کالم

فلسطین اسرئیل جنگ

غزہ اور اسرائیل جنگ بندی معائدہ ہو چکا تھا، لیکن اسرائیل نے دوبارہ جنگ چھیڑ دی اسرائیل کی بد عہدی واضح نظر آرہی ہے اور غزہ میں مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے لیکن اس کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ یا کسی دوسری ریاست کی طرف سے کوشش تک نہیں ہو رہی امریکہ واضح طور پر اسرائیل کی مدد کر رہا ہے امریکہ دھمکیاں بھی دیتا رہا ہے موجودہ امریکی صدر ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ اگر معاہدہ نہ کیا گیا تو غزہ کے ساتھ خطرناک سلوک کیا جائے گا پندرہ ماہ کی خوفناک جنگ کے بعد جنگ بندی معاہدہ ہوا جنگ دو ماہ بند رہی لیکن بعد میں اسرائیل نے دوبارہ حملہ کر دیا امریکی صدر نے غزہ پر قبضہ کرنے کا بھی اعلان کر دیا تھا امریکی صدر کی طرف سے یہ تجویز بھی آئی تھی کہ فلسطینی دوسرے ممالک کی طرف نقل مکانی کر جائیں فلسطینیوں نے یہ منصوبہ مسترد کر دیا اور واضح موقف اختیار کیا کہ اپنے ہی علاقے میں رہائش اختیار کریں گے فلسطینیوں کو غزہ سے نکالنا اسرائیلی منصوبہ تھا، کیونکہ اس طرح اسرائیل غزہ پر بغیر مزاحمت کےآسانی سے قبضہ کر سکتا ہے اسرائیل کئی دہائیوں سے کوشش کر رہا ہے کہ غزہ پر قبضہ کر لیا جائے اسرائیل کا منصوبہ یہ نہیں کہ صرف غزہ پر قبضہ کر لیا جائے بلکہ دیگر علاقوں پر بھی اس کی نظر ہے اسرائیل گریٹر اسرائیل کے نام پر ایک نقشہ بھی ظاہر کر چکا ہے جس میں مشرق وسطی کے کئی ممالک اسرائیل کا حصہ دکھائے گئے ہیں اسرائیل کی ہر ممکن کوشش ہے کہ دیگر علاقہ جات پر بھی قبضہ کر لیا جائے فلسطینی کمزور پوزیشن پر ہیں اور ان کے پاس اسلحہ کی بھی شدید کمی ہےنیز خوراک اور دوسری ضروری چیزیں بھی نایاب ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی فلسطینی مقابلہ کر رہے ہیں اسلحہ نہ ہونے کے باوجود غلیلوں اور پتھروں سےمقابلہ کیا جا رہا ہے فلسطینی شہید ہو رہے ہیں،لیکن پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں اسرائیل جدید سے جدید اسلحہ استعمال کر رہا ہے اور ایسے بم غزہ پر پھینک رہا ہے جس سے انسان ہوا میں اڑتےہوئے نظر آتے ہیں فلسطینی ٹکڑوں میں بکھر رہے ہیں،شہید ہو رہے ہیں، زخمی ہو رہے ہیں،لیکن پھر بھی خالی ہاتھ صرف ایمانی قوت کے سہارے لڑ رہے ہیں اسرائیل کی تو امریکہ اور کچھ دوسری طاقتیں سرعام مدد کر رہی ہیں لیکن فلسطینی اس قسم کی مدد سے محروم ہیں غزہ کو تباہ کر دیا گیا ہےاور گھریلو عمارتیں بھی برباد ہو چکی ہیں،لیکن پھر بھی فلسطینی کھلے آسمان کےنیچےاور خیموں میں زندگیاں گزار رہے ہیں ان کو یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ اگلے پل کیا ہوگا؟کسی بھی وقت کوئی بھی فرداسرائیلی بمباری کا نشانہ بن سکتا ہے چھوٹے چھوٹے بچے قتل ہو رہے ہیں۔لاکھوں انسان موت کے خطرے سے دو چار ہیں اور وہ اس لیے شہید ہو رہے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں پوری دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے غزہ پر صرف بمباری نہیں ہو رہی بلکہ خوراک بھی ختم ہو چکی ہے۔لاکھوں افراد بھوک کی وجہ سے مرنے والے ہیں غزہ کے لیے امداد بند کر دی گئی ہے جو ادارے یاممالک غزہ تک امداد پہنچا رہے ہیں،لیکن اب ان کی امداد کو بند کر دیا گیا ہے چھوٹے چھوٹے بچے تھوڑی سی غذا کے لیے بلک بلک کر رو رہے ہیں خوراک کی کمی کی وجہ سےلاکھوں بچے مر سکتے ہیں اور بڑوں کو بھی خوراک کی کمی ہلاک کر سکتی ہے بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے افسوس اس بات کا ہے کہ اسلامی ریاستیں بالکل خاموش ہیں اور ان کی خاموشی اسرائیل کو مزید حملوں پر اکسا رہی ہے کہنے کو تو او آئی سی کا بھی ایک بہت بڑا ادارہ موجود ہے،لیکن او آئی سی کی طرف سے بھی کوئی مدد نہیں کی جا رہی۔خوراک کے علاوہ ادویات کی بھی اشد ضرورت ہے غزہ پر بہت ہی کڑا وقت گزر رہا ہے بیماریاں بھی فلسطینیوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں کیونکہ ادویات کی بھی قلت ہے پانی اور ایندھن کی کمی بھی فلسطینیوں کی مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے اسلامی ریاستیں فوری طور پر فلسطینیوں کی مدد کریں،ورنہ بہت دیر ہو جائے گی اسرائیلی وزیراعظم کو عالمی عدالت انصاف نے مجرم تسلیم کر لیا ہے مجرم ہونے کے باوجود امریکی صدر سے اسرائیلی وزیراعظم کے تعلقات بہت ہی افسوسناک ہیں اسرائیل کی مسلم دشمنی بہت ہی واضح انداز میں نظر آرہی ہے کسی اصول اور ضابطے کی پرواہ نہیں کی جاتی، یہاں تک کہ اقوام متحدہ سےوابستہ میڈیکل ٹیم کو کچھ دن پہلے نشانہ بنایا گیا۔ایک ایمبولنس پر حملہ کیا گیا اور اس میں سوارپندرہ میڈیکل سے وابستہ افراد کو ہلاک کر دیا گیا۔یہ کھلم کھلا بین لاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے حماس نے ثبوتوں کے ساتھ وضاحت کی کہ ایمبولینس کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا ہے بین الاقوامی برادری سےحماس کی طرف سےاپیل بھی کی گئی ہےکہ نوٹس لیا جائےکہ بین الاقوامی قوانین کو پامال کیا جا رہا ہے طبی ٹیم پر حملہ کرنا ایک بزدلانہ حرکت ہےاور یہ پیغام بھی ہے کہ مظلوموں کی مدد کرنےوالوں کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے غزہ میں جنگ دوبارہ شروع ہو چکی ہے اورغزہ پر قہر برس رہا ہے ۔فلسطینیوں کی مدد کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے فوری طور پر خوراک اور پانی پہنچانا ضروری ہےادویات کی بھی فوری ضرورت ہے۔سب سے پہلے جنگ کو روکنا ہوگا اگر اسرائیل جنگ نہیں روکتا تو فلسطینیوں کاساتھ دیا جائے دوسروں کو چھوڑیے امت مسلمہ کی خاموشی بہت ہی افسوسناک ہے اس بات کا اعتراف کرنا ضروری ہے کہ ایک بڑی تعداد میں غیر مسلم بھی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ جنگ رک جائے ایسے امن پسند افراد خراج تحسین کے مستحق ہیں کئی ممالک اسرائیلی وزیراعظم کو مجرم تسلیم کر چکے ہیں ایسے امن پسند افراد سے بھی اپیل ہے کہ وہ جنگ کو روکنے کی کوشش کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے