کالم

شام تنازعہ ایک صدی پر محیط بحران اور اسد خاندان کا زوال

شام، ایک قدیم تاریخ اور اہم جغرافیائی پوزیشن رکھنے والا ملک، ایک صدی سے زائد عرصے سے جنگ، تنازعات اور غیر ملکی مداخلت کا سامنا کرتا آیا ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے زوال سے لے کر اسد خاندان کی حکومت کے عروج اور زوال تک، شام کی کہانی سلطنت پسندی، فرقہ واریت، آمرانہ حکمرانی اور اقتدار کی جنگوں سے بھری ہوئی ہے۔ اس کی تاریخ مسلسل جغرافیائی سیاسی کشمکش ، معاشرتی تقسیمات اور مشرق وسطیٰ پر اس کے دیرپا اثرات سے چھلک رہی ہے ۔ پہلی جنگ عظیم سے پہلے، شام سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا، جو 14ویں صدی سے 20ویں صدی کے ابتدائی برسوں تک قائم رہی۔ عثمانی حکمرانی کے دوران، شام ایک متنوع سرزمین تھی جس میں عرب، کرد، علوی، عیسائی اور یہودی برادریاں آباد تھیں۔ یہ تمام قومیں ایک مرکزی حکومت کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی سے زندگی گزار رہی تھیں۔ لیکن بیرونی طاقتوں کے اثرات کے سبب، شام کی جدید شناخت کی تشکیل میں جلد ہی تبدیلی آئی۔پہلی جنگ عظیم نے اس خطے میں ایک نیا موڑ لایا۔ سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد، یورپی طاقتوں نے خاص طور پر برطانیہ اور فرانس نے مشرق وسطی میں اپنی اجارہ داری قائم کی۔ 1916میں مشہور Sykes Picot معاہدے کے تحت عثمانی علاقوں کو برطانیہ اور فرانس کے درمیان تقسیم کیا گیا، جس کے نتیجے میں فرانس نے شام پر کنٹرول حاصل کیا۔ یہ وہ مرحلہ تھا جب ملک کے اندرونی معاملات میں غیر ملکی مداخلت کا آغاز ہوااور یہ سلسلہ اگلے سو سال تک جاری رہا ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد، جب سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا، عرب دنیا میں ایک نئی سیاست کی ابتدا ہوئی۔ شام اور لبنان کو فرانسیسی مینڈیٹ میں شامل کیا گیا، اور عرب اکثریت جنہوں نے آزادی کی امید رکھی تھی، ایک مرتبہ پھر غیر ملکی حکمرانی کے تحت آ گئے۔ فرانس نے "تقسیم اور حکمرانی” کی حکمت عملی اپنائی اور شام میں علویوں جیسے مذہبی اور نسلی اقلیتی گروپوں کو اہمیت دی تاکہ وہ سنی عرب اکثریت کو متوازن کر سکیں ۔ فرانس کا علویوں کو فوجی اور انتظامی عہدوں پر فائز کرنے کا فیصلہ شام کےلئے طویل المدت نتائج کا حامل ثابت ہوا۔ 1946میں شام کی آزادی کے بعد، سیاسی عدم استحکام اس کی نئی جمہوریت کی پہچان بن گیا۔ فوجی بغاوتوں اور قیادت کی تبدیلیوں سے یہ واضح ہو گیا کہ شام کی معاشرتی ساخت میں گہری تقسیمات موجود ہیں، جو فرانسیسی مداخلت کی وراثت سے مزید بگڑ گئی تھیں۔شام کی جدید تاریخ کا حقیقی موڑ 1970میں آیا جب حافظ الاسد، ایک علوی فوجی افسر، نے بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کیا۔ حافظ کا اقتدار میں آنا اس کی صلاحیت پر منحصر تھا کہ اس نے اہم فوجی گروپوں خصوصا اپنے علوی ساتھیوں میں سے حمایت حاصل کی۔ اس نے فوج میں حریف گروپوں کو ختم کیا اور ایک نیا سیاسی نظام قائم کیاجس میں طاقت کو ایک چھوٹے سے اشرافیہ کے ہاتھوں میں مرکوز کر دیا ۔حافظ الاسد کی حکومت آمرانہ تھی لیکن اس نے ملک کو ایک مضبوط، مرکزی حکومت کے ذریعے چلایا۔ اس کی پالیسیوں میں علویوں کو حکومت، فوج اور انٹیلی جنس سروسز میں اہم عہدوں پر فائز کر کے ایک وفادار حمایت کی بنیاد قائم کی گئی، جو اس کی موت کے بعد بھی برقرار رہی۔ حافظ الاسد کی وفات کے بعد 2000میں اقتدار بشار الاسد کے ہاتھوں میں آیا۔ شروع میں بشار کو ایک اصلاح پسند کے طور پر دیکھا گیا، جو اپنے والد کے مقابلے میں زیادہ اعتدال پسند ثابت ہو سکتا تھا۔ اس نے طب میں تعلیم حاصل کی تھی اور بہتوں کو امید تھی کہ وہ ملک میں تبدیلی لائے گا۔ اس نے سیاسی اور اقتصادی اصلاحات کے وعدے کیے، اور ایک زیادہ آزاد معاشرے کی طرف قدم بڑھانے کی بات کی۔تاہم، بشار کے ابتدائی سالوں میں ہی یہ ثابت ہوگیا کہ وہ اصلاحات کے وعدوں میں ناکام رہا۔ اس کی اصلاحات صرف ظاہری تھیں اور سیاسی مخالفت کو جبر کے ساتھ کچل دیا گیا۔ ملک کی معیشت میں کچھ تبدیلیاں ضرور آئیں لیکن سیاسی آزادی کے فقدان کی وجہ سے عوام میں بے چینی بڑھتی گئی ۔ 2011میں عرب دنیا میں پھیلنے والی انقلابی تحریکوں سے متاثر ہو کر شام میں احتجاجات شروع ہوئے جن کا آغاز سیاسی اصلاحات اور آمرانہ حکمرانی کے خاتمے کے مطالبات سے ہوا لیکن بشار الاسد کے حکومت نے اس پر شدید جبر کا جواب دیا جس کے نتیجے میں ملک خانہ جنگی کی صورت میں تبدیل ہو گیا۔ یہ جنگ پہلے تو حکومت کےخلاف ایک بغاوت تھی، مگر پھر یہ ایک پیچیدہ اور تباہ کن تنازعہ بن گئی، جس میں مختلف گروہ اور غیر ملکی طاقتیں بھی ملوث ہو گئیں۔روس اور ایران، جو اسد حکومت کے دیرینہ اتحادی تھے، نے فوجی اور مالی مدد فراہم کی جبکہ امریکہ، ترکی اور دیگر عرب ممالک نے مختلف اپوزیشن گروپوں کی حمایت کی۔جنگ کے دوران شام کے شہر تباہ ہوگئے، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے اور انسانی بحران نے پورے خطے کو متاثر کیا۔ اس خانہ جنگی میں داعش جیسے شدت پسند گروپوں کا عروج نے تنازعے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ۔ 2024میں ایک دہائی سے زائد خانہ جنگی کے بعد، بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ اپوزیشن گروپوں نے کامیابی کے ساتھ دمشق پر حملہ کیا، اور بشار الاسد کو اقتدار سے بے دخل کر دیا جس کے ساتھ ہی اسد خاندان کا شام پر پانچ دہائیوں تک کا اقتدار بھی ختم ہو گیا۔بشار الاسد کے زوال نے غیر ملکی طاقتوں کو حرکت میں لایا ہے جو شام میں اپنے مفادات رکھتے ہیں۔ روس اور ایران، جو اسد حکومت کے سب سے بڑے حامی تھے، اب شام میں اپنی پوزیشن پر نظر ثانی کر رہے ہیں۔ ان ممالک کےلئے شام میں فوجی اڈے اور بحیرہ روم کے بندرگاہوں تک رسائی بہت اہمیت رکھتی ہے، اور اسد کے زوال کے بعد ان کی حکمت عملی میں تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ اسد خاندان کا زوال شام کی تاریخ کے ایک دور کا خاتمہ ہے مگر یہ ایک نئے غیر یقینی دور کا آغاز بھی ہے۔ ملک اب بھی جنگ، فرقہ واریت اور غیر ملکی مداخلت کے سنگین اثرات کا شکار ہے۔ اس کے انحطاط کے بعد، ایک نئی سیاسی حکمت عملی کی ضرورت ہوگی جو کہ تمام فرقوں کو شامل کرتے ہوئے قومی یکجہتی کی طرف قدم بڑھائے۔یہ ممکن ہے کہ عالمی برادری شام کی تعمیر نو میں اہم کردار ادا کرے، تاکہ ملک کو تنازعات اور فرقہ واریت سے باہر نکال کر ایک پرامن اور مستحکم ریاست کی صورت میں لایا جا سکے۔ شام کا مستقبل اب بھی غیر یقینی ہے، مگر یہ اس بات پر منحصر ہوگا کہ اس کے رہنما کس طرح ان پیچیدہ مسائل کا حل نکالتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے