جب سے سپریم کورٹ میں نئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور نئے رجسٹرار اسلم خان نئے چارج سنبھالا ہے سپریم کورٹ میں بہتری دیکھنے میں ا ٓرہی ہے۔جس دن سے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور رجسٹرار سپریم کورٹ اسلم خان نے سپریم کورٹ بار کا وزٹ کرنا شروع کیا ہے۔ اس سے بنچ اور بار کی دوریاں کم ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ اس سے پہلے کبھی ایسا نہ ہوا تھا کہ بنچ بھی بار آتا ۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے بار کے سینئیر وکلا سے بار میں آکر ملاقات کی، بات کی۔ جس سے دونوں جانب سمجھنے میں اور رشتہ مضبوط ہونے میں مدد ملی۔ آپ نے بتایا کہ اب جو کیس بھی جیسے ہم کہہ رہے ہیں اس طرح فائل کئے جاتے رہے تو پندرہ دن بعد کیس لگ جایا کرے گا۔ ایسی ہی یقین دہانی رجسٹرار سپریم کورٹ نے بھی اپنے بار کے وزٹ پر کرائی تھی۔ ہفتہ قبل سپریم کورٹ بار کے ٹی ٹاک کارنر پر بنوں سے یونس خٹک صاحب تشریف لائے۔ تھے کیس نہ لگائے جانے پر پریشان تھے۔ کہا رجسٹرار صاحب نے کہا تھا کہ آپ کا کیس جلد لگ جائے گا مگر ایک ماہ کے بعد بھی ہمارا کیس نہیں لگا۔ یہ سن کر میں نے کہا ایسا ممکن نہیں ہے۔ آپ آئیں میرے ساتھ رجسٹرار صاحب سے ملتے ہیں۔ کسی نے کہا ان سے ملنا ممکن نہیں۔ شارٹ یہ کہ انہیں ساتھ لے کر رجسٹرار صاحب سے ملنے چل پڑا۔ ریسپشن سے رابطہ کیا میں نے اپنا نام اور کلائنٹ کا نام بتایا کہ اس سلسلے میں ملنا چاہتا ہوں۔ جس پر ہمیں ملنے کےلئے رجسٹرار آفس جانے دیاگیا۔ پہنچ کر آفس میں کارڈ دیا۔ اسی وقت فوری ہمیں آپ نے بلا لیا۔ دیکھ کر کرسی سے اٹھ کر ملے۔ پھر میں نے کہا آپ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ کیس ایک ماہ میں لگ جائے گا لیکن ابھی تک ایک ماہ گزرجانے کے بعد بھی کیس نہیں لگا۔آپ نے فوری فون پر برانچ کے انجارچ کو بلا لیا۔ ہمیں چائے کا پوچھا۔ بسکٹ پیش کئے۔ اس دوران انچارج صاحب تشریف لے آئے ہماری کیس فائل اس کے حوالے کی کہ اس سوموار کو یہ کیس لگا دیں۔ پھر یہ کیس آپ کے کہنے پر لگ بھی گیا۔ خوشی ہوئی رجسٹرار صاحب جو کہتے ہیں ویسا کرتے بھی ہیں۔ کم از کم اتنا تو ہو رہا ہے بات سن لیتے ہیں۔ایکشن لے لیتے ہیں۔دروازے کھلے رکھتے ہیں۔ موجودہ حالات کو دیکھ کر کہہ سکتے ہیں جیسے اب حالات ہیں کبھی پہلے تو نہ تھے۔یاد رکھیں پرانی بیماریاں یک دم ٹھیک نہیں ہوتیں۔ انہیں ٹھیک کرنے میں عرصہ لگتا ہے اسی ہفتے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی ملک سے باہر چند روز کے تشریف لے گئے۔ اب ان کی جگہ سینئر ججز جو دو گہرے دوست بھی ہیں انہیں عارضی چیف جسٹس بنے کا موقع ملا خوشی خوشی قبول کیا ۔ ایک دوست جج نے حلف لیا دوسرے نے حلف دیا۔ اس روز حلف برداری کی تقریب کا انکھوں دیکھا حال دیکھا۔ کوئی چائے پانی کا بندوبست نہ تھا۔ فضا افسردہ لگی۔ اس پر میری بابا کرمو سے شرط لگی تھی کہ یہ چیف جسٹس کا حلف نہیں اٹھائیں گے۔گھر چلے جائیں گے۔جبکہ بابا کرمو کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں کریں گے گھر نہیں جائیں گے۔ پھر میں نے کہا جسٹس منیب بھی ان کا ساتھ دیتے آئیں ہیں وہ بھی اس روز گھر چلے جائیں گے۔ کیونکہ دونوں کا تعلق کھاتے پیتے گھرانے سے ہے۔ لہٰذا آج اس موقع پر آپ سب ان کے گھر جانے کی خبر سنے گے۔ مگر ایسا نہ ہوا میری ہار ہوئی۔انہوں نے بھی ترمیم مان لی ایک ہفتہ چیف جسٹس بن کر رہے۔ ہم نے بابا کرمو کی بات کو رد ہوتے ہوئے دیکھا۔ اچھا ہوا سپریم کورٹ کی گاڑی چلتی رہی کوئی فنی خرابی اس دوران دیکھنے میں نہ آئی۔ دیکھنے میں پاکستان کے پیدائشی دشمن نے ایک بار پھر دہشت گردی کا ڈرامہ رچایا۔ سندھ طاس معاہدہ بے ہودہ انداز سے ختم کر نے کا اعلان کیا۔ پچیس تاریخ کو اس حوالے سے سینٹ کا خصوصی اجلاس بلا رکھا تھا۔ سپریم کورٹ کے چند دوستوں کے ہمراہ یہ اجلاس سینٹر کامران مرتضی کی مہربانی سے نہ صرف یہ اجلاس دیکھا بلکہ آپ کے کہنے پر چیئرمین سینیٹ یوسف رضاگیلانی نے سینٹ فلور پر کاروائی روک کر ہماری موجودگی پر ہمیں خوشامدید بھی کہا۔ اس کا کریڈٹ ہمارے ساتھی دوست بھائی کامران مرتضی کو جاتا ہے جن کی بدولت سینٹ کے تاریخی لمحات دیکھنے کو ملے۔ اس قرارداد کو وزیر خارجہ و نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے پیش کیا جسے تمام سینٹر نے اس قرارداد کو متفقہ طور پر منظور بھی کیا ۔ اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے اس قرار داد کو کھلے دل سے تسلیم کیا مگر اس موقع پر اپنی جماعت کے گندے کپڑے بھی دھوتے رہے جبکہ یہ ایسا موقع نہیں تھا۔ اسی روز اسلام آباد ہائی کورٹ سے انہی کی جماعت کے وکلا نے شاہراہ دستور پر بینروں کے ساتھ جلوس نکالا۔ جبکہ یہاں دفعہ 144لگا ہوا تھا۔ بینروں پر لکھ رکھا تھا کہ عدلیہ کو آزاد کرو۔ قانون پر عمل کرو جبکہ اس روز قانون کی خلاف فرضی بھی کی۔اس روز ان کے ہاتھوں میں بھارت کے خلاف بنرز ہونے چاہئے تھے۔ وقت کے ساتھ یہ چلتے نہیں۔ شکایتیں ہی شکایتیں کرتے رہتے ہیں۔ اگر موجودہ عدلیہ آزاد نہیں ہے تو پھر آپ انکے سامنے پیش کیوں ہوتے ہیں۔ ایشو پہ بات کیا کریں سابق صدر ملتان بار سید ریاض الحسن گیلانی سے ایشوز پر بات کرنا کوئی سیکھے ۔ حال ہی میں لکھ کر گزارشات چیف جسٹس کو بھیجیں ہیں کہ ملتان کے وکلا وفد کی ملاقات چیف جسٹس آف پاکستان سے ہوئی تھی کہ ملتان بنچ کے وکلا کے سپریم کورٹ کے کیس وڈیو لنک پر سنے جایا کریں ۔ 26.12.2025کو اس حوالے سے پریس ریلیز بھی سپریم کورٹ نے ریلیز کی تھی مگر ابھی تک اس پر عمل نہیں ہوا ۔ ہم بھی اس اواز میں ملتان بار کے وکلا کے ساتھ ہیں۔ امید کرتے ہیں کہ اس پر جلد از جلد عمل کیا جائے گا۔ دوری اور گرم موسم کی مجبوری سے سپریم کورٹ میں انا جانا ممکن ہی نہیں نا ممکن بھی ہے۔ملتان بار کے وکلا کا یہ جائز مطالبہ ہے۔ اس پر جلد عمل کرنا ضروری ہے۔ امید ہے چیف جسٹس اس پر جلد نوید سنائیں گے۔