کالم

ریاست عوامی حقوق کی ضامن

جمہوری سیاست میں سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کو جن بنیادی باتوں کی طرف توجہ مرکوز رکھنی چاہیئے ان میں عوامی مسائل کی سب سے زیادہ اہمیت ہے ۔ عوامی نمائندگی کی بنیادپر حکمرانی حاصل کرنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ ریاست عوامی حقوق کی ضامن ہو ، جان،مال اور عزت کے تحفظ کی ذمہ دار ہو ۔ایساماحول موجود ہو جس میں فرد اپنی معاشی اور سماجی ضروریات کو پورا کرنے میں آزاد ہو ۔ مگر یہ بات باعث حیرت ہے کہ پاکستان کے جمہوری سیاسی نظام میں عوام اور ان کے مسائل کو سب سے زیادہ نظر انداز کیا جاتا ہے اوراس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ،اس کے باوجود ، عو ام کا ان سیاسی جماعتوں کے قائدین کے ساتھ گہری وابستگی بھی قائم رہتی ہے ۔ یہاں یہ حقیقت بھی منکشف ہوتی ہے کہ اس صورتحال کی جڑیں سیاست سے زیادہ سماج سے جڑی ہوئی ہیں ۔ پاکستانی سماج کی داخلی ساخت قدیم روایتی عوامل پر استوار ہے جس کی وجہ سے یہاں مختلف النوع کی عصبیتیں اور عقیدتیں پوری توانائی کےساتھ موجود ہیں ۔ عقیدت اور عصبیت ، خواہ مذہبی مسلک کی بنیاد پرہو یا زبان اور علاقہ کی وجہ سے ، اس کا سبب برادری ہو یا قبیلہ ، پاکستان کی سیاست میں اس کا تحرک بہت ہی مو ثرہے۔ جسے سیاست دان جمہوری سیاست میں بڑی ہنر مندی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ چونکہ یہ عقیدت اور عصبیت قائدین سے سوال کرنے کی راہ میں ہمیشہ حائل رہتی ہے لہذا قائدین کے فیصلوں پر تنقید یا ان سے فیصلوں کے جواز پر بات کرنے کا ( بالعموم ) کوئی رویہ دیکھنے کو نہیں ملتا۔پاکستان کے سماج میں سوال کرنے کی نہ تو پوری طرح آزادی ہے اور نہ ہی اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔ سوال کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے سیاسی جماعتوں میں سوال کرنے ،تنقید اور وضاحت طلب کرنے کو بغاوت پر محمول کیا جاتا ہو ۔ایسے میں جمہوری نظام عوامی مفادات کا نگہبان کیسے رہ سکتا ہے ۔سو پاکستان میں جمہوری سیاست اسی المیہ سے دوچار ہے ۔ فکر وعمل کی شخصی آزادی کے بغیر سیاسی نظام کو جمہوری کہنا محض ایک خیال خام ہے ، فریب ناتمام ہے ۔پاکستان کے عوام پچھلے 76سالوں سے جمہوریت کے اسی سراب میں گرفتار ہیں۔ جمہوریت کے نام پر سماج کے طاقتور طبقات حکومت اور ریاست کے وسائل پر قابض ہیں جن کے گٹھ جوڑ کے باعث سیاسی نظام کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ پاتے۔ پاکستان میں جمہوری سیاسی نظام کی آڑ میں۔ حکمرانوں کا ایک ایسا طبقہ وجود میں آچکا ہے جس نے پورے سیاسی نظام بلکہ پورے سماج کو یرغمال بنالیا ہے۔ اس میں جدی پشتی روایتی سیاست دان ، تاجر، بیوروکریٹ سب ہی اس نظام کے ثمرات سے مستفید ہورہے ہیں اگر کوئی محروم ہے تو وہ عوام ہیں جن کے نام پر جمہوری سیاسی نظام کو جاری رکھا ہواہے۔ ریاست ایسے نظام کا بوجھ مذید نہیں اٹھاسکتی جس میں عام آدمی کے لئے زندگی ایک عذاب بن گئی ہو ، معیشت قرض کے بوجھ تلے دبی جارہی ہو اور ریاست کی سلامتی کے مسائل بڑھتے جارہے ہوں۔ پاکستان کا جمہوری سیاسی نظام کسی بھی لحاظ سے عوام کے مفادات کے تحفظ کا ضامن نہیں ہے ۔ کسانوں سے گندم کی خریداری کا معاملہ ہو یا بجلی کی فراہمی کے ضمن میں کئے گئے آئی ۔ پی ۔ پیز ( INDEPENENT POWER PRODUCERS )سے کئے گئے معاہدات جن میں عوام کے مقابلے میں ان کمپنیوں کے مفاادات کو اہمیت دی گئی ہو اور ریاست اور اس کے ادارے محض تماشائی بنے رہیں ۔ کسی سے کوئی باز پرس تک نہ ہو آخر کیوں ؟ ایسا صرف اس لئے کہ ان کمپنیوں میں حکمراں طبقہ کے مفادات جڑے ہوئے ہیں۔ 76 سال سے پاکستان کے سیاسی نظام میں نقب لگائی جاتی رہی ہے۔ ریاست کے وسائل کو بے رحمانہ طریقے سے لوٹا جاتا رہاہے ۔ ایک ایسی ریاست کے لئے ، جس کا جغرافیائی تنوع ،معدنی وسائل، افرادی قوت اس کا بہترین اثاثہ ہو ، اور جو قدرتی وسائل سے مالامال ہو اس کے ہاتھوں میں حکمرانوںنے کشکول تھما دیا ہو، کس قدر تاسف انگیز اور شرمناک صورتحال ہے ،کب تک یہ سلسلہ یونہی دراز رہے گا ۔ زمینی حقائق اب واضح ہو تے جا رہے ہیں ۔ریاست کی سلامتی کے لئے اب یہ ضروری ہو چکا ہے کہ عوام دشمن جمہوری نظام کے اس ماڈل سے جان چھڑا لی جائے ۔ ریاست کا عالمی تشخص ترقی معکوس کا استعارہ بن چکا ہے ۔ حکمرانوں کی دولت میںاضافہ اور ریاست مفلس و بے حال ، غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ملک میں سرمایہ کاری کی ترغیب اور حکمرانوں کے مالیاتی اثاثے اور ان کی سرمایہ کاری دبئی، لندن، نیویارک اور میڈرڈ میں ہو ، عوام سے وطن کی محبت کے نام پر قربانی کا مطالبہ اور حکمران طبقہ کی وطن سے محبت کا یہ عالم ہو کہ ان کے مستقل ٹھکانے دیار غیر میں ہوں ۔یہ تضاد یہ دوعملی کھلی منافقت ہے ۔ ریاست اور اس کی عوام کے سا تھ یہ بھونڈا مذاق ہے۔اس نکتہ نظر کو جمہوریت مخالف ہرگز نہ سمجھا جائے ۔ جمہوری سیاسی نظام کا فی زمانہ کوئی متبادل نہیں مگر یہ جب ہی عوامی مفادات کے تحفظ کا نگہبان ہو سکتا ہے جب اس کے بنیادی لوازمات کو اختیار کیا گیا ہو ۔ جمہوری سیاسی نظام محض انتخابی عمل کا نام نہیں ہے ( اور جس کی شفافیت پاکستان میں ہمیشہ ہی متنازع رہی ہے ) ۔ یہ سیاسی ثقافت کا ایک مکمل نمونہ ہے۔ رویوں کا ایک مکمل پیکج ہے جس میں پارلیمنٹ، سیاسی جماعتیں، انتخابات، جوابدہی کا مستقل نظام اورانتقال اقتدار کا پر امن تسلسل شامل ہے۔ پون صدی کے سیاسی سفر کا آج حاصل یہ ہے کہ نہ تو کوئی سیاسی ادارہ مضبوط ہواہے، نہ معیشت اپنے پاﺅں پر کھڑی ہو سکی ہے ،نہ عوام کے بڑھتے ہوئے مسائل کے کم ہونے کی کوئی امید باقی رہی ہے ۔عوام میں یاسیت بڑھتی جارہی ہے ۔اداروں کی باہمی کشمکش سے نہ صرف ان کی کارکردگی متاثر ہوئی ہے بلکہ وہ عوامی اعتماد بھی کھورہے ہیں ۔ صورتحال تشویش کی حدوں سے آگے بڑھ چکی ہے ۔ریاست کی حکمراں طاقتوں کو ریاست کی خاطر اب اپنی حکمت عملی بدلنا ہوگی ۔عوام کا اختیار اقتدار انہیں لوٹانا ہوگا۔اطلاعاتی ابلاغ کی حشر سامانیوں نے ذہن سا زی کے عمل کو تیز تر کردیا ہے ۔ صحیح اور غلط کی تمیز مشکل ہو چکی ہے ۔ تعمیر اور تخریب کے مابین حد تفریق کمزور ہو چکی ہے ۔ایسے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے ۔ ریاست کی بقا کے لئے ضروری ہے کہ اب عوامی مزاج کو سمجھا جائے اور اس کے مطابق فیصلے کئے جائیں۔ غلط فیصلوں سے مراجعت جتنی جلد ممکن ہو کرلینی چاہیئے۔ سیاستدان ہوں یا دیگر فیصلوں پر اثر انداز ہونے والی قوتیں، سب کیلئے دانائی کا یہی راستہ ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri