اداریہ کالم

حکومت سازی کا منظر نامہ واضح ہونے لگا

وفاق اور صوبوں میں حکومت سازی کے لئے جوڑ توڑ کسی حد تک آخری مراحل میں داخل ہو گئی ہے،مرکز میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے مخلوط حکومت بنانے کا عندیہ دیا ہے، جسکی کمان اب نوازشریف کی بجائے شہباز شریف کے ہاتھ میں ہو گی۔ جبکہ آصف زرداری صدر اور مریم نواز صوبہ پنجاب کی وزیر اعلیٰ ہو سکتی ہیں۔یوںپاکستان میں عام انتخابات کے بعد غیر یقینی سیاسی صورتحال کے بادل بھی چھٹتے نظر آ رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اس اتحاد میں پی ٹی آئی کے علاوہ ایم کیو ایم اور ق لیگ کے ساتھ بعض دیگر جماعتیں بھی شامل ہیں۔ پارلیمنٹ میں کل 265نشستیں ہیں، جس میں سے مسلم لیگ(ن) کے پاس 75اور پیپلز پارٹی کے پاس 54نشستیں ہیں۔ دیگر جماعتوں کے بعض اراکین کےساتھ مل کر یہ مجوزہ مخلوط حکومت کوسادہ اکثریت مل جائے گی۔ انتخابات سے قبل پی ڈی ایم اتحاد جو حکومت کر رہا تھا،اب ایک بار پھر ساتھ مل کر حکومت بنانے جا رہا ہے۔ اسلام آباد میں مشترکہ پریس کانفرنس چودھری شجاعت حسین کے گھر پر ہوئی، جس میں حکومت سازی کے حوالے سے اہم اعلانات کیے گئے۔ پریس کانفرنس کے بعد مریم نواز کی طرف سے بیان سامنے آیا کہ نواز شریف نے پاکستان کے عوام اور سیاسی تعاون فراہم کرنے والی تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے اس پختہ یقین کا اظہار کیا ہے کہ ان فیصلوں کے نتیجے میں پاکستان معاشی خطرات، عوام مہنگائی سے نجات پائے گا۔دوسری طرف آصف علی زرداری نے اس موقع پر کہا کہ ہم پاکستان کو مشکل وقت سے نکالیں گے۔انہوں نے کہا کہ ان کے ساتھ جمع ہونے والے سیاسی رہنماو¿ں نے مل کر حکومت بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی شہباز شریف حکومت کی حمایت کرے گی اور فی الوقت اس مخلوط حکومت کی کابینہ کا حصہ نہیں ہو گی۔اسی طرح مولانا فضل الرحمن بھی حکومت کا حصہ بننے سے گریزاں ہیں۔ آصف زرداری نے پریس کانفرنس میں پی ٹی آئی کو بھی اس سیاسی مفاہمت کا حصہ بننے کی دعوت دی اور کہا،ایسا نہیں ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی مفاہمت میں نہ آئے۔ اسے اور ہر سیاسی قوت کو آ کر ہم سے بات کرنی چاہیے۔ ہمارا اقتصادی اور دفاعی ایجنڈا مشترکہ ہونا چاہیے، تاکہ ہم پاکستان کو کامیاب کر سکیں۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ جو پارٹیاں پریس کانفرنس میں موجود ہیں وہ پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کی نمائندگی کرتی ہیں۔انہوں نے یہ بھی عندیادیا کہ آصف زرداری پاکستان کے اگلے صدر ہو سکتے ہیں۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ وہ عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کو بھی اپنی حکومت میں شامل کرنے کی تمنا رکھتے ہیں۔البتہ عمران خان نے اس امکان کو مسترد کررکھا ہے۔ تجزیہ کار اس بارے میں مطمئن نہیں ہیں کہ اگلی حکومت کچھ کر پائے گی۔ماہرین اور تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ اتحادی معاہدہ پھر وہی ڈھاک کے تین پات والی بات ہے، کیونکہ کمزور مخلوط حکومت کو ایک مضبوط اور حالات کی ستائی ہوئے اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ویسے بھی عمران خان کی بطور وزیر اعظم برطرفی کے بعد سے اس کےساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں شکایات نے پاکستانی عوام کے غصے کو ابھار رکھا ہے۔ یہ وہ صورتحال ہے جو نئی حکومت کو درپیش ہو گی۔ادھر الیکشن کمیشن نے حتمی نوٹیفیکشن جاری کرنا شروع کر رکھے ہیں،آئین کے آرٹیکل 41 کے تحت وزیراعظم کی ایڈوائس پرصدرِ مملکت کو 21 روز کے اندر قومی اسمبلی کااجلاس طلب کرنا ہو گا۔ممکنہ طور پر 29فروری کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جا سکتا ہے اسی دن نومنتخب ارکانِ قومی اسمبلی سے سپیکر راجہ پرویز اشرف حلف لیں گے جس کے بعد نئے سپیکر و ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کا شیڈول جاری کیا جائے گا۔
عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی ۔۔اسرائیلی حملے جاری
اسرائیلی فوج نے غزہ میں خونریز کارروائیاں مسلسل جاری رکھی ہوئی ہیں۔ گزشتہ روز اِن حملوں میں مزید 137فلسطینیوں کو شہید کردیا گیا۔ اسرائیلی فوج نے رفاہ اور خان یونس میں فضائی حملے کیے، خان یونس میں ہسپتال کے احاطے میں شہریوں پر براہ راست گولیاں برسادی گئیں ۔غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے باعث 7 اکتوبر کے بعد سے اب تک اٹھائیس ہزار چارسوتہترفلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ فلسطینیوں کی نسل کشی اسرائیلی ریاست کا وطیرہ بن چکی ہے۔مسلم ممالک کے حکمران اس صورتحال میں خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور انھی کی طرح اقوام متحدہ بھی اس سلسلے میں بیانات جاری کرنے کے سوا اور کچھ نہیں کررہا ہے۔ مطالبات تو دنیا بھر سے ہورہے ہیں لیکن غاصب صہیونی ریاست ان پر کوئی توجہ نہیں دے رہی اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکا اور برطانیہ سمیت کئی مغربی طاقتیں اس کے پیچھے کھڑی ہیں اور اسے صرف حوصلہ ہی نہیں بلکہ اسلحہ اور گولہ بارود بھی مہیا کررہی ہیں جس کی وجہ سے حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین تر ہوتے جارہے ہیں۔سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قراردادوں کو امریکا ویٹو کردیتا ہے۔ آج کے جدید دور میں بھی تمام مسلم ممالک کے علاوہ چین اور روس جیسے طاقتور ممالک بھی اسرائیل کا راستہ نہیں روک پا رہے، اسے مستقل جنگ بندی پر آمادہ نہیں کر پا رہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بھی بے بس معلوم ہوتی ہے۔ایک حقیقت اسرائیلی درندگی ہے تو دوسری حقیقت یہ بھی ہے کہ اسرائیل کےلئے نفرت اور فلسطینیوں کےلئے ہمدردی و محبت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جو ممالک اسرائیل اور امریکا سے خوفزدہ ہیں ان کو آزاد ملک ہونے کا نعرہ لگانے کا کوئی حق نہیں ہے، فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کے دوران مغربی میڈیا کا دہرا اور منفی کردار دیکھنے میں آیا ہے۔ دنیا بھر میں مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں مگر عالمی ضمیر گہری نیند سویا ہوا ہے۔اس وقت پوری دنےا مےں ےہودےوں کی تعداد دو کروڑ سے زےادہ نہےں جبکہ مسلمان امہ اربوں مےں ہے افسوس ہے کہ عالم اسلام جو نہ صرف خاموشی اختےار کئے ہوئے ہے بلکہ آپس کی لڑائےوں اور اےک دوسرے کی ٹانگ کھےنچنے مےں اسے فرصت ہی نہےں ۔فلسطےنےوں کو اپنے ہی علاقوں مےں جانوروں سے بھی بد تر زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دےا گےا ہے اگر وہ اپنی بے بسی پر آواز بلند کرتے ہےں تو اسے بغاوت قرار دےا جاتا ہے ۔ اسرائےل کی فوجی کاروائےوں کو روکنے کےلئے کسی عالمی طاقت ےا اقوام متحدہ کا پرےشر موجود نہےں اس لئے وہ فلسطےن کے خلاف ہر طرح کی من مانی کر رہا ہے ۔دراصل اسرائےل کا مقصد اےسی منصوبہ بندی کرنا ہے جس سے اےک آزاد اور خود مختار فلسطےنی رےاست کا قےام نا قابل عمل ثابت ہو ۔وہ فلسطےن کی آزادی اور خود مختاری سے خائف ہے اور اسے اےک نےم خود مختار اور ناتواں ملک دےکھنے کا متمنی ہے جو ہمےشہ اسرائےل کے زےر ساےہ رہے کےونکہ اےک مضبوط اور خود مختار فلسطےن اسرائےلی توسےع پسندی کا راستہ روک سکتا ہے ۔اسرائےل کا جواز اور منطق ےہ ہے کہ وہ اپنی سلامتی کا تحفظ کر رہا ہے ۔فلسطےن مےں جو خون بہہ رہا ہے اسے روکنا پوری عالمی برادری کی ذمہ داری ہے ۔حقےقت ےہی ہے کہ دنےا مےں سب سے بڑی فوجی طاقت کہلوانے والا امرےکہ فلسطےن کے معاملے مےں بالخصوص اپنی اخلاقی ذمہ دارےوں سے کے احساس سے قطعی عاری ہے ، لہٰذا اب دنےا کے تمام ملکوں ،جو حالات کا درست ادراک رکھتے ہےں ےہ فرض ہے کہ وہ سپر پاور کو اس کی ذمہ دارےوں کو موثر احساس دلائےں تا کہ فلسطےن کے عوام کو اسرائےل سے بچانے کے فوری اور ٹھوس اقدامات عمل مےں کائے ورنہ مشرق وسطیٰ کے امن کو اسرائےل کے ہاتھوں تباہ ہونے کے خطرات سے نمٹنا مشکل ہو جائیگا۔ مسلم ممالک جب تک ان طاغوتی طاقتوں کے خلاف متحد ہو کر اور دو ٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے کوئی اقدام نہیں کرتے تب تک یہ مسئلہ حل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے