کالم

جنوبی بھارت تنازع کشمیر کے حل میں معاون ثابت ہوسکتا ہے؟

سبھی جانتے ہےں کہ بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں یعنی لوک سبھاکی 102سیٹوں پر ووٹنگ ہو چکی ہے اور باقی 6مراحل پر ابھی ووٹنگ باقی ہے اور نتائج 4جون کو آئیں گے۔اسی حوالے سے مبصرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ وطن عزیز کے میڈیا اور تحقیقی اداروں میں عام تاثر یہ ہے کہ بھارتی سیاست شاید BJP اور کانگرس کا ہی دوسرا نام ہے، اس وجہ سے بالعموم ہماری تمام تر تحقیقی کاوشوں کا محور انہی دو جماعتوں تک محدود رہتا ہے ، جبکہ اس تاثر کو جزوی طور پر ہی درست قرار دیا جا سکتا ہے، وگرنہ حقیقت تو یہ ہے کہ محض 25 سے 30 فیصد بھارتی ایسے ہیں جو کانگرس (Soft Hindutva ) کی جانب مائل ہیں اور تقریباً 30 سے 35 فیصد ایسے بھارتی ووٹرز ہیں جو پوری طرح سے RSS اور BJP کے حامی ( Hard liners ) ہیں اور وہ اس معاملے میں ”اندھی عقیدت “ یا ” اندھی نفرت“ رکھتے ہیں۔ باقی ماندہ 35 سے 40 فیصد بھارتی ایسے ہیں جن میں ”بھاری اکثریت“ کا تعلق جنوبی ، مشرقی اور شمال مشرقی انڈیا یعنی تامل ناڈو، کیرالہ، آندھرا پردیش، تلنگانہ، کرناٹک، پانڈی چری ، آسام اور مغربی بنگال سے ہے اور یہاں کے رہائشیوں کی جذباتی وابستگی ان دو جماعتوں کے ساتھ برائے نام سی ہے۔ اسی وجہ سے وہ مسئلہ کشمیر کی اصل نوعیت سے بھی بڑی حد تک لا علم ہیں، ان کے نزدیک پاکستانی موقف یہ ہے کہ وہ ہر حالت میں بھارتی غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر پر قبضہ کرنے کا خواہاں ہے، انھیں اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرار دادوں کی ہیئت یا نوعیت کی بابت کچھ زیادہ جانکاری نہیں، لہذا اگر پاکستان مربوط اور سنجیدہ حکمت عملی مرتب کرے تو ان نسبتاً غیر جانبدار حلقوں میں ایسی لابی پیدا کی جا سکتی ہے جہاں سے مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کی راہ ہموار ہو سکے۔ راقم کی رائے میں ہم اس ضمن میں جتنی کوشش امریکہ ،یورپ و دیگر بیرونی دنیا کو اپنا ہمنوا بنانے میں صرف کرتے ہیں، اس کا 50 فیصد بھی اگر اس تناظر میں صرف کریں تو ممکنہ طور پر ایسے مثبت نتائج حاصل کر سکتے ہیں جن کی بنیاد پر پاکستان اور تنازعہ کشمیر کے منصفانہ حل کے حوالے سے قدرے نرم گوشہ پیدا ہو سکے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس وقت 18 بھارتی صوبوں ارونا چل پردیش ، آسام ، گوا ، بہار، گجرات ، ہریانہ ، مدھیہ پردیش، منی پور، میگھالیہ، میزورام، ناگالینڈ، تری پورہ، اترپردیش اور اترکھنڈ، چھتیس گڑھ،مہاراشٹر میں اور راجستھان میں BJP خودمختار یا مخلوط اعتبار سے اقتدار میں ہے۔ اسی طرح، جھارکھنڈ ، تلنگانہ، کرناٹک اور ہماچل پردیش میں کانگرس اوردہلی اور پنجاب میں عام آدمی پارٹی برسراقتدار ہے۔ باقی ماندہ بھارتی صوبوں میں علاقائی جماعتیں برسر اقتدار ہیں۔ آندھرا پردیش میں وائے ایس آر سی پارٹی ، دہلی میں عام آدمی پارٹی ، کیرالہ میں CPIM، اڑیسہ میں بیجو جنتا دل، سکم میں سکم ڈیموکریٹک فرنٹ، تامل ناڈو میں AIADMK جبکہ مغربی بنگال میں ترنمول کانگرس کی حکومت قائم ہے۔ دوسرے کئی صوبے جہاں کانگرس یا بی جے پی مخلوط طور پر سرکار کا حصہ ہے، علاقائی جماعتیں نشستوں کی بھاری تعداد رکھتی ہےں۔ یاد رہے کہ بھارتی لوک سبھا کی کل نشستوں کی تعداد 543 ہے جن میں سے 131 نشستیں شیڈول کاسٹ ( 84 ) اور شیڈول ٹرائبس (47 ) کے لئے مختص ہیں۔ ایسے میں پاک بھارت تعلقات کے ضمن میں مسئلہ کشمیر کی اصل نوعیت کو مذکورہ بالا بھارتی علاقائی جماعتوں پر اجاگر کیا جا سکے تو شاید اس خطے کی مجموعی صورتحال میں بھی دیر پا امن اور ترقی و تعاون علاقائی بنیادوں پر استوار ہو پائے اور پورے خطے کی صورتحال کو یکسر تبدیل کر سکے۔ اس بابت جائزہ لیتے یہ یہ بات پوری طرح مد نظر رکھی جانی چاہیے کہ پاک بھارت تعلقات کا مشاہدہ کرتے ہوئے ”علم جغرافیہ“ ملحوظِ خاطر رکھا جانا اشد ضروری ہے کیونکہ جغرافیائی حقائق بعض حوالوں سے تاریخ سے بھی زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ تبھی تو بسا اوقات ”سٹیریو ٹائپ“ قسم کے تجزیے دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں اور بعض اوقات تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اپنی تحریروں اور تقریروں میں جتنا ذکر بھارت کا بغیر کسی جانکاری کے کرتے ہیں، اگر اس ضمن میں کچھ تحقیق بھی کر لی جائے تو منظرنامہ واضح ہو سکے۔ یہ تو غالباً جملہ معترضہ تھا لیکن بھارت کے حوالے سے تحقیقی سطح پر کام کرنے والے ماہرین کی ایک بھاری اکثریت بھارت کے تمام صوبوں کے نام تک سے آگاہی نہیں رکھتی تبھی ہماری تحقیقی کاوشیں خاطر خواہ ڈھنگ سے نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتیں۔مثلاً سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کا یہ قول تو اکثر دہرایا جاتا ہے کہ ”دوست بدلے جا سکتے ہیں مگر ہمسائے نہیں “۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ تاریخ بدلی سکتی ہے اور نہ ہی جغرافیہ۔ میڈیا کے محاذ پر بھی ہم غالباً اسی مخمصے کا شکار ہیں کیونکہ مختصر الفاظ میں اگر اس ساری صورتحال کا جائزہ لیں تو کہا جا سکتا ہے کہ بھارتی جغرافیے سے بڑی حد تک لا علمی (بھلے ہی وہ نادانستگی میں ہو ) اس تمام تر صورتحال کی ذمہ دار ہے۔ بہرحال یہ امر شاید کسی حد تک اطمینان بخش ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اورسپہ سالار کی دلچسپی سے جس طریقے سے مسئلہ کشمیر کو ابھارنے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں وہ باعث طمانیت ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کا نیا نقشہ بھی جاری کرنا اس حوالے سے ایک احسن اقدام تھا۔ ان کاوشوں کی بدولت ہی کچھ عرصہ قبل امریکی ادارے فریڈم ہاﺅس نے بھی زیر قبضہ کشمیر کا اعتراف ” مقبوضہ“ علاقے کے بعد پر کیا تھا۔ یہ بات بھی انتہائی اہم ہے کہ21اپریل کومودی نے بھارتی صوبے راجھستان ”بانس واڑہ “میںزہر افشانی کی کہ منموہن سنگھ نے 2006 میں کلکتلہ میں کہا تھا کہ بھارتی مسلمان سب سے مظلوم گروہ ہے لہذا ان کے مسائل پر خاص توجہ کی ضرورت ہے ۔غیر جانبدار مبصرین نے اسی پس منظر میں کہا ہے کہ اس پیرائے میں ضرروی ہے کہ جنوبی بھارت پر خصوصی دیتے ہوئے جنوبی بھارت کے اندر ایک ایسی لابی پیداکی جائے جس کی معاونت سے تنازعہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرارداوں کے مطابق حل کیا جا سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri