کالم

بھارت تصادم کی راہ پر

قیام پاکستان سے ہی اگرچہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات اتار چڑھا کا شکار رہے مگر پچھلے 10 سال سے جب سے بھارت میں نریندر مودی وزیراعظم بنے ہیں بھارت اور پاکستان کے درمیان تنا کی کیفیت رہی ہے کبھی کرکٹ کھیلنے اور کبھی ویزوں پر پابندی، ستمبر 2016 کو ایل او سی اور 2019 میں بالاکوٹ پر سرجیکل سٹرائکس کی گئیں دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی بڑی وجہ بھارتی وزیراعظم کا انتہا پسندانہ جارحانہ رویہ ہے بھارت میں دہشت گردی کے ہونے والے ہر واقعے کا الزام کسی ثبوت اور شواہد کے بغیر پاکستان پر لگا دیا جاتا ہے بھارت اور پاکستان کے درمیان ماضی میں کارگل سمیت تین جنگیں ہو چکی ہیں کئی مرتبہ دونوں تصادم کی طرف بڑھے لیکن دوست ممالک ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے مذاکرات کی میز پر لے آتے اب ایک مرتبہ پھر بھارت نے پہلگام حملے کا الزام پاکستان پر لگا کر سفارتکاروں کو ملک چھوڑنے ،پاکستانیوں کے ویزے منسوخ کرنے کے ساتھ یک طرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے کو معطل کر کے طبل جنگ بجا دیا جوابا پاکستانی قیادت نے شملہ معاہدہ سمیت تمام دو طرفہ معاہدوں کو معطل کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے بھارت کے لیے فضائی حدود ،سرحدی آمد و رفت اور ہر قسم کی تجارت بند کرنے اور دفاعی اتاشیوں کو واپس بھجوانے ک کا اعلان کیا ہے ۔بھارت کی پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کے بعد حالات خرابی کی طرف بڑھتے نظر آرہے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان سرحدی کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے عالمی قیادت نے بھی اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا کہ پاک بھارت تعلقات ہمیشہ سے کشیدہ رہے ہیں دونوں ممالک تنازع کو خود حل کریں جبکہ امریکی نیشنل انٹیلیجنس ڈائریکٹر ٹلسی گبیارڈ کا حالیہ بیان میں بھارتی وزیر اعظم کو یقین دلایا اور کہا کہ بھارت ان کے ساتھ ہے اور پہلگام حملے کے ذمہ داروں کے تعاقب میں امریکہ ان کی مدد کرے گا انہوں نے کہا ،،ہم اس ہولناک اسلامسٹ دہشت گرد حملے کے بعد بھارت سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں ،،اقوام متحدہ کی جنرل سیکرٹری جنرل نے بھارت اور پاکستان سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ملک خطے میں کشیدگی کو بڑھنے سے روکنے کے لیے تحمل کا مظاہرہ کریں اقوام متحدہ نے شہریوں پر حملوں کو ناقابل قبول حل قرار دیا ہے۔ماضی کی طرح بھارتی حکومت پہلگام حملہ پر ایسا رد عمل دیے رہی ہے جس کا مودی حکومت کو سیاسی فائدہ ہو تاہم بھارت کوئی انتہائی اقدام نہیں کرے گا کیونکہ دونوں ممالک جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ دونوں ممالک کی فوجی اور سیاسی فیصلوں میں یہ عمل حاوی ہوتا ہے جوہری ہتھیار ایک خطرہ اور جنگ کی جانب بڑھنے والے قدموں کو روکنے کے لیے ایک رکاوٹ بھی ہیں جو فیصلہ سازوں کو اختیاط سے کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں بھارت نے اگر کوئی ایسا انتہائی اقدام کرنے کی کوشش کی تو اسے دندان شکن جواب ملے گا۔ بھارت نے یک طرفہ طور پر 1960 کے سندھ طاس معاہدے ا کو معطل کرکے جس جنگ کا اغاز کیا ہے اس اس کا خاتمہ بھی بھارت ہی کر سکتا ہے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی جنگوں کے دوران بھی فعال رہا بھارت کا یہ اقدام پاکستان کے خلاف”سندھ طاس معاہدہ عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا تھا بھارت کو یکطرفہ اس معاہدے کو منسوخ یا معطل کرنے کا حق ہی حاصل نہیں اور معاہدے میں ایسی کوئی شق بھی نہیں کہ اسے معطل کیا جا سکے۔ تاہم دونوں ممالک باہمی رضامندی سے اس معاہدے میں تبدیلی کر سکتے ہیں۔بھارت نے جموں کشمیر میں ایل او سی کے قریب متنازعہ کشن گنگا پروجیکٹ اور رتلے پن بجلی منصوبے تعمیر کیے اس حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان تنازع ہے جسے پاکستان عالمی بینک کے پاس لے کر گیا ۔گزشتہ برس بھارت نے پاکستان سے اس معاہدے پر نظر ثانی ،ترمیم کس مطالبہ بھی کیا تھا۔پاکستان اور انڈیا کے درمیان دہائیوں سے کبھی اس طرح معاہدے کو نہیں چھیڑا گیا اب یہ بھارتی اقدام پورے خطے اور عالمی امن کے لیے ایک بہت غیر مثالی اقدام ہے۔ اس معاہدے سے لوگوں کی بقا جڑی ہوئی ہے، اسی وجہ سے معاہدے کی معطلی دونوں ممالک کو جنگی صورتحال کی طرف لے جا سکتی ہے یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان جنگوں کے دوران بھی معطل نہیں کیا گیا اور اس کا ثالث عالمی بینک ہے معاہدہ کسی بھی قسم کی تبدیلی کےلئے دونوں ممالک کی باہمی رضامندی کو پابند کرتا ہے اور ایسا نہ ہونے کی صورت میں پاکستان عالمی عدالت انصاف میں یہ معاملہ لے جا سکتا ہے۔بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی یک طرفہ معطلی کے اعلان کے بعد پاکستانی دفتر خارجہ اور متعلقہ محکمہ انڈس واٹر کمیشن کی جانب سے عالمی بینک کے صدر دفتر واشنگٹن میں تاحال ثالثی کےلئے درخواست نہیں دی گئی ضروری ہے کہ پاکستان فوری طور پر معاہدہ کے ثالث عالمی بینک کو باضابطہ اطلاع کریے۔پاکستان کو سفارتی محاز پر بھارت کے فالس فلیگ اپریشن کے بارے میں آگاہ کرنے کےلئے سفارتی مشنز کو متحرک کرنا ہوگا اور تمام تر صورتحال سے فوری طور سلامتی کونسل کو آگاہ کرنا ضروری ہے ۔ پاکستانی عوام سیاستدان اور افواج ملکی بقا اور مادر وطن پر آنے والی کسی بھی آزمائش پر ہمیشہ متحد نظر آئے آج بھی 1965کے جذبے کی ضرورت ہے قوم اور سیاسی قوت متحد اور منظم ہو کر سامنے آئے عوام اور افواج مل کر یہ ثابت کر دیں کہ ہم ناقابل تسخیر ملک ہیں اور اپنا دفاع اپنی جانوں پر کھیل کر کرنا جانتے ہیں ہماری تاریخ گواہ ہے کہ مادر وطن کی حفاظت کےلئے تن من لٹانے میں فخر محسوس کرتے ۔ پہلگام فالس فلیگ حملے کے پیچھے چھپے بھارتی محرکات کھل کر سامنے آگئے، اس حملے کی آڑ میں بھارت ۔خیال رہے کہ گزشتہ سال، بھارت نے پاکستان کو ایک باضابطہ نوٹس بھیجا تھا، جس میں اس معاہدے پر نظرثانی اور ترمیم کا مطالبہ کیا گیا تھا۔بھارت نے جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے قریب متنازع کشن گنگا اور رتلے پن بجلی منصوبے تعمیر کیے ہیں اور اس حوالے سے نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان اختلافات ہیں۔ اس پر فیصلے کے لیے پاکستان نے عالمی بینک سے رجوع کیا تھا اور عالمی بینک کا فیصلہ ایک حد پاکستانی موقف کے حق میں رہا ہے۔عالمی بینک کی ثالثی میں 1960 طے پانے والا سندھ طاس آبی معاہدہ پاکستان اور بھارت کو کو دریائے سندھ کے پانی تک مشترکہ رسائی کی سہولت فراہم کرتا ہے ۔ معاہدے کے تحت بھارت کو تین مشرقی دریاوں راوی، ستلج اور بیاس پر کنٹرول دیا گیا جبکہ پاکستان کو تین مغربی دریاوں سندھ، جہلم اور چناب پر کنٹرول سونپا گیا۔ اس کے تحت ان دریاوں کے 80 فیصد پانی پر پاکستان کا حق ہے۔یہ معاہدہ بھارت کو مغربی دریاوں پر ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹس تیار کرنے کی بھی اجازت دیتا ہے، لیکن ان منصوبوں کو سخت شرائط پر عمل کرنا چاہیے۔ انہیں رن آف دی ریور پروجیکٹ ہونا چاہیے، مطلب یہ ہے کہ وہ پانی کے بہاو یا ذخیرہ کو نمایاں طور پر تبدیل نہیں کر سکتے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے