کالم

روم جل رہا تھا اور نےرو بانسری بجا رہا تھا

”روم جل رہا تھا اور نےرو بانسری بجا رہا تھا“ ےہ محاورہ عرصہ دراز سے استعمال ہوتا ہے ۔ کالموں مےں موضوع سخن کے طور پر بھی برملا استعمال کر لےا جاتا ہے ،کبھی حکمرانوں تو کبھی سرکاری محکموں کی کج ادائےوں پر روم کو جلا کر نےرو سے بانسری بجوا دی جاتی ہے ۔آئےے ناظرےن نےرو کے حالات زندگی سے نقاب اٹھاتے ہےں ۔نےرو کو اپنے مشاغل کی بنا پر رسوا کرنے والی شہرت دوام ملی۔نےرو اقتدار کا رسےا تھا اور اس نے لگ بھگ 20,19سال سلطنت روم پر حکمرانی کی ۔نےرو شہنشاہ روم سےزر آکسٹس کا نواسہ تھا ۔وہ ابھی بچہ ہی تھا کہ اس کے ماموں شہنشاہ غےوث کالی گولا نے اسے اور اس کی ماں اےگری پےنا کو جلا وطن کر دےا ۔دونوں ماں بےٹے کو ٹےنی پونےتان کے جزےرے مےں بھجوا دےا گےا تھا جہاں اپنے شہر ،اپنے گھر ،اپنی گلی اور اپنے دوران پر پل پل گراں گزرا۔دو سال کی جلا وطنی کے بعد شہنشاہ روم نے اپنی بہن اور بھانجے کو واپس بلوا لےا مگر نےرو ماموں کو اےک آنکھ نہ بھاتا تھا۔ماں نے بھائی کے بگڑے تےور دےکھ کر اپنے بےٹے کو تعلےم حاصل کرنے کےلئے ےونان بھجوا دےا ۔ادھر اےگری پےنا بےٹے کو ےونان بھجو ا چکی تھی ،ادھر اس کے رشتے کے چچا کلاﺅ ڈےئس نے اس کے بھائی غےوث کالی گولا کے تخت کا تختہ نکال کر اسے موت کے حوالے کر دےا اور خود اقتدار پر قبضہ کر لےا ۔نےرو کی ماں نے موقع غنےمت جان کر نئے بادشاہ سے ڈےل کرتے ہوئے اسے شےشے مےں اتار کر اس سے شادی کر لی اور اپنے بےٹے کو ولی عہد نامزد کرا دےا۔بےٹے کی نامزدگی کے بعد ماں نے کھمبی (مشروم) کا سالن پکاےا ،اس لذےذ سالن مےں زہر ملا کر نئے شہنشاہ کو کھلا دےا ،شہنشاہ اگلے جہان سدھار گےا اور نےرو روم کا نےا شہنشاہ بن بےٹھا ۔اےگری پےنا نے شہنشاہ کا درجہ حاصل کرتے ہی بےٹے کے سر پر سہرا باندھنے کی حسرت پوری کی مگر جلد ہی اس کا بےٹا اپنی بےوی سے اکتا گےا اور وہ پوپائےا نامی نئی لڑکی کے عشق مےں مبتلا ہو گےا لےکن وہ جانتا تھا کہ وہ اپنی ماں کے ہوتے ہوئے شہنشاہ ہو کر بھی اپنی محبت نہےں پا سکتا لہذا اس نے من کی مراد پانے کےلئے ماں کو ابدی نےند سلا دےا اور راستہ ہموار ہونے پر اس نے اکتاوےا کو طلاق دی اور پوپائےا سے بےاہ رچا لےا ۔نےرو کلاسےکی رومن موسےقی کا دلدادہ تھا ،وہ بانسری بجانے کے ہنر مےں ےکتا تھا اور اےک منجھا ہوا پختہ کار بانسری نواز تھا ۔وہ بانسری پر اپنی دھنےں خود ہی بناتا تھا ۔وہ گےتوں کے بول بھی خود ہی لکھتا تھا ،وہ گاتا بھی خود تھا ۔وہ لوگوں کا بہت بڑا ہجوم جمع کرتا تھا پھر تالےوں کے شور مےں بے تابانہ انداز مےں ادھر ادھر دےکھتا تھا اور پھر اپنی ہی ترتےب دی ہوئی دھنوں پر بانسری بجا کر خود بھی وجد مےں آ جاتا تھا اور سامعےن کو بھی وجد مےں لے آتا تھا۔
نےرو اپنے پرائےوےٹ تھےٹر مےں بانسری بجا رہا تھا ۔نےرو کے عہد کے واقعات لکھنے والا مورخ طوسی طس رومی سےنٹ کا ممبر لکھتاہے کہ اس کے مہمان نےم دراز ہو کر عالم سرور مےں نےم وا آنکھوں سے نےرو کو بانسری بجاتا دےکھ رہے تھے اےسے مےں نےرو کا اےک منہ چڑھا ملازم فاﺅن دوڑتا ہوا آےا اور چےختے ہوئے بولا ” اے شہنشاہ روم، اے دےوتاﺅں کے دےوتا، اے عظےم نےرو مےں اپنی آنکھوں سے ےہ منظر دےکھتا ہوا آ رہا ہوں کہ روم جل رہا ہے “۔نےرو نے لمحہ بھر ٹھہر کر پوچھا کہ” کےا مےں اس دھن کو ےہےں پر ہی چھوڑ دوںاور اگر مےں اس دھن کو ےہاں پر ہی چھوڑ دوں تو کےا مےں جلتے ہوئے روم سے اٹھتے ہوئے شعلوں کا نظارہ کر سکوں گا“۔ اسے تو آگ کے شعلے کہےں نظر نہےں آ رہے۔فاﺅن نے چلا کر کہا ” عالم پناہ پورا شہر شعلوں کا سمندر بن چکا ہے ،دھوےں نے ماحول مےں گھٹن پھےلا دی ہے ۔دھوےں کے بادلوں مےں گھر کر لوگ دم گھٹنے سے مرتے جا رہے ہےں ۔روم کے باشندے جس طرف بھی منہ کرتے ہےں ،آگے آگ ہی آگ ہوتی ہے“۔آتشزدگی کے ساتھ ہی روم نے لوٹ مار کے دلدوز مناظر دےکھے ۔پہلی صدی عےسوی کی عالمی سپر پاور روم نے دنےا کے کونے کونے سے لوٹ مار کر کے جس قدر دھاتےں جمع کی تھےں سب پگھل رہی تھےں اور سب لٹتی جا رہی تھےں ۔دنےا بھر کے مختلف مقامات سے آئے ہوئے لوگ اہل روم کو جلتے اور کراہتے ہوئے دےکھ رہے تھے ۔ اب شہر مےں آگ پھےل رہی تھی ،جنگ پھےل رہی تھی اور شعلوں کی لپےٹ سے بچنے والوں کے قتل عام کی وبا پھےل رہی تھی ۔
مورخےن کہتے ہےں کہ عظےم آتشزدگی کے دوران قتل عام خود شہنشاہ نےرو کرا رہا تھا ۔شہر مےں قتل عام ہونے والے جتھوں کی کمان نےرو کے ہاتھ مےں تھی ۔شہنشاہ روم نے تگلی نس سے شکاےت بھرے لہجے مےں کہا ” مےں نے شعلے تو دےکھے نہےں ،مجھے آگ تو نظر نہےں آئی اور مجھے ےہ ماننے پر مجبور کےا جا رہا ہے کہ مےں شہر کو آتش زدہ قرار دوں“۔جب نےرو ےہ جملے ادا کر رہا تھا تو اس کے لہجے سے محض شکاےت نہےں چھلکتی تھی بلکہ اس کی شکاےت مےں حقارت ،توہےن ،تضحےک اور بد لحاظی بھی امڈ امڈ کر چھلک رہی تھی ۔مورخےن آج بھی کہتے ہےں کہ ہاں وہ نےرو ہی تھا جس نے روم کو آگ کے شعلوں مےںدھکےل دےا تھا ۔مورخےن کے مطابق اگر ےہ درست ہے کہ شہر مےں آگ نےرو نے لگوائی تھی تو پھر ےہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس روز لاکھوں لوگوں کا قتل عام بھی اس نے ہی کراےا تھا ۔ےہ اےک مہےب ، کرےہہ ، سفاکانہ اور بے رحمانہ حقےقت ہے کہ نےرو نے سوچ سمجھ کر ،جان بوجھ کر ،مکمل ہوش و حواس مےں روم کو آگ لگوائی تھی اور ےہ شرمناک داغ بھی نےرو کے ماتھے پر سجا ہے کہ روم مےں اس روز موجود وحشت،غےض وغضب اور جنون بھی نےرو کا پےدا کردہ تھا جو قتل عام کی صورت مےں ظاہر ہو رہا تھا ۔شہر کا نشےبی حصہ دھوےں مےں ڈھک چکا تھا ،دھوےں کے دےو ہےکل بادل زمےن کو ڈھانپے ہوئے تھے ۔وادی کے اوپر پل کی شکل مےں ستونوں کے سہارے بنائی گئی آبی گزرگاہےں ،محلات ،مکانات ،باغات اور درخت دھوےں کے بادلوں مےں گھر کر چکے تھے اور اس ہولناک منظر کے پےچھے پہاڑےوں پر آگ کے شعلے لپک لپک کر لوگوں کو اور ان کے گھروں کو اور زندگی کی ساری علامتوں کو مٹاتے جا رہے تھے ۔وہ آگ ہر چےز کو راکھ کرنے کے بعد خود ہی بجھتی ہے جس کے بجھانے والا کوئی نہ ہو۔بلآخر ےہ آگ خود بجھ گئی ۔ نےرو نے روم کو کےوں جلاےا ۔عالمی سپر پاور کے حکمران کو کےا سوجھی تھی کہ اس نے اپنے انتہائی طاقتور دارالحکومت کو نذر آتش کر دےا ۔مورخےن کہتے ہےں کہ اس کے عظےم ترےن منصوبوں مےں سب سے بڑا منصوبہ ےہ تھا کہ وہ پورے روم کے اےک تہائی حصے کو ملےا مےٹ کر کے اس پر اپنے محلات تعمےر کرائے گا جنہےں دنےا نےرو پولس(نےرو کے محلات) کے نام سے جانے گی ۔فاﺅن پھر چلاےا ” شہنشاہ اعظم ،عالم پناہ ،ظل الٰہی ،آقائے ولی نعمت روم راکھ کا ڈھےر بنتا جا رہا ہے ،ہر چےز جل رہی ہے ،نےرو نے فاﺅن کا آخری جملہ سن کر ہونٹوں پر بانسری رکھ لی اور گزشتہ رات اپنی بنائی گئی دھن پر بانسری کے سر بکھےرنے لگا ۔تالےوں کے شور مےں بانسری کے سر جاگ رہے تھے ،روم جل رہا تھا ،نےرو بانسری بجا رہا تھا۔نےرو کی لگائی گئی آگ نے آدھے روم کو جلا کر خاکستر کر ڈالا۔روم کے 14مےں سے 10اضلاع متاثرہوئے 4 اضلاع کا تو نام و نشان مٹ گےا ۔ےہ آگ تقرےباً 9دن تک جلتی رہی اور پھر خود ہی بجھ گئی ۔نےرو نے عےسائےوں پر آگ لگانے کا الزام لگا کر ان پر بہت ظلم ڈھائے ۔انہےں ہولناک سزائےں دےں کئی بدنصےبوں کو کتوں کے آگے زندہ پھےنک کر موت کی سزا دی گئی اور کئی اےک کو زندہ آگ مےں پھےنک کر جلا دےا گےا ۔پھر اس نے روم کی تعمےر نو کے نام پر امےر اور غرےب کی تخصےص کئے بغےر ان پر ےکساں ٹےکس لگا دےے ۔پورے روم مےں جگہ جگہ بغاوتےں شروع ہو گئےں ۔نےرو کی اپنی فوج نے اس کے خلاف بغاوت کر دی کےونکہ جب مکافات سے سےاہ بختی وارد ہوتی ہے تو ساتھی بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہےں اور ساےہ تک بھی انسان سے جدا ہو جاتا ہے ۔نےرو کو ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا ۔اس کی فوج نے اس کا تعاقب کےا ۔31برس کی عمر مےں اس نے خود کشی کر لی ۔روم کے مشرقی صوبوں مےں ےہ بات زبان زد عام تھی کہ نےرو مرا نہےں وہ واپس آئے گا لےکن مرنے والے بھلا کب واپس آتے ہےں ۔اس طرح تارےخ کا اےک کردار اور اپنی ماں اور دو بےوےوں کا قاتل نےرو اپنے انجام کو پہنچا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے