عصر حاضر میں ہر کوئی خوشیوں کا متلاشی ہے مگر ہر شخص خوشیوں سے بعید نظر آتا ہے۔کیا آپ نے اس پر غور کیا ہے، ایسا کیوں ہے؟کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ کا خادم مطمئن زندگی بسر کررہا تھا، وہ ہر حال میں خوش رہنے کا ڈھنگ جانتا تھا۔ ایک دن بادشاہ نے اپنے وزیر سے خادم کی مطمئن زیست کے بارے میں بتایا ۔ وزیر نے کہا کہ اس پر ایک تجربہ کرتے ہیں، انھوں نے ایک پوٹلی میں99 سونے کے سکے ڈال دیے لیکن اس پر100 لکھ دیا اور اس پوٹلی کو خادم کے دروازے کے ساتھ رکھ دیا ۔ خادم کسی کام کے سلسلے میں گھر سے باہر نکل رہا تھا تو اُس کی نظر اس پوٹلی پر پڑی، دیکھاتو اس میں سونے کے سکے تھے، وہ واپس گھر چلا گیا، سونے کے سکوں کی گنتی کرنے لگا تو ایک سکہ کم تھا، اس نے دوبارہ اس کی گنتی کی مگر پھر بھی ایک سکہ کم تھا اور تیسری بار اس نے پھر سکوں کی گنتی کی مگر ایک سکہ کم تھا۔وہ گھر سے باہر نکلا، دروازے کے ساتھ تلاش کرنے لگا، مٹی کو اِدھر اُدھر کرنے لگا، وہ رات بھر سکے کو ڈھونڈتا رہا،رات بیت گئی، خادم صبح ڈیوٹی پر گیا تو اس کے چہرے پر پریشانی عیاں تھی، آنکھوں میں نیند تھی، وہ اُداس اور غمگین تھا۔بادشاہ اُس سے پانی مانگتا ہے تو یہ اُس کو چائے دیتا ہے، جب بادشاہ اُس سے چائے مانگتا ہے تو وہ پانی دیتا ہے، اسی طرح دن بھر وہ الٹ کام کرتا رہا۔ شام کو چھٹی ملی توگھر پہنچا تو پھر وہی کام شروع کردیا،اسی طرح رات بھر ایک سکے کو تلاش کرتا رہا مگر سکہ نہیں ملا، وہ شخص جس کے لبوں پر مسکراہٹ ہوتی تھی اور جس کے چہرہ پرخوشی اور شادمانی ہوتی تھی،آج وہی الم کی وادیوں میں تھا۔وہ یوں بھی تو کرسکتا تھا کہ 99 سکوں پر اللہ رب العزت کا شکر ادا کرکے خوش ہوجاتا ، اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ انجوائے کرتا مگر وہ 99پر خوشیاں منانے اور شکرادا کرنے کی بجائے ایک کم ہونے پر نالاں اور پریشان رہا،ایک سکہ کم ہونے پر اپناسب کچھ برباد کردیا ۔یقین نہ آئے تو عصر حاضر میں ہر شخص اس خادم کی طرح ہے جو 99 ہونے کی باوجود ایک کم ہونے کی وجہ سے اُداس اور پریشان ہے، اپنے آپ کو غم و الم میں مبتلا رکھا ہے ، جس کے ہاتھ پاﺅں ٹھیک ہیں، وہ موٹر سائیکل کی کمی کے باعث پریشان ہے، جس کے پاس موٹر سائیکل ہے، وہ کار کی حصول کےلئے اُداس ہے ، جس کے پاس کار ہے وہ اس سے قیمتی گاڑی کےلئے سرگرداں ہے، جس کے پاس قیمتی گاڑی ہے، وہ گاڑیوں کےلئے غم میں مبتلا ہے۔جس کا محلے میں گھر ہے، وہ ہاﺅسنگ سوسائٹی میں گھر کےلئے پریشان ہے،جس کا ہاﺅسنگ سوسائٹی میں گھر ہے، وہ اس سے بہتر ہاﺅسنگ سوسائٹی ڈی ایچ اے میں گھر کےلئے اُداس ہے۔اسی طرح جس کا پانچ مرلے کا گھر ہے، وہ دس مرلے کے گھر کےلئے پریشان ہے ، جس کا دس مرلے کا گھر ہے،وہ ایک کنال کے گھر کےلئے غمگین ہے،جس کی ایک فیکٹری ہے ،وہ دو فیکٹریوں کےلئے سرگرداں ہے، جس کا ایک مربع زمین ہے، وہ دو مربع زمین کےلئے پریشان ہے ،اسی طرح باقی معاملات میںایسا ہی ہے، ہرشخص اُداس اور پریشان ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک شخص طویل سفر پر گامزن تھا مگر اس کے جوتے نہیں تھے،وہ دوران سفر اپنے رب سے گلہ و شکوہ کررہاتھا، میرے جوتے نہیں ہیں ، جب وہ شخص شہر پہنچا تو اُس نے ایسے شخص کو دیکھا جس کے دونوں پاﺅں بھی نہیں تھے ۔ جب اُس نے یہ عالم دیکھا تو وہ پشیمان ہوا اوراللہ رب العزت سے استغار کرنے لگا ۔ اُس نے کہا کہ میرے جوتے نہیں ہیں تو الحمد اللہ پاﺅں تو سلامت ہیں۔ اگر اسی طرح ہم کالم کے بالائی حصے پر غور کریں، موٹر سائیکل والا اپنے رب کا شکرادا کرے کہ اگر کار نہیں ہے تو موٹر سائیکل تو ہے، پیدل چلنے والا شکر ادا کرے کہ موٹرسائیکل نہیں توپاﺅں تو ہیں۔اسی طرح جس کا گھر ہے ، وہ شکر ادا کرے کہ میرا گھر تو ہے، دنیا میں کروڑوں افراد کے پاس اپنا گھر نہیں ہے، وہ کرائے کے مکانات اور فلیٹوں میں رہنے پر مجبور ہیں اور لاکھوں افراد تو ایسے ہیں جو رات کو سڑکوں پر سوتے ہیں ۔ جس کی ایک دکان ، فیکٹری یا بزنس وغیرہ ہے تو وہ اپنے رب کا شکرادا کرے کہ اُن کی دکان، فیکٹری یا بزنس وغیرہ ہے، دنیا میں کروڑوں افراد ڈگریاں لیے دربدر پھر رہے ہیں مگر اُن کو ملازمت نہیں ملتی، پیسے نہیں ہیں کہ چھوٹا موٹا بزنس کر سکیں ۔ ایسے لاکھوں افراد ہیں جو 24 گھنٹوں میں صرف ایک بار معمولی کھانا کھاتے ہیں،ایسے لاکھوں افراد ہیں کہ جو خیراتی اداروں کے لنگروں سے ایک ٹائم کھانا کھاتے ہیں ، لاکھوں افراد ہیں جو موذی امراض میں مبتلا ہیں، وہ واش روم تک خود چل نہیں سکتے ہیں، اُن کو سہارے کی ضرورت پڑتی ہے ۔ لاکھوں افراد ہیں جو سُن نہیں سکتے ہیں، لاکھوں افرادبول نہیں سکتے ہیں، لاکھوں افراد دیکھ نہیں سکتے ہیں۔آپ چل سکتے ہیں، سُن سکتے ہیں، بول سکتے ہیں، دیکھ سکتے ہیں تو اللہ پاک کاشکرادا کریں، آپ کا چھوٹا موٹا مکان ہے تو اللہ پاک کا شکرادا کریں، آپ کے پاس بائےک یا کار وغیرہ ہے تو اللہ تعالیٰ کاشکرادا کریں، اگر بائیک یا کار نہیں ہے مگر آپ کے پاﺅں ہیں او ر پیدل چل سکتے ہیں تو اللہ پاک کا شکر ادا کریں،آپ کی دکان، فیکٹری یا کوئی اور بزنس ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کاشکر ادا کریں، آپ ملازمت کرتے ہیں تو اللہ کا شکر ادا کریں، جو نعمتیں آپ کے پاس ہیں، لاکھوں اور کروڑوں افراد اُن نعمتوں سے محروم ہیں ، آپ اِس پر فخر یا تکبر نہ کریں بلکہ اللہ رب العزت کا شکر ادا کریں ۔ آج آپ کے پاس جو نعمتیںموجود ہیں ، ماضی میں بادشاہ بھی انہی نعمتوں سے محروم تھے۔آپ کے پاس جو نعمتیں موجود ہیں، آج سے ساٹھ ستر سال پہلے لوگوں کے پاس یہ نعمتیں موجود نہیں تھیں ،مگر وہ لوگ خوش اور مطمئن تھے۔آپ چل سکتے ہیں، سن سکتے ہیں، بول سکتے ہیں، دیکھ سکتے ہیں، اگر پھر بھی آپ خوش نہیں ہیں تو آپ ناشکر گزار ہیں،ناشکر گزاروں کو اللہ پاک سزا دیتے ہیں ۔ کیا یہ سزا کم ہے کہ تمام نعمتیں موجود ہونے کے باوجود خوش نہیں ہیں ۔ خوش رہنے کا فارمولہ یہ ہے کہ اپنے رب کا شکر ادا کریں، مطمئن رہیں، انسانیت کا احترام کریں، ہونٹوں پر تبسم لائیں اورخوش رہیں۔