کالم

مصباح نوید کی افسانہ نگاری

مصباح نوید کے بارے میں میرا علم نہ ہونے کے برابر تھا، پھر بلوچستان کے "کوہ مری ” یعنی ڈاکٹر شاہ محمد مری کے رسالے سنگت میں سال 2019 سے شائع ہونے والی افسانہ نگار کے طور پر پہچان ہوئی۔ان کے افسانوں کا مزاج اور موضوع مختلف اور بسا اوقات مشتعل سا تھا۔ان کی منظر کشی کا انداز ،کردار نگاری کا سلیقہ اور درد شماری کا اسلوب بالکل نیا اور جدا نظر آیا، ایسا محسوس ہوا کہ اس افسانہ نگار کی نیت ٹھیک نہیں ہے ،یہ ضرور کوئی طوفان اٹھائے گی۔ پھر پتہ چلا کہ بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ اردو یعنی اردو دنیا کے روشن خیال اور ترقی یافتہ شعبے کی فارغ التحصیل ہیں۔تعلق پرانے منٹگمری اور نئے ساہیوال سے ہے ۔ اس علاقے سے تعلق رکھنے والی افسانہ نگار اگر خوابیدہ قوم کی نیند میں خلل ڈالنے کا جرم کر رہی ہے تو حیران نہیں ہونا چاہیئے ، بغاوت اور مزاحمت اس خطے کا شعار رہا ہے ۔شاہ محمد مری کی ادارت میں شائع ہونے والے رسالے سنگت کو میں بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی خیال کرتا ہوں۔پاکستان میں روشن خیالی کی شمع کو موسمیاتی تبدیلیوں کے تند خو طوفانوں کے بیج روشن رکھنا ،گویا تاریک طوفانوں کا مذاق اڑانے کے برابر ہے ، اور ڈاکٹر شاہ محمد مری پوری سنجیدگی کے ساتھ اس کام میں مصروف رہتے ہیں۔
اس رسالے میں شائع ہونے والے مصباح نوید کے دو افسانے پڑھنے کے بعد مجھے عالم حیرت سے نکلنے کے لیے کچھ توقف کرنا پڑا۔پھر تیسرا افسانہ سامنے آیا ۔ مردانہ معاشرے میں عورت کو برابر کا انسان سمجھنے کے عوض شکار یا غیر منقولہ جائیداد خیال کرنے کا رجحان رہتا ہے ۔ایسے میں اگر کوئی خاتون برابر کی انسان ہونے کا دعوی کرے ،یا خود کو کمتر ، یکے از اشیائے ضرورت و زیر استعمال ماننے سے انکار کر دے ،تو اسے سادہ لفظوں میں صریحا بغاوت ہی قرار دیا جا سکتا ہے ۔یاد رہے کہ قبل از تقسیم برطانوی ہند کے حکمرانوں کا دستور تھا کہ وہ ریاست کے باغیوں کو عبور دریائے شور یعنی کالا پانی بھیجنے کی سزا دیا کرتے تھے ۔ اب چونکہ ملک میں سفید انگریز کی جگہ کالے انگریزوں کا راج ہے،اس لیے انہوں نے صرف اپنا احساس کمتری مدہم کرنے کے لیے ” کالا پانی” کی جبری جلا وطنی کا دستور باقی نہیں رکھا۔ایک وجہ یہ بھی ہوئی کہ جزائر انڈیمان تک رسائی بھی ختم ہو چکی تھی۔ تو ایسے میں مصباح نوید جیسی باغی طبع افسانہ نگار کو عبور دریائے شور کی سزا دینے کے عوض جہالت کے دریائے شور شرابہ میں جینے اور رہنے سہنے کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ہمارے الجھے ہوئے قدامت پرست معاشرے میں ایک خاتون تخلیق کار کے لیے جینڈر کے جال سے خود کو چھڑا کر لکھنا بڑی اہم اور قابل ذکر بات ہے۔ جہاں خاتون آزاد نہ ہو ؛وہاں اس کے قلم کا آزاد ہونا اور آزاد رہنا حیرت انگیز بات ہے ۔لیکن مصباح نوید کامیابی اور ڈرے سہمے بغیر ایسا کیے جا رہی ہے۔مصباح نوید کا اسلوب بیان ، ڈکشن،اور کردار کا انتخاب کمال کا ہوتا ہے ۔ہمیں عادت ہے کہ افسانوں میں عورتوں کو ہوا میں اچھال اچھال کر کھیلیں اور دانت نکالتے ہوئے لفظی مزے لیں ۔پر مصباح نوید نے مرد کرداروں کی نفسیات کو وہاں سے جا پکڑا ہے جہاں سے نہ وہ ہل سکتے ہیں اور نہ ہی بتا سکتے ہیں کہ” تاو کاکا ” کو زلیخاں کے طعنے نے کہاں کہاں سے اور کہاں کہاں تک مجروح کر دیا تھا۔ہمارے معاشرے کا سب سے ظالم اور حاوی کردار کتنی نازک کونٹھی سے لٹکا ہوتا ہے ۔اسی لیے مصباح نوید کو بے رحم اور قدرے ظالم افسانہ نگار کہنا کچھ غلط نہ ہوگا۔مصباح نوید کے صرف تین افسانے پڑھنے سے یہ حال اور خیال بنا تھا۔پہلا افسانہ جو میرے ہاتھ لگا وہ میجک مرر تھا۔عورت،تلاش ذات، تحقیر اور بدلحاظ طلسمی آئینہ۔مجھے لگا کہ میں اردو کی رجحان ساز اور بے رحم افسانہ نگار کو پڑھنے والا ہوں۔ افسانے میں تین فریق ہیں ، ملکہ یعنی عورت، میجک مرر یعنی صریحا بدلحاظ اور سفاک آیئنہ ، جبکہ تیسرا فریق افسانہ نگار خود ہے ،جس کا قلم لکھتا کم اور چبھتا زیادہ ہے ،جس کا قلم میجک مرر سے بھی زیادہ صاف گو ہے۔ہمارے معاشرے میں کانوں کی تربیت جھوٹ سننے کے لیے کی جاتی ہے، تو پھر ایسے کانوں میں سچ پگھلے ہوئے سیسے کی طرح گرتا ہے ۔مصباح میجک مرر کو انصافی آئینہ ہونے کا طعنہ بھی دیتی ہے "صبر شکر کے درس دیتا یہ آئینہ، انصافی آئینہ، پھر بھی کہیں نہ کہیں سے رتی،تولہ، ماشہ کجی نکال ہی لیتا ہے، کجی ٹیڑھی پسلیوں کی،آئینہ مسکراتے ہوئے گنگناتا ہے: اکو پاسا رکھ نی ہیرے،کھیڑے رکھ یا رانجھا، کیسی بدبختی ہے،من کے موہنجوڈارو سے جس مورتی کو رانجھا جان کر اجالتی ہوں وہ کچھ ساعتوں ہی میں کھیڑے کی سی صورت نکال لیتی ہے،ہلکی سی ھنسی کے ساتھ آئینہ بولتا ہے:رانجھے کہاں! اب تو نسلی کھیڑے بھی نہیں ملتے”مصباح نوید کے تخلیقی مزاج کی شدت اور اس کے زیر استعمال لفظوں کی حدت ایسی باتیں لکھ جاتی ہے، جو سننے میں عجیب ،پڑھنے میں غریب اور ماننے میں دل کے قریب لگتی ہیں ۔معاشرہ ہمیں ہر سچ کو جھوٹ سمجھنے اور ہر جھوٹ کو سچ ماننے کی تربیت دیتا ہے ۔ایسے میں سچ پر جھوٹ کو ، حسن پر قباحت کو اور انسانیت پر جنون کو حاوی دیکھ کر فوری ردعمل گالی کی صورت سامنے آتا ہے ،ویسے بھی گالی کمزور اور بے بس کا آخری ہتھیار ہوتا ہے۔اور ایک طرح سے گالیاں مفلس اور بے آسرا لوگوں کے لیے کسی ہمدرد اور انسان دوست ماہر نفسیات سے کم ثابت نہیں ہوتیں ۔گالی منہ سے تنہا کبھی نہیں نکلتی، طیش اور نفرت کو بھی اپنے ساتھ بہا لے جاتی ہے۔اور پھر پنجابی گالیاں تو ویسے بھی انسانیت کی مشترکہ میراث خیال کرنی چاہئیں۔۔(جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri