سپریم کورٹ آف پاکستان نے اقلیتوں اور خواتین کے لیے قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے نظرثانی کیس میں اہم فیصلہ سنایا ہے۔ یہ فیصلہ پاکستان تحریکِ انصاف کی ان نشستوں پر حقِ ملکیت کے حوالے سے ہے جو ابتدائی طور پر الیکشن کمیشن اف پاکستان اور پشاور ہائی کورٹ کے فیصلوں کے مطابق دیگر جماعتوں کو دی گئی تھیں۔ 12جولائی 2024کو، سپریم کورٹ کے 13رکنی بینچ نے 8-5کی اکثریتی رائے سے فیصلہ دیا تھا کہ PTIان مخصوص نشستوں کی حقدار ہے۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کے 1مارچ 2024کے فیصلے اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیا، جن میں PTI کو مخصوص نشستوں سے محروم کیا گیا تھا۔ عدالت نے قرار دیا کہ الیکشن کمیشن نے اپنے آئینی کردار کو پورا نہیں کیا اور اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہا۔ اس فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستیں اور بینچ کی تشکیل 6 مئی 2025 کو دی گئی سپریم کورٹ نے ان نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے لیے 13 رکنی بینچ تشکیل دیا، جس کی سربراہی جسٹس امین الدین خان نے کی۔ بینچ میں شامل دو ججوں، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے نظرثانی درخواستوں کو ہی ناقابلِ سماعت قرار دیا۔اس پر سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا اختلافی نوٹ بھی لکھا گیا جس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے اکثریتی ججوں کی وضاحتوں کو "قانونی اثر سے عاری” قرار دیا اور ان پر عمل نہ کرنے کا کہا۔انہوں نے بینچ کی تشکیل پر بھی اعتراض کیا، خاص طور پر اس بات پر کہ اصل فیصلے میں شامل ججوں کو نظرثانی بینچ سے خارج کر دیا گیا۔ عدالت کے فیصلے کے مطابق مخصوص نشستوں کی تقسیم میں PTIکو بھی شامل کیا جائےگا جو کہ اقلیتوں اور خواتین کی نمائندگی کو متاثر کرے گا۔ یہ فیصلہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کا انتخابی نشان واپس لینا اسے مخصوص نشستوں کے لیے نااہل نہیں بناتا۔ اس پر مختلف درخواستیں دائر کی گئی تھیں اب سوائے ایک درخواست کے تمام درخواستیں خارج کر دی گئی ہیں۔ جو درخواست منظور کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس کیس کو ڈارکٹ میڈیا پر سنایا جائے گا۔ یاد رہے اصل کیس کو جب سپریم کورٹ کے بنچ ون سے میڈیا پر دکھایا گیا تھا۔ اس سے عوام میں وکلا اور ججز کے گفت وشنید سے کوئی اچھا امیج نہیں گیا۔ بلکہ دکھانے سے ججز اور وکلا پر سخت تنقید کی گئی کہ کہا گیا ہمیں امید نہ تھی کہ ہماری سپریم کورٹ کا یہ معیار ہے۔ججز اور وکلا کا اتنا برا حال ہے۔ یہ کیس انگریزی میں پلیڈ ہوا کہا جاتا ہے جسے سن کر انگریز اس انگریزی سے سخت ناراض ہوئے اور عوام اس لیے ناراض کہ اردو میں یہ کیس کیوں نہیں چلا جب کہ ہماری قومی زبان اردو ہے۔ پھر یہ کیس میڈیا پر کس کو دکھاتے رہے۔ پاکستان کے آئیں میں ہماری قومی زبان اردو ہے۔ اس پر سپریم کورٹ کی ججمنٹ بھی اچکی ہے۔اس پر ان چیف جسٹس صاحب نے خود بھی عمل کرنا گوارا نہ کیا تھا۔ جبکہ اردو لکھنے کے تمام انتظام سپریم کورٹ میں مکمل کر لئے گئے۔ تھے مگر اس ججمنٹ پر اج بھی عمل نہیں کیا گیا لہذا جب یہ کیس ایک بار پھرعوام کو سنانے کے لیے ان ائیر جائے گا تو انگلیاں تو اٹھیں گیں۔پاکستانی عوام اور دنیا کو کیا دکھائیں گے۔اس سے ہمارے ججز اور وکلا کا مذاق ہو گا کہ یہ کیسی عدالتی ہیں جو آئین کے مطابق اردو میں کیس نہیں کرتے جبکہ عوام میں انگریزی کو سمجھنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے لیکن اب آئنی عدالت نے ریویو کیس میں فیصلہ سنا دیا ہے کہ نظرثانی کیس کی سماعت کو لائیو نشر کرنے کے انتطامات کئے۔ جائیں۔ یہ فیصلہ 23 مئی 2025 کو جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11رکنی بینچ نے سنایا۔ عدالت نے اپنے مختصر حکم میں سپریم کورٹ کے آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کو ہدایت دی کہ وہ لائیو اسٹریمنگ کے انتظامات کریں۔ عدالت نے سنی اتحاد کونسل کی جانب سے بینچ کی تشکیل پر اعتراضات اور 26ویں آئینی ترمیم سے متعلق درخواستوں کو مسترد کر دیا، اور واضح کیا کہ سماعت موجودہ بینچ کے سامنے ہی جاری رہے گی۔کہا جاتا ہے کہ یہ فیصلہ شفافیت اور عدالتی کارروائیوں کی عوامی رسائی کو فروغ دینے کےلئے ایک اہم قدم ہے۔جب کہ عوامی رائے اس کے برعکس ہے جس قسم کے واقعات ماضی کی عدالتوں میں کیس کے دوران دیکھنے کو ملتے رہے ہیں ان کا کالم میں ذکر نہیں کر سکتا۔ وکلا اور ججز اپس میں کیس کے دوران کس قسم کی بازاری زبان بولتے ہیں۔ ایسے میں اگر وکلا کا وکلا کے ساتھ کیس کے دوران جنگ چھڑ جاتی ہے تو اس جنگ میں ججز بھی شامل ہو جاتے ہیں تو رابطہ منقطع کرنے کےلیے بٹن کون دبائے گا یا کیس ان حالات میں چلتا رہے گا ۔ اس سے بہتر ہے کیس کو میڈیا پر نہ دکھایا جائے۔ وڈیو ٹاکر اپنی وڈیو میں بڑی خوش اسلوبی سے وکلا اور ججز کی خوبیوں اور خامیوں کو پیش کرتے رہتے ہیں ۔لہٰذا ریویو کیس کو لائف دکھانے کی ضرورت نہیں ہے اگر پھر بھی دکھانا ضروری ہے تو اسے سنسر کرنے کے بعد دکھایا جائے مگر لائف نہیں بابا کرمو کے بقول اگر لائف دکھایا گیا تو یہ گندے کپڑے سرعام دھونے کے مترادف ہوگا اور جگ ہنسائی ہو گی۔ اس جمعہ کو چیف جسٹس سپریم کورٹ محترم یحیی افریدی صاحب بار کے ٹی ٹاک کارنر تشریف لائے وکلا سے ملے ۔ اگر بتا کر تشریف لاتے تو بار کی چائے پیش کرتے۔ چیف صاحب کا بار کا وذٹ کرنے کا بہت بہت شکریہ۔ امید ہے چیف جسٹس صاحب یہ سلسلہ جاری رکھیں گے مگر چائے کیساتھ۔