کالم

جب آنسو مقدر بن جائےں

آنسوﺅں کے متعلق اکثر شعراءنے اظہار خےال کےا ہے کےونکہ ان کی زندگےاں بھی غربت و افلاس کی جھکڑ بندےوں مےں آنسو بہاتے ہی گزرےں
جب قلم ہی آنسو روتا ہو
وہ افسانہ سنائےں کےا
وطن عزےز پر بےرونی اور اندرونی حملہ آوروں کے باعث شہادتےں اور ہلاکتےں روز مرہ کا معمول بن چکی ہےں ۔اپنی رےاست کے آنسوﺅں کو دےکھ کر ہر فرد کی روح تک گھائل ہے کےونکہ بقول ستار سےد
ہم کےوں نہ ہوں اداس کہ بحران کے سوا
حالات اور کوئی خبر دے نہےں رہے
شب ڈھل چکی افق پہ ہےں خون رنگ سرخےاں
کےوں تم ہمےں نوےد سحر دے نہےں رہے
خوشی و غم کے ساتھ آنسوﺅں کا ازلی تعلق ہے دونوں مواقع پر انسانی آنکھ آنسو بہانے پر مجبور ہوتی ہے ،ےہی فطرت ہے۔بقول شاعر
مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ
وقت کتنا ظالم ہوتا ہے کہ آنسوﺅں کے سمندر مےں ڈبو کر رخصت ہو جاتا ہے ۔آنسوﺅں کی جھڑی جدائی کو لافانی بنا دےتی ہے ۔جدائی کا درد ہمےشہ کےلئے بچھڑنے والوں کا غم آنسوﺅں مےں بہتا ہے ۔ےہ دنےا ہے ،کئی بد قسمت انسان نصےب ہی اےسا لے کر آتے ہےں کہ ان کی پوری زندگی ہی روتے اور آنسو بہاتے بسر ہو جاتی ہے ۔رات کے وقت قادر مطلق کی بارگاہ مےں اپنے گناہوں پر نادم ہونے ،معافی مانگنے ، استغفار کرنے، آنسو بہاکر گرےہ کناں ہونے سے بھی دلی راحت و سکون ا ور بارگاہ رب جلےل سے معافی مل جاتی ہے ۔آنسوﺅں کے متعلق صاحب بصےرت دانش مند کئی محاورے بھی احاطہ تحرےر مےں لا چکے ہےں جےسا کہ ٹسوے بہانا۔کئی لوگ بھی جھوٹے آنسو بہانے کے ماہر ہوتے ہےں ۔پلاننگ کر کے بھی آنسو بہا سکتے ہےں لےکن ہر اےک کےلئے اےسے آنسو بہانا ناممکن ہوتا ہے کےونکہ آنسو بہانے کی بھی وجوہات ہوتی ہےں وےسے بھی مرد کےلئے آنسو بہانا مشکل ہے۔کئی مشہور زمانہ نامور لوگوں نے آنسوﺅں کی قدرومنزلت مےں کہا ہے کہ ہمےں ماں کے آنسوﺅں نے ہمےشہ متاثر کےاہے۔مسرت کے غلبے پر بھی آنسووﺅں کا بہہ جانا فطرت ہے ۔کئی لوگ ظلم روا رکھ کر بھی شائد ندامت کے آنسو بہاتے ہوں لےکن اےسا شائد حال حال ہی ہو کےونکہ ےہی دےکھا گےا ہے کہ ہمےشہ مظلوم کے گھر اور صحن مےں آنسو بہائے جاتے ہےں ۔ آنسو اخلاص اور صداقت کے گواہ ہوتے ہےں ۔اسی لئے ارشاد نبوی کے مطابق اﷲ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں پر دوزخ کی آگ حرام کر دی ہے جن کی آنکھ سے اﷲ کی محبت مےں آنسو کا اےک قطرہ بھی نکلا ہو وےسے ہمارے حکمران آنسوﺅں کی نعمت سے عوام کو مفت فےض ےاب کرنے کےلئے شکرےہ کے مستحق ہےں کےونکہ وہ عوام کو ےہ مواقع زےادہ سے زےادہ مہےا کر رہے ہےں ۔ہم اپنے دےنی رہنماﺅں اور سےاسی قائدےن مےں ہمےشہ اےسے افراد کی تلاش مےں سرگرداں رہے جن کی باتوں ،دعوﺅں اور وعدوں کی گواہی ان کی رقےق القلبی اور پرنم آنکھےں دے سکےں لےکن اےسا درد جو آنکھوں سے ٹپک پڑے تلاش کرنا اکثر محال رہا ۔وےسے وطن عزےز کے کئی سےاسی قائدےن مگر مچھ کے آنسو بہاتے پائے گئے ہےں۔عوام کی حالت زار پردرد دل رکھنے والے ناےاب رہے ۔حضرت علی کرم اﷲ وجہہ اےک دن اپنے چند ساتھےوں کے ہمراہ اےک گلی سے گزر رہے تھے کےا دےکھتے ہےں کہ اےک شخص تکبےرپڑھتے ہوئے اےک بکرا ذبح کر رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ زاروقطار روتا چلا جا رہا ہے ۔بکرے کی گردن سے خون بہہ رہا تھا اور اس شخص کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۔ حضرت علیؑ کے ساتھےوں مےں سے اےک کے دل مےں اس شخص کے آنسوﺅں کو دےکھ کر انتہائی رقعت آمےز جذبے ابھر آئے ۔انہوں نے حضرت علیؑ کی توجہ اس شخص کے آنسوﺅں کی طرف مبذول کروائی اور خامشی کی زبان مےں ےہ اظہار کرنے کی کوشش کی کہ ےہ شخص کتنا رحم دل انسان ہے کہ حلال جانور کو ذبح کرتے ہوئے بھی اس کا درد محسوس کر رہا ہے ۔آپؑ نے اپنے ساتھی کو سمجھاےا کہ دےکھو اس شخص کے آنسوﺅں پر مت جاﺅ ۔اس کے ہاتھوں کی طرف دےکھو ۔اس کے ہاتھ کےا کر رہے ہےں ؟آپ کابصےرت افروز بےان ختم ہو چکا تھا ۔مورخ نے اسے آئندہ زمانوں تک محفوظ کر لےا تھا ، کےوں ؟اس لئے کہ اس ارشاد مےں کمال کی حکمت پائی جاتی ہے ۔آپؑ نے اپنے ارشاد سے حکمت کے دو در وا کئے ہےں ۔آپؑ نے جو ےہ فرماےا کہ بکرا ذبح کرنے والے اس شخص کے آنسوﺅں کو مت دےکھو بلکہ ےہ دےکھو اس کے ہاتھ کےا کر رہے ہےں ؟وہ ہاتھ تو اےک جاندارکی شاہ رگ کاٹ رہے تھے اور آنکھوں کے پانی کو بہاتے ہوئے اس امر کا اظہار کر رہے تھے کہ وہ اپنے اس عمل پر بڑے غمگےن ہےں ۔جس بدن کے ہاتھ خون سے لت پت ہوں اس بدن کی آنکھوں مےں آنسو اچھے نہےں لگتے ۔آنسوﺅں کی ےہ لڑی دروےشی کی خلعت پہن کر عےاری بن جاتی ہے۔
آنسو بہانے پر راقم کو سانحہ کربلا کے حوالے سے اےک واقعہ ےاد آگےا ۔اکسٹھ ہجری کو جب امام عالی مقام حضرت امام حسےنؑ اور ان کے 72ساتھےوں کی شہادت ہو چکی تو سادات کے خےموں کو لوٹا جانے لگا ۔راوی کہتا ہے کہ اےک شخص سادات کے خےموں سے سامان لوٹ رہا ہے اور ساتھ رو رہا ہے ۔اس کی آنکھےں زخم نازک کی طرح نم ہےں ،لفظ ہونٹوں سے جدا اور ہونٹ جذبوں کی لے پر لرزہ بر اندام ہےں ۔ راوی کہتا ہے کہ مذکورہ شخص کے اےک ساتھ دو متضاد روےوںکی انجام دہی پر مےں نے اسے کہا کہ اے شخص معلوم ہوتا ہے کہ تم نبی کے نواسے اور ان کے خانوادے پر برپا ہونےوالے مظالم پر گرےہ کناں ہو لےکن مےں حےران ہوں کہ اس کے ساتھ تم اس خاندان کا اثاثہ ےعنی سامان کی لوٹ مار مےں بھی مصروف ہو اس شخص نے جواب دےا کہ بہت بڑا ظلم ہوا ہے اس پر مجھے دلی رنج ہے اور مےں اپنے انسانی ہمدردانہ جذبات کو قابو مےں نہےں رکھ سکا لےکن سامان اس لئے لوٹ رہا ہوں کہ اگر مےں نے نہ لوٹا تو کوئی دوسرا لوٹ کر لے جائے گا۔کچھ ےہی حال وطن عزےز کے حکمرانوں کا رہا ۔ہمارے ےہ حکمران اس قوم کے مفلسوں پر آنسو بہاتے نظر آئے لےکن ان کے ہاتھ اس قوم کا اثاثہ لوٹنے مےں ہی مصروف رہے اور آنسوﺅں کی طوالت بڑھتے بڑھتے ہماری زندگےوں پر محےط ہوگئی۔
امت مسلمہ پر اس وقت جو کٹھن دور گزر رہا ہے ،چھپن اسلامی ممالک پر مشتمل اےک ارب کے قرےب مسلمان رسوا کئے جا رہے ہےں ۔قتل عام جاری ہے ،قےادت کا فقدان ہے ،قوم بے حسی کا شکار ہے ۔افغانستان نگلا جا چکا ،عراق کی اےنٹ سے اےنٹ بجا دی گئی ، شام اور لےبےا کو کھنڈرات مےں تبدےل کر دےا گےا ۔خود مغربی ممالک کے عوام ان مظالم پر چےخ اٹھتے ہےں ،سڑکوں پر نکل آتے ہےں ۔نہتے کشمےرےوں کے قتل و غارت پر عورتوں کے بےن ،نالے اور آہ و زاری آسمان چےر جاتے ہےں ۔اسرائےل کے فلسطےن کے بے نواﺅں پر ہونے والے مظالم کے آگ و خون اور موت کے کربناک مناظر روزانہ ٹی وی پر دےکھنے کو ملتے ہےں ۔کشمےر و فلسطےن ،بے گناہ لوگوں کا قتل عام ہو رہا ہے جن کو ےہ بھی معلوم نہےں کہ ہمےں کس جرم مےں مارا جا رہا ہے ،لاشوں کے انبار ہےں اور ہم خاموش تماشائی ےہ کربناک مناظر دےکھنے پر مجبور ۔ان مناظر کو دےکھ کر آواز بھرا جاتی ہے ،آنسو آنکھوں کے شےشے پر تےرنے لگتے ہےں ،ضبط و حوصلے کے پہاڑ مےں بھی شگاف ہو جاتے ہےں ،درد کے بند ٹوٹ جاتے ہےں ۔ ہماری حالت تو مجبورو لاچار انسانوں کی سی ہے کےونکہ
دل ناشاد نہ رو رونے سے کےا ہوتا ہے
ہماری ہمت تو جواب دے گئی ہے ،حوصلے پست ہو گئے ہےں ۔اس کا علاج تو امت مسلمہ کے اتحاد و ےگانگت پر منحصر ہے ۔ ان مناظر کو روکنا ہو گا ۔برائی اور ظلم کو اگر طاقت سے نہ روکا جا سکے تو زبانی اور دل مےں ہی اس کی مذمت کرنی چاہےے جو اےمان کی کمزور ترےن شرط ہے اگر ہم ےہ بھی نہےں کر سکتے کہ اخلاقی طور پر آواز اٹھائےں اور ظالم کا ہاتھ روکےں تو پھر ہم سب مل کر اپنی بے بسی پر آنسو بہائےں اور سرخرو ہوجائےں کہ جو کچھ ہمارے اختےار مےں ہے ۔ہے کوئی اےسا مسےحا جو خلق انسانےت کو ان آنسوﺅں سے نجات دلائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے