کالم

لداخ میں چین بھارت کشیدگی

بھارت نے لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران لداخ کے بلند وبالا علاقوں میں دھرو ہیلی کاپٹروں کا استعمال کرتے ہوئے رات کے آپریشن شروع کردیے ہیں۔ اس اقدام کو خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی فوجی موجودگی اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے تزویراتی ردعمل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جس سے بھارت بوکھلا گیا ہے۔ بھارتی فوج کے پائلٹ اور تکنیکی ماہرین مشن کو یقینی بنانے کے لیے دھرو ہیلی کاپٹروں کا استعمال کر رہے ہیں۔بھارت کے ایک تکنیکی سپروائزر میجر آیوش دیولیال نے پرواز کے لیے ہیلی کاپٹر کوکلئیر کرنے سے پہلے تفصیلی معائنے کی اہمیت پر زور دیا۔ ہر ٹیم اپنے مخصوص نظام کوچیک کرتی ہے اور اس کے بعدہی طیارے کو اڑان بھرنے کے لیے انجینئرنگ افسر سے تصدیق کی جاتی ہے۔ چیتا ہیلی کاپٹر کے پائلٹ میجر امریندر نے کہاکہ بلندو بالا پہاڑی علاقوں میں پرواز کرنا سنگین چیلنج ہوتا ہے۔ رات کے وقت آپ کو گہرائی کا ادراک کم ہو جاتا ہے ، اس لیے ہم اپنے آلات پرہی زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ رات کو ہوائیں بھی تیز چلتی ہیں اس لیے ہمیں ان چیزوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ بھارتی فوج کا نائٹ آپریشن کرنے کا فیصلہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ وہ خطے میں چین کی سرگرمیوں کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ خطے میں چین کی پیش قدمی اور اروناچل پردیش پر اس کے دعوﺅں کے بعد بھارت کے لئے اپنی علاقائی سالمیت کے حوالے سے خدشات بڑھ رہے ہیں۔صورتحال پیچیدہ ہے جس میں متعدد عوامل کارفرما ہیں۔ بھارت کے دفاعی ماہرین چین کے طرز عمل کی طرف اشارہ کرتے ہیں جہاں وہ وقت کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ دشمن کی سرزمین پر پیش قدمی کرتا ہے۔ تاہم غیر جانبدار تجزیہ کار لداخ میں بھارت کی طرف سے سڑک کی تعمیر کو چینی اقدام کے محرک کے طور پر دیکھتے ہیں۔لداخ کے پہاڑی علاقے میں چین اور بھارت کے درمیان سرحد کے قریب مقامی لوگوں نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارتی حکومت نے رواں ماہ کے آغاز میں متنازع علاقوں سے فوجیوں کو واپس بلانے پر رضامندی کے بعد اپنی زمین چین کے حوالے کردی ہے۔ بھارت اور چین کی درمیان 2020 سے مغربی ہمالیہ میں سرحد پار تنازع جاری رہا، تاہم دونوں ممالک نے اعلیٰ سطحی فوجی اجلاسوں میں تناو¿میں کمی کے فیصلے کے بعد گوگرہ ہاٹ اسپرنگس کے متنازع علاقے سے فوجیوں کو واپس بلانا شروع کردیا۔جنگ بندی کے معاہدے کے تحت بفر زونز بھی قائم کیے گئے ہیں جہاں کسی بھی فریق کے فوجیوں کو گشت کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ مقامی لوگوں اور علاقے کے منتخب نمائندوں نے دعویٰ کیا کہ بفر زونز ان علاقوں میں قائم کیے گئے ہیں جو پہلے بھارت کے زیر انتظام تھے۔ہماری فوج ان علاقوں کو خالی کر رہی ہے جو ہرگز متنازع نہیں تھے جبکہ چینی افواج ان علاقوں میں تعینات ہیں جہاں عموماً بھارتی افواج کا گشت ہوتا تھا۔ بھارت نے 2021 کے معاہدے کے دوران پینگونگ جھیل کے آس پاس کے علاقوں سے دستبرداری کے لیے پہلے ہی زمین چھوڑ دی تھی۔ ہم نے پہلے بھی اسی طرح کے خدشات کا اظہار کیا تھا، پینگونگ تسو کے علاقے میں بھی ہماری فوج نے ایک بہت بڑا علاقہ کھو دیا۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ پہلے ہماری تشویش صرف چین کی دراندازی تھی لیکن اب ہماری حکومت خوشی سے ہماری زمین چین کے حوالے کر رہی ہے، اگر بھارت کا رویہ ایسا ہی رہا تو ہم مزید علاقہ کھو دیں گے۔ مقامی لوگ بھی اس دراندازی سے خوفزدہ ہیں کیونکہ انہوں نے بڑے پیمانے پر ایسے علاقے کھو دیے ہیں جنہیں وہ اپنے مویشیوں کے چرانے کےلئے استعمال کرتے تھے، انہیں خدشہ ہے کہ اس سے ان کی روز مرہ زندگی کے اہم ذرائع متاثر ہوں گے ۔ اپوزیشن پارٹی کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے الزام عائد کیا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے 1000 مربع کلومیٹر کا علاقہ بغیر لڑے چین کے حوالے کردیا ہے۔ پینگونگ جھیل کے علاقوں میں پرتشدد جھڑپ کے بعد 5 مئی 2020 کو دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان تناو¿ کا آغاز ہوا تھا، ایک ماہ بعد کشیدگی اس وقت عروج پر پہنچ گئی تھی جب دونوں ممالک کے فوجیوں کے درمیان جھڑپ کے نتیجے میں 20 بھارتی اور 4 چینی فوجی مارے گئے تھے۔تناو¿ شدت اختیار کرنے کے بعد دونوں ممالک نے بھارے ہتھیار سے لیس دسیوں ہزار فوجی متنازع علاقے میں ایک دوسرے کے مقابل تعینات کرنا شروع کر دیے تھے۔ 2020 کا واقعہ بہت بڑا واقعہ تھا ۔ 1962 کے بعد اتنی بڑی تعداد میں فوج کا یہاں آنا لوگوں کے لیے پہلا تجربہ تھا۔ سرحد پر چین کے ساتھ اس طرح کا ٹکراو¿ پہلے کبھی نہیں ہوا۔ پہلے صرف ڈیمچوک اور چومور ایریا میں چینی فوج کا کچھ سٹرکچر ہوتا تھا۔چوشول کے پاس جتنے بھی پہاڑ دکھائی دے رہے ہیں ہر جگہ فوج ہی فوج دکھائی دے رہی ہے ۔ مشرقی لداخ میں جہاں جہاں بارڈر ہے وہاں چین نے فائیو جی ٹاور لگا دیے ہیں۔ یہی نہیں اس نے پینگونگ سو جھیل پر دو پل تعمیر کر دیے ہیں۔ چین 2020 کے بعد سے اس خطے میں بہت زیادہ فوجی تعمیرات میں لگا ہوا ہے۔ اس سے واضح اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس موڈ میں ہے۔لداخ دو بین الاقوامی سرحدوں سے گھرا ہوا ہے۔ مغرب میں پاکستان اور مشرق میں چین۔ 1962 کے بعد چین نے اس خطے میں پہلی بار اتنی بڑی جارحیت کی ہے۔ انھوں نے اس دراندازی میں ہماری بہت سے سرحدی علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ پہلے انھوں نے اپنے چرواہوں کو ہماری چرا گاہوں میں بھیج کر کافی زمین ہڑپ کی۔ لیکن 2020 میں انھوں نے گلوان وادی، ڈیپسانگ، ہر جگہ زمینوں پر قبضہ کیا۔ اس کے بعد پینگونگ سو میں اتنی مداخلت کی، اتنی زمین پر قبضہ کیا کہ اس جانب سے ان کی روشنیاں نظر آتی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے