گزشتہ سے پیوستہ
فاروق نام کے کوئی صاحب ملنے آئے ہیں، میں ان دنوں کسی سے بھی نہیں ملتا تھا، بلکہ یوں کہنا بہتر رہے گا کہ میرے منع کرنے کی وجہ سے کوئی دوست بھی ملنے کے لیے نہیں آتا تھا۔ایسے میں طارق فاروق کا ملنے کے لیے آنا کچھ حیرت انگیز سا تھا۔میں کام چھوڑ کر اس سے ملا ، حال احوال کا تبادلہ ہوا ۔کہنے لگا کہ میں شام کو ایک اخبار میں کام کرتا ہوں، یہاں سے گزر رہا تھا بلا ارادہ قدم آپ کے گھر کی طرف لے آئیے، ذہن میں آیا کہ کئی دنوں سے آپ یونیورسٹی میں بھی نظر نہیں آ رہے،خیر ہو۔ویسے خیریت تو ہے آپ کے شعبے والے بتا رہے تھے کہ آپ نے چھٹی لے رکھی ہے۔میں نے طارق کو سارا منظر اور مصروفیت بتائی اور کہا کہ وہ مجھے خود ملنے کے لیے نہیں آیا ، اسے بھیجا گیا ہے۔ہنس کر کہنے لگا کہ حکم کریں سر۔میں نے اسے بتایا ہمارے پاس مقالہ کمپوز کرانے کے لیے علحدہ سے وقت دستیاب نہیں ہے۔سمجھ نہیں پا رہا کہ اس مسلے کو کیسے حل کریں۔طارق نے چوکس ہو کر کہا سر جی یہ تو کوئی مسلہ ہی نہیں،مقالہ کمپوز میں کروں گا۔لائیے مسودہ میرے حوالے کریں ، سارے کام چھوڑ کر میں یہ کام کروں گا۔ان دنوں وہ شام اور رات کے وقت کسی اخبار میں بھی جزوقتی ملازمت کرتا تھا۔کہنے لگا کہ میں وہ ملازمت بھی چھوڑ دوں گا۔بس آپ مقالہ میرے حوالے کریں۔میں دن رات لگا کر آپ کے اندازے سے پہلے کمپوز کر دوں گا۔اب میں نے طارق کو بتایا کہ اسے ایک ایسا مقالہ بروقت کمپوز کرنا ہے ،جو روزانہ کی بنیاد پر زیر تحریر ہے۔ وہ کچھ لمحے مجھے غور سے دیکھتا رہا ،شاید اندازہ لگا رہا تھا کہ میں کہیں مذاق تو نہیں کر رہا۔جب اسے مقالے کے دو ابواب حوالے کرنے کے بعد بتایا گیا کہ باقی کے ابواب کے اجزا روزانہ کی بنیاد پر ملا کریں گے۔پھر طارق نے جو "سسٹم” تیار کیا ،جس کے مطابق میں ہر روز دوپہر کے وقت اسٹیشنری کے دکان پر مقالے کے محررہ صفحات ایک لفافے میں بند کر کے چھوڑ آیا کرتا تھا، جہاں سے طارق یونیورسٹی سے واپسی پر وہ لفافہ اٹھا لیا کرتا اور گزشتہ روز کا کمپوز کیا گیا کام لفافے میں بند کر کے وہاں چھوڑ جاتا۔یہ سسٹم چل پڑا ۔میں مقالہ لکھتا رہا، طارق کمپوز کرتا رہا، میری اہلیہ پروف ریڈنگ کا کام سنبھال چکی تھیں۔ اس طرح جیسے ہی میں نے مقالہ مکمل کیا ، اگلے دو روز میں کمپوز شدہ مقالہ مکمل صورت میں میرے سامنے موجود تھا، طارق نے مقالے کی فوٹو اسٹیٹ کاپیوں اور جلد بندی کا بندوبست بھی کر رکھا تھا ، اور یہ سارے کام نہایت معقول معاوضے پر کرنا اور کروا لینا صرف طارق فاروق ہی کا کام تھا ۔میں کبھی پوچھ لیتا کہ یار تم اتنی رعایتی قیمت پر کام کیسے کروا لیتے ہو؟ تو جواب میں اس کا مشہور و معروف جملہ سننے کو ملتا کہ سر جی ! تسی تے بادشاہ بندے او، تے میری واقفی (جان پہچان، واقفیت)بہت اے۔ سچ ہے کہ؛ یہ زحمت اگر مجھے کرنی پڑتی تو وقت اور رقم کہیں زیادہ خرچ ہو جاتی۔مقالہ بروقت جمع ہوا۔
میں چھٹی مکمل کر کے یونیورسٹی جانے لگا۔ایک روز میں نے طارق کو بلایا، اس کے حیرت انگیز تعاون ،توجہ اور محبت کا شکریہ ادا کیا ۔میری باتیں سنتا رہا ،مسکراتا رہا،پھر کہنے لگا کہ سر جی اگر برا نہ مانیں تو ایک بات کروں؟ ہاں ہاں بولو ۔ہنس کر کہنے لگا کہ سر جی آپ جب بھی زور لگا کر کوئی سنجیدہ بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو میرا ہاسا نکل جاتا ہے۔میں نے آپ کا کوئی کام نہیں کیا ، مجھ سے آپ کے مقالے کا کام کروایا گیا ہے۔یقین مانیں خود مجھے سمجھ نہیں آئی کہ اتنے کم وقت میں یہ سارا کام بغیر کسی رکاوٹ کے کیسے مکمل ہو گیا۔اس پر میں نے طارق سے کہا کہ یار آپ دوست نہیں ، فرشتہ ہو۔نہ کرو سر جی ، نہ کرو۔ پھر کہنے لگا کہ سرجی میں نے آپ کی اجازت کے بغیر مقالے میں سے کچھ ” بایں ہمہ” نکال دیئے تھے۔امید اور یقین ہے کہ آپ کو برا نہیں لگا ہو گا۔ایک قہقہہ میرے جواب کے طور پر گونجا ۔واقعتا ان دنوں بایں ہمہ کا استعمال میری تحریر میں بہت زیادہ ہو گیا تھا۔ ہمارے رابطوں میں وقفے طویل ہوتے گئے۔پھر پتہ چلا کہ طارق فاروق ریٹائر ہو گیا ہے۔طارق فاروق کے حوالے سے کیسے کیسے واقعات اور ظرائف یاد آ رہے ہیں۔ کئی بار اس کا خیال آتا تو میں اسے فون کرتا ، فون ہمیشہ بند ملتا ۔کچھ مشترکہ واقف کاروں سے بھی پوچھا ، سبھی لاعلم تھے۔کبھی دل میں اک خوف سا بھی پیدا ہو جاتا کہ۔اللہ کرے خیر سے ہو۔گزشتہ ماہ اچانک طارق فاروق کا فون آیا ، ہیلو السلام علیکم سر جی میں طارق فاروق ۔میں نے خوشی سے جواب دیا کہ وعلیکم السلام جناب یہ نمبر آج بھی آپ کے نام سے محفوظ ہے۔ پھر حال احوال ، ڈھیروں باتیں۔ پوچھا کہاں ہو؟ ملتے ہیں .کہنے لگا کہ ابھی تو میں اپنی بیٹی سے ملنے سیکٹر آئی نائن میں آیا ہوا ہوں۔لیکن میں رہتا کیرج فیکٹری کے پاس ہوں۔میں نے اسے بتایا کہ ملاقات کا منظر تیار کرو یار۔اس کے بعد ایک بار اور بات ہوئی ،میں نے طارق کو بتایا کہ میں گھر شفٹ کرنے کی تیاریوں میں ہوں ۔اس کے بعد ملاقات کرتے ہیں اور بہت سارے کام بھی کریں گے۔جو حکم سر جی میں حاضر۔ پوچھا صحت کیسی ہے ؟ بالکل ٹھیک ہوں۔پھر میں شفٹنگ میں مصروف ہو گیا ۔یہ کافی تھکا دینے والا کام تھا ۔یہ مکمل ہوا تو طارق فاروق سے ملاقات کا سوچا،فون کرنے شروع کئے،لیکن فون بند ملتا تھا۔چونکہ پہلے بھی ایسا ہوتا رہتا تھا اس لیے فون بند ہونے سے تشویش نہیں ہوئی ۔اسی طرح چند روز کے وقفے سے فون کرتا رہا ،لیکن فون بند ملتا۔جب مسلسل فون کرنے پر فون ایٹنڈ نہیں ہو رہا تھا ،تو میں نے ان کے داماد ساجد جنجوعہ کو فون کیا اور کہا کہ مجھے طارق فاروق صاحب کا فون نمبر دیں،جو نمبر میرے پاس ہے وہ بند جا رہا ہے۔ساجد جنجوعہ نے کہا کہ نمبر تو وہی ہے سر ، پر نمبر والا نہیں رہا۔کیا مطلب ؟ کیا ہوا؟ سر طارق فاروق صاب فوت ہو گئے ہیں۔روڈ ایکسیڈنٹ ، سر میں چوٹ، کوما اور وفات۔اس سے آگے پوچھنے ، سننے ، بولنے اور سوال کرنے کی سکت باقی نہ رہی تھی۔اس حادثے نے ایک ایسے دوست کو جدا کر دیا کہ، جو سراپا خیر تھا، ہمدرد تھا، فرشتہ تھا، زندگی کو ہمہ وقت گدگدی کرنا جس کا شعار تھا اور؛ جس کا فون نمبر میرے پاس محفوظ ہے۔
(ختم شد)
کالم
جس کا فون نمبر میرے پاس محفوظ ہے
- by web desk
- نومبر 1, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 162 Views
- 6 مہینے ago