کالم

سولہ دسمبر جب مشرقی پاکستان ٹوٹ گیا

گزشتہ سے پیوستہ
شیخ مجیب الرحمان بنگلہ دیش کے وزیراعظم بن گئے۔ بھٹو حکومت نے اے کے نیازی سے تمام اعزازات واپس لے لیے انہیں برطرف کرکے پنشن ضبط کر لی بعد میں انہوں نے سیاسی جماعت بھی بنائی اور بھٹو کے خلاف پی این اے کے جلسوں سے خطاب بھی کرتے رہے۔ وہ کورٹ مارشل کا مطالبہ کرتے رہے لیکن کسی نے دھیان نہ دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اندرا گاندھی کے ساتھ شملہ معاہدہ کرکے اپنے نوے ہزار قیدی انڈیا کی قید سے رہا کروا ئے ۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر اندرا گاندھی نے کہا کہ دو قومی نظریے کو گنگا میں بہا دیا اور ہم نے مسلمانوں سے ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا ۔ شیخ مجیب الرحمان اس نظام کے اندر رہتے ہوہے اپنی قوم کے لیے کچھ حقوق اور ناانصافیوں کا ازالہ چاہتے تھے ان کے ساتھ ٹیبل ٹاکس کے ذریعے کچھ لو اور کچھ دو سے بات ہو سکتی تھی لیکن جب اقتدار کی ہوس اور طاقت کا استعمال حد سے بڑھ جائے تو پھر مذاکرات کے سارے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ آخر کار بین الاقوامی سازشوں کے نتیجے میں ملک ٹوٹ گیا وہ سیاسی کردار جو سانحہ مشرقی پاکستان میں ملوث تھے آہستہ آہستہ اپنے انجام کو پہنچے۔ شیخ مجیب کو انکے گھر دھان منڈی میں قتل کر دیا گیا ۔ اندرا گاندھی کو ان کے سکھ گارڈ نے گولیوں کا نشانہ بنایا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے الزام میں سزائے موت دے دی گئی۔ آج اکاون سال بعد جب بنگلہ دیش سے تقابلی جائزہ لیں تو ہم بہت پیچھے نظر آتے ہیں ۔بنگلہ دیش میں مسلسل سیاسی استحکام چلا آ رہا ہے سوائے چند سالوں کے مارشل لا(جنرل ضیا الرحمن)کے دور کے ۔ ملک کے ادارے اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کر رہے ہیں صنعتی ترقی عروج پر ہے۔ معاشی حالت پاکستان اور اس ریجن کے دیگر ترقی پذیر ممالک سے بہت بہتر ہے۔ بنگلہ دیش کا ٹکا پاکستانی روپے کے مقابلے میں مستحکم ہے۔ ایکسپورٹس اور فارن ریزرو ہم سے کہیں بہتر ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاری بھی آ رہی ہے۔ دنیا بھر کی کساد بازاری کے اثرات اب بنگلہ دیش پر بھی پڑے ہیں ۔پچھلے دنوں مہنگائی کےخلاف عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ پھر بھی حالات اتنے برے نہیں ہیں بنگلہ دیش میں پریس آزاد ہے ۔بنگلہ دیشی بینک سمال انڈسٹری کو فروغ دینے کے لیے عام آدمی پر اعتماد کرتے ہو ے چھوٹے قرضے جاری کرتے ہیں۔ سمال انڈسٹری کو فروغ حاصل ہوا اور عوام میں خوشحالی آئی ہے ۔تعلیم اور صحت پر بھی بہت کام ہوا ہے ۔بنگلہ دیش میں رہنے والے ہزاروں بہاری لوگ ایسے ہیں جو اپنے آپ کو پاکستانی کہتے ہیں وہ ہرسال پاکستان کا یوم آزادی بھی مناتے ہیں انہیں مہاجر کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور کیا جارہا ہے وہ نصف صدی سے کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کی حکومت انہیں مستقل شہریت نہیں دے رہی۔ اس طرح بنیادی حقوق کی سخت خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ ہم ان کالموں میں بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد سے درخواست کریں گے کہ کیمپوں میں رہنے والے بہاریوں کو مستقل شہریت دی جائے اب ان کی کی نسلیں جوان ہو چکی ہیں اور وہ بنگلہ دیش کی معاشی ترقی میں بھرپور کردار اد کر رہی ہیں۔ ہمیں پاکستان کے چاروں صوبوں میں بسنے والے لوگوں کی محرومیوں کا ازالہ کرنا ہوگا۔ خاص طور پر بلوچستان میں جو علیحدگی پسند سر اٹھا رہے ہیں ان سے مذاکرات کرکے قومی دھارے میں لانا ہو گا۔ ورنہ خاکم بدہن افغانستان اور انڈیا تو پہلے ہی موقع کی تلاش میں بیٹھے ہیں۔ بہرحال بنگلہ دیش کے لوگ اب بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri