ایک میدان جنگ میں ہماری حفاظت کرتے جان دیتا ہے ایک میدان حصولِ حق کی جنگ میں اپنی جان ہمارے لیے قربان کرتا ہے، دونوں قابل عزت و تکریم ہیں ۔ فوجی جوان کسی رینک کسی یونٹ یا پیدل فضایہ یا بحری فورس سے ہو بالکل ایسے ہی سیاسی کارکن کسی پارٹی کسی صوبہ کسی زبان کے بولنے والا ہے قابل تکریم ہے ۔سیاسی کارکن گمنام موت کیوں مر تے ہیں وہ شہید ہو کر عزت کے حقدار اور ان یادگار کیوں نہیں بنتی۔ انکے جنازہ میں وزیر اعظم وزیراعلیٰ سینئر سیاسی قیادت کیوں شریک نہیں ہوتی ۔وہ بھی سیاسی سپاہی ہے ۔ ملک اور معاشرہ کیلئے لڑتا قربانی دیتا ہے ۔ سیاسی کارکن بغیر تنخواہ بغیر پنشن بغیر مراعات کے سردی گرمی بارش طوفان میں نظریہ جمہوریت کیلیے لڑتا ہے ۔سیاسی کارکن اتنا سستا کیوں ؟ سیاسی کارکن غازی کیوں نہیں ہوتا وہ بھی تو عوام کے حق کیلئے لڑتا ہے ۔ سیاسی جماعتیں کیوں اپنے کارکنوں کو انکی خدمات پر میڈل نہیں دیتیں ۔ لیڈر شپ ان کو عزت کیوں نہیں دیتی ۔قیادت ان سے اونچا ہو کر کیوں بیٹھتی ہے ۔ انہی کی وجہ سے تو انکا نام عزت مرتبہ ہے ۔ یہ پوجا چھوڑ دیں یہ آپ کے حکم پر نکلنا چھوڑ دیں آپ پر مرنا آپ کیلئے لڑنا چھوڑ دیں تو آپکی لیڈر شپ اور مقبولیت کہاں ہو گی ۔ کون آپکو ہینڈسم کہے گا کون آپکو میری جان و ایمان تیرے لیے کہے گا ۔ ایک باری پھر تمھارے نام کے نعرے کون بجائے گا ۔ کون تمھارے نام کو زندہ کہے گا ۔سیاسی احتجاجی جلوس پر گولی چلانے یا اس پر تشدد کرنے کا اختیار حکمران یا قانون نفاذ کرنے والے اداروں کے پاس نہیں ہوتا ہے۔ پاکستان کی قانونی نظام میں احتجاج اور آزادیِ اظہار رائے کے حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ حکومت کو احتجاجی جلوسوں کےخلاف تشدد سے گریز کرنا چاہیے۔ حکومت کو احتجاجیوں کے حقوق کی حفاظت کرنا چاہیے۔ پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے کئی فیصلوں میں یہ واضح کیا ہے کہ حکومت کو احتجاجی جلوسوں کے خلاف تشدد سے گریز کرنا چاہیے۔ عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ حکومت کو احتجاجیوں کے حقوق کی حفاظت کرنا چاہیے۔اسکے علاوہ، بین الاقوامی قوانین بھی احتجاجیوں کے حقوق کی حفاظت کرتے ہیں۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے کئی بار یہ کہا ہے کہ حکومت کو احتجاجی جلوسوں کے تشدد سے گریز کرنا چاہیے ۔ یہ فصل تیار کب ہوئی تھی ۔ایوب بھٹو ضیا مسلم لگی دور مشرف پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف کے دور میں ۔ ہر دور کے لیڈر کا پہلا بیان ہی یہی تھی ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے ملک دیوالیہ ہونے والا ہے ۔ سب ملک بچانے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ہر آنے والا دور بدترین صورت حال میں دھکیل کر جانے والوں کو غدار ملک دشمن بتا کر اقتدار میں آتا ہے اور پھر وہی عوام دشمن پالیسیاں ہوتی ہیں عوام ہوتے ہیں ۔ عوام نے ذاتی طور کبھی بھی واضح نہیں کیا کہ اسکی ریاست کیسی ہو ۔ وہ عموماً اپنے ووٹ کا استعمال ایک دوسرے پر لگائے گئے الزامات کی بنیاد پر کرتی چلی رہی ہے ۔یا اسکے لیڈر اسے اپنی دوسروں کی ترقی کے موازنے کی شرح بتاتے چلے آرہے ہیں ۔ عوام کا اپنا مائنڈ سیٹ ہی نہیں ۔ انہیں معلوم ہی نہیں کہ ریاست کیا ہوتی ہے ۔ بنیادی طور پر اللہ نے چار بڑی قوموں کو یہ خطہ زمین الاٹ کیا ۔حالانکہ یہاں بہت سی قومیں بستی ہیں ۔ برادری کی بنیاد پر لوگ الیکشن جیتے رہے ۔ یہ کوئی خاندان نہیں تھے جنہوں شرافت عدل وانصاف آزادی کی روایات کو چھوڑا ہو ۔ اسی وجہ سے برادری کا زور ٹوٹ گیا ۔ اگر اس خطہ زمین میں اسلام نفاذ کرنا ہے تو خاندان جو شرافت اور عدل انصاف اور آزدی کی فکر سے مزین ہیں وہ اسلامی ریاست کھڑی کریں گے جو ایک فلاحی ریاست بنے گی۔اس سسٹم میں رہتے ہوئے کوئی سیاسی فلاحی ریاست کا وعدہ کرتا ہے تو وہ جھوٹ ہے۔وہ محض اقتدار کا بھوکا یا ظالموں کا ایجنٹ ہے آجکل سیاسی تناظر میں پاک فوج کی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس میں کامیابی یا ناکامی زیر بحث آتی رہتی ہے۔ سیاسی رجحانات اپنی جگہ لیکن دہشت گردوں سے جنگ کسی باقاعدہ فوج سے لڑنے کی نسبت بہت طویل، مختلف، صبر آزما اور دشوار ہوتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں کسی سپر پاور کو بھی ایسی جنگوں میں کامیابی نہی ملی۔ آئے روز ہمارے پھول جیسے جری جوان قوم کے لئے اپنی قیمتی جانیں قربان کر رہے ہیں۔ سیاست اور حب الوطنی کو علیحدہ علیحدہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ فوج کی سیاست میں مداخلت ہونا نہ ہونا ایک لمبی بحث ہے، گرچہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے لیکن پھر بھی میں اسکے حق میں کبھی نہیں رہا۔ سیاسی معاملات میں فوج کےخلاف بیشک باتیں کریں لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمیشہ فوج کا ساتھ دیں۔ یاد رکھیں فوجیں اپنے لئے نہی قوم کے لئے جنگیں لڑتی ہیں۔ ہماری فوج سالہا سال سے حالت جنگ میں ہے۔ انکی قربانیوں کو سیاست کی بھینٹ نہ چڑھنے دیں۔ ان کی قدر کریں۔ انہیں حوصلہ دیں۔ سیاسی کارکن اور فوجی اپنے اپنے محاذ پر لڑتے ہیں ۔ اس ملک کیلئے اسی ملک کا شہریوں کیلیے اس ملک کے نظریہ کیلئے دونوں بہت محترم ہیں ۔ دونوں کی جان مال اور عزت قابل تکریم ہے ۔ دونوں ادارے اپنی حدود میں اپنے شہدا اور غازیوں کی بھرپور عزت کریں اور حوصلہ افزائی کریں ۔ حقیقت یہی ہے کہ سیاسی کارکن مقام نہ ملنے عزت اور حق کی عدم ادائیگی کے سبب لیڈر شپ کی کال پر باھر نہیں آتا ۔ کارکن کو عزت دیں کارکن کا خیال کریں اسے محسوس کریں کہ خدا نخواستہ کسی بھی انہونی پر اس کے گھر کا خیال رکھا جائے گا اس کے لواحقین تنہا نہیں رہ جائیں گے تو یقینا کسی عوامی سیاسی حق کی تحریک پر گلیاں سیاسی کارکنوں کے پاں کی دھمک سے لرز اٹھیں گی ۔ ہمیں خود سمجھنا ہو گا کہ اگر ہم ایک دوسرے کی عزت نہیں کریں گے تو دوسرا کوئی ہماری عزت کیوں کرے گا ۔ اگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ میں ہی میں ہوں تو دوسرا بھی تو ایسا ہی سوچتا ہے ۔ اپنی حدود میں اپنے اختیار کو اتنا ہی استعمال کریں جتنا آپکا حق ہے ۔ پھر میں میں کی گردان کم ہو جائے گی ۔ روڈ پر ہم وحشیوں کی طرح گاڑی کا ہارن استعمال کرتے ہیں ۔ روڈ پر پیدل چلتے ہم ذرا خیال نہیں کرتے کہ سامنے سے آنے والے کا بھی حق ہے ۔ ہمیں سنبھلنا ہو گا ۔