جائے گا۔ ہمارے ادارے کیا سوچ رہے ہیں۔کیا انہیں ملک کے موجودہ حالات کا ادراک نہیں،اسکی بربا د یو ں کے مشورے ہو رہے ہیں لندن، واشنگٹن ، تل ابیب اور دہلی میں لیکن ہمارے صاحب اقتدار اور ادارے نا معلوم کیاسوچ رہے ہیں۔ تحریک پاکستان کے کارکن اور محب وطن لوگ صرف بارگاہ الہیٰ میں دعا ہی کر سکتے ہیں کہ یا اللہ آپ نے قائد اعظم محمد علی جناح ؒ اور علامہ اقبالؒ کے فکر و عمل کے نتیجے میں ستائیس رمضان المبارک، نزول قرآن کی شب پاکستان عطا کیا تو اس کی قرآن کی طرح حفاظت فرمائیے اور قیامت تک قائم دائم اور پائیدار رکھیئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri