کالم

سیلاب زدہ علاقوں کے ڈائینوسار

سب سے پہلے پاکستان، پھر افغانستان

امریکہ کی ریاست ٹیکساس میں خشک سالی کے باعث سوکھ جانے والے ایک دریا کی تہہ سے ڈائنوسار کے قدموں کے ایک سو تیرہ ملین سال پرانے نشانات دریافت ہوئے ہیں۔ خبر کے مطابق ڈائینوسار کے قدموں کے یہ نشانات پندرہ فٹ بڑے ہیں ۔ماہرین نے قیاس ظاہر کیا ہے کہ یہ نشانات ڈائنوساروں کی سات ٹن تک وزن رکھنے والی قسم ایکرو کینتھوسارس (Acrocanthosaurus) کے پاو¿ں کے ہو سکتے ہیں۔ یہ نشانات ڈائنوسار ویلی اسٹیٹ پارک میں ماہرین کو ملے ہیں۔ اس امکان کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ پیروں کے کچھ نشانات سائیورو پوزائیڈن نامی ڈائنوسار کے بھی ہو سکتے ہیں۔اس قسم کے ڈائینوسار کی قامت 60 فٹ اور وزن اندازا 44 ٹن قیاس کیا جاتا ہے۔یہ خبر پڑھ کر عالمی درجہ حرارت میں منفی تغیر کے ہولناک نتائج کا کچھ اندازا ہوتا ہے ۔ یہ بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت ہی کے اثرات ہیں کہ امریکہ کی طرح یورپ بھی اس وقت اپنی پانچ صد سالہ تاریخ کی بد ترین خشک سالی کا شکار ہے ۔ یورپ نے اس طرح کی خشک سالی کا پہلے کبھی سامنا نہیں کیا ۔اچھا اس موسمی تغیر نے یورپ کی جدید ترین زراعت کو بھی بے حد متاثر کر دیا ہے ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت پورے یورپ کا تقریبا آدھا رقبہ مٹی میں مطلوبہ نمی کی کمی کا شکار ہے ۔جبکہ بعض علاقوں اور فصلوں کو بھی شدید بحران اور نقصان کا سامنا ہے۔ خاص طور پر سویا بین، مکئی اور سورج مکھی کی فصلوں کو بدترین نقصان پہنچا ہے اور ان کی پیداوار میں کمی ہو رہی ہے۔ عالمی درجہ حرارت میں تیزی سے بڑھتے ہوئے اس اضافے نے جہاں امریکہ اور یورپ کو خشک سالی کی مصیبت کا شکار کیا ہے ،وہیں ہمارے ہمالیہ کی ترائی والے خطے میں بھی انواع و اقسام کے تغییرات رونما ہورہے ہیں۔حالیہ شدید بارشوں نے تباہی مچا رکھی ہے ۔پاکستان میں چونکہ حکومت کا کام مملکت کے لیے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنا نہیں ہوتا ،وہ صرف مزے لینے کےلئے بنتی اور ٹوٹتی ہیں۔انکا ملک کے مسائل اور مصائب ختم کرنے کی طرف دھیان نہیں جاتا ۔بلوچستان ،جنوبی پنجاب ،سندھ میں بارشوں نے زیادہ تباہی مچائی ہے۔ کوہ سلیمان پر ہونے والی بارشوں نے رودکوہی نالے کو بپھرا ہوا ناراض پہاڑی نالہ بنا دیاہے ، اس پہاڑی نالے کا پانی داجل سے اوپر کے علاقے پچادھ کے پہاڑی سلسلے سے شروع ہو کر پہلے داجل کی طرف آتا ہے ،پھر وہاں سے ہوتا ہوا حاجی پور ،فاضل پور ،راجن پور ،روجھان اور ہوتے ہوتے دریائے سندھ میں جا گرتا ہے ۔سابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے شہر تونسہ کے اوپر کا پہاڑی علاقہ بھی کوہ سلیمان ہی کا سلسلہ ہے۔ڈیرہ غازی خان میں بھی حالات مختلف نہیں۔دراصل جنوبی پنجاب کے ان علاقوں کو کبھی کسی ترقیاتی منصوبہ بندی کا عنوان نہیں بنایا گیا ۔سیلاب اتر جانے کے بعد جب پانی اتر جائے گا ، زمین خشک ہو جائے گی ،تو عین ممکن ہے کہ امریکی ریاست ٹیکساس کے خشک ہو جانے والے دریا کی مانند یہاں بھی ساٹھ ساٹھ فٹ طویل ڈائینوساروں کے پندرہ پندرہ فٹ چوڑے پیروں کے نشانات دریافت ہو جائیں ۔ ماہرین نے امریکی ریاست ٹیکساس کے خشک ہو جانے والے دریا کی تہہ سے ملنے والے ڈائینوساروں کے جو مشکل مشکل نام بتائے ہیں ،یہاں سے ملنے والے نشانات اور ہی قسم اور نسل کی ڈائینوساروں کے ہو سکتے ہیں ۔عین ممکن ہے کہ یہ نشانات سرداروں ،وڈیروں ،پیر سائیوں، اور سجادہ نشینوں کے پاو¿ں کے ہوں ؟ یہ ان ڈائینوساروں کے پاو¿ں کے نشانات ہوں جو اس محروم خطے کی خوشحالی کھا گئے ہیں۔جنہوں نے سارے وسائل ہڑپ کرلیے ہیں۔ لاکھوں لوگوں کے حصے کا رزق کھا جانے سے ان کے قد ساٹھ فٹ تک بلندہو چکے ہیں ،جبکہ ان کے پاو¿ں پندرہ پندرہ فٹ سے متجاوز ہیںلیکن امریکی ریاست ٹیکساس کے خشک ہو جانے والے دریا کی تہہ سے ملنے والے نشانات تو صدیوں پہلے معدوم ہو جانےوالے ڈائینوساروں کے ہیںلیکن بلوچستان ،جنوبی پنجاب اور سندھ سے ملنے والے ڈائینوسار صدیوں پہلے معدوم نہیں ہو سکے تھے ،وہ آج بھی اپنے پورے قد کاٹھ کےساتھ زندہ ہیں اور بستیوں کو اکھاڑنے اور سارے وسائل کو کھا جانے میں مصروف ۔ کیا تیزی سے تبدیل ہوتا ہوا عالمی درجہ حرارت پاکستان کے محروم خطوں میں پائے جانے والے ڈائینوساروں کو کبھی ہمیشہ کے لیے معدوم کر پائے گا؟
ستم ظریف کا خیال ہے کہ بارشوں اور سیلاب سے ہونے والی اس تباہی کے مقابل ریاست کے جملہ اعضا اپاہج معلوم ہورہے ہیں۔یہ حکمران نہ صرف منصوبہ بندی کی سطح پر ناکام ہوئے ہیں ،بلکہ تباہی کے بعد بھی اپنے اپنے اشغال میں مصروف رہے ۔ شرلی بے بنیاد کہتا ہے کہ حکمرانوں میں پھرتی تب آئے گی ،جب بیرونی ممالک سے امداد کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گا ۔وہ کہتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی واحد مہارت بھیک مانگنا رہ گیا ہے ۔ یہ دنیا کے سامنے دردناک اپیلیں کریں گے ۔ ملازمت کرنے والے پاکستانیوں کی تنخواہیں زبردستی کاٹیں گے ، ریلیف فنڈ کے نام پر چندے مانگیں گے ، اورجب پیسہ آنے لگے گا تو یہ پیشہ ور مل جل کر اس تباہی سے بھی کمانا شروع کر دیں گے۔میں ستم ظریف یا شرلی بے بنیاد کی بدگمانی کو سمجھ سکتا ہوں ۔ دراصل شائد انہیں پہلی بار اندازا ہوا ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ ہمیشہ بہت ہی مصروف ہوتا ہے ۔اس ہزار طرح کی مصروفیت میں سے اپنی توجہ کو قدرتی آفات کا شکار بالکل ہی عام سے لوگوں کی طرف مبذول کرنے میں وقت لگتا ہے ۔یہ دو نادان نہیں جانتے کہ جس واقعے ، سانحے اور المیے کےساتھ مواقع وابستہ نہ ہوں،وہ حکمرانوں کو متاثر نہیں کرتے ۔ حسن اتفاق سے ہمارے تمام حکمران اور اپوزیشن والے سبھی نہایت دولت مند لوگ ہیں۔یہ دولت انہوں نے اپنی کسی تعلیمی قابلیت یا محنت سے نہیں ، اپنی مہارت سے کمائی ہے ۔ پاکستان وہ ملک ہے کہ جہاں کے دولت مند ٹیکس نہیں دیتے ، بلکہ ریاست سے مراعات لیتے ہیں۔یوں وہ پہلی رعایت کے طور پر اپنا وزیر خزانہ رکھواتے ہیں۔یہ وزیر خزانہ اپنے مربی تاجروں اور صنعتکاروں کو ایسی ایسی ماہرانہ رعایات سے نوازتا ہے کہ کسی اردو اخبار پڑھنے والے کو اس کی سمجھ ہی نہیں آ سکتی۔ دراصل یہ جدید دور کے نوسر باز لوگ ہیں ، جو ریاست کے وسائل توصرف اپنی مراعات پر خرچ کرتے ہیں ،لیکن کسی قدرتی آفت سے نبردآزما ہونے کےلئے اندرون ملک اور بیرون ملک بھیک مانگنا شروع کر دیتے ہیں۔ ستم ظریف کہتا ہے کہ وزیر اعظم سمیت ان کی نصف سنچری سے متجاوز حکومت کے تمام وزرا کو اپنے آئندہ چھ ماہ کی تنخواہیں اور مراعات سیلاب فنڈ میں عطیہ کر دینی چاہئیں ۔شہباز شریف اور ان کی آل اولاد نہایت دولت مند تاجر اور صنعت کار لوگ ہیں ۔ان کو ایک مثال بنتے ہوئے اپنی دولت کا نصف نہیں تو ایک چوتھائی سیلاب فنڈ میں عطیہ کر دینا چاہئے ۔ اسی طرح کابینہ میں شامل دیگر کاریگروں کو بھی اپنی دولت کا ایک چوتھائی سیلاب فنڈ میں دینا چاہیئے ۔وزیر اعظم کو سیلاب سے متاثر علاقوں کے مقہور اور بے بس لوگوں سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنی چاہئے ۔ اپوزیشن کے راہنما عمران خان کے لیے شرلی کا مشورہ یہ ہے کہ وہ کم از کم اس سنہری موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سیلاب زدگان کی مدد کریں ۔ شرلی بے بنیاد تو ہے ہی ،تھوڑا زبان دراز بھی ہے ۔اس نے چند مشورے کچھ دیگر اہم لوگوں اور اداروں کو بھی دیئے ہیںلیکن جتنا زبان دراز اور غیر محتاط وہ ہے ،میں نہیں ،لہٰذا میں اور کچھ نہیں کہوں گا ،سوائے اس کے کہ جن درندوں کو قدرت معدوم نہ کر پائے ،انہیں کمزور لوگوں کو اپنے نہایت طاقتور ارادے اور جدوجہد سے مٹانا پڑتا ہے۔امید رکھنی چاہیئے کہ مصیبت ٹل جانے کے بعد بلوچستان ، جنوبی پنجاب اور سندھ کے لوگ اپنی زمین پر سے ملنے والے ڈائینوساروں کے قدموں کے نشانات کو ہمیشہ کےلئے مٹا کر رکھ دیں گے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri