غیرقانونی طورپر بھارت کا زیر قبضہ جموں وکشمیر خاص طور پر اس کا گرمائی دارالحکومت سرینگر ایک قلعے کا منظر پیش کررہاہے کیونکہ آج انتخابی ڈرامے کا پہلا مرحلہ ہے۔پہلے مرحلہ میں سات اضلاع کے 24 اسمبلی حلقوں میں ہائی سیکوروٹی میں ووٹ ڈالنے کا عمل جاری رہا ۔ وادی کے 16 اسمبلی حلقے جبکہ کے 8 اسمبلی حلقوں میں پہلے مرحلے میں پولنگ ہوئی۔ جموں وکشمیر خاص طور پر اس کا گرمائی دارالحکومت سرینگر ایک قلعے کا منظر پیش کررہاہے کیونکہ آج انتخابی ڈرامے کا پہلا مرحلہ ہے۔سرینگر شہر کو ڈرون پروازوں کے لیے ریڈ زون قرار دیا گیا ہے اور نقل و حرکت اور اجتماع کی آزادی پر پابندیوںسے لوگوں میں تشویش پیدا ہوئی ہے جو مودی حکومت کے جمہوری عمل کے دعوﺅں کے برعکس ہے۔ سرینگر میں بھارتی فورسز کی بھاری تعداد تعینات کی گئی ہے۔انسپکٹر جنرل آف پولیس وی کے بردی نے کہاہے کہ سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔ اہم سڑکوں پر بھارتی فورسز اہلکاروں کو بھاری تعداد میں تعینات کیاگیااور خصوصی چوکیاں قائم کی گئی ہیں۔ بھارتی فوجی گاڑیوں اورمسافروں کی تلاشی لے رہے ہیں اورلوگوں کی نگرانی مزید سخت کی گئی ہے جس سے علاقے میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا ہواہے۔ بھاری تعداد میں بھارتی فوجیوں کی تعیناتی سے علاقہ انتخابات کے بجائے ایک جنگی علاقے کا منظر پیش کررہا ہے جس سے بہت سے لوگ اس عمل کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہیں۔کشمیری اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں جن کا وعدہ اقوام متحدہ نے ان سے کررکھا ہے۔ وہ انتخابات کو محض ایک فریب اور دکھاواقرار دے رہے ہیں جس کا مقصد عالمی برادری کو گمراہ کرنے کے لئے علاقے میں حالات معمول کے مطابق ظاہرکرنا ہے۔مقبوضہ جموں وکشمیرمیں بدھ کو ڈھونگ انتخابات کا پہلا مرحلہ دراصل ایک فوجی شق رہی غیر جانبدار ماہرین اور مقامی لوگ اس عمل کی مذمت کرتے ہوئے اسے ایک بھونڈا مذاق اور فوجی مشق قراردے رہے ہیں۔جبکہ کشمیر کونسل یورپ کے چیئرمین علی رضا سید نے کہا ہے کہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں انتخابی ڈرامے کے ذریعے ایک کٹھ پتلی اسمبلی قائم کرنا چاہتا ہے۔ بھارت علاقے میں دس لاکھ فوجیوں کی موجودگی میں اور آزادی اظہار رائے و آزاد میڈیا پر پابندی کے باوجود اسمبلی انتخابات کروا کر عالمی برادری کو گمراہ کر رہا ہے۔ دوسری جانب بھارت میں حزب اختلاف کی مرکزی جماعت کانگریس نے دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں بی جے پی کی بھارتی حکومت کے اقدامات پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کشمیریوں کے حقوق کی بحالی کا عزم ظاہر کیا ہے۔ پون کھیڑا نے کہا کہ کشمیر خوابوں کا قبرستان بن چکا ہے۔ جبکہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں جدوجہد آزادی کو بدنام کرنے کے لیے بھارت کی جعلی آپریشنز کی ایک تاریخ ہے۔ آٹھ سال قبل اوڑی حملہ اس کی ایک اہم مثال ہے اب دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ پاکستان اور تحریک آزادی کشمیر کو بدنام کرنے کی دانستہ کوشش تھی۔یہ اس طرح کا کوئی پہلا واقعہ نہیںتھا کیونکہ بھارت پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کا جواز پیش کرنے کے لیے ایسے حملے کرتا رہا ہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس نے مودی حکومت کی طرف سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں کرائے جانے والے نام نہاد اسمبلی انتخابات کی مذمت کرتے انہیں ایک بھونڈا مذاق قرار دیا ہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈووکیٹ عبدالرشید منہاس نے سرینگر میں جاری ایک بیان میں کہا کہ ڈھونگ انتخابات اقوام متحدہ کیطرف سے تسلیم شدہ استصواب رائے کا ہرگز متبادل نہیں جسکے ذریعے جموں وکشمیر کے سیاسی مستقبل کا تعین ہونا ہے۔نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں قید کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما شبیر احمد شاہ نے بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں جاری عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں کی شدید مذمت کی ہے۔شبیر احمد شاہ نے نئی دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل سے ایک بیان کہا کہ بھارت نے مقبوضہ جموںوکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی ، کشمیریوں کے تمام بنیادی حقوق سلب کر لیے اور اب نام نہاد انتخابات کا ڈھونگ رچا کر عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر رہا ہے۔جبکہ جموں وکشمیر میں نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے پاس اپنی کامیابیوں کے حوالے سے عوام کو بتانے کیلئے کچھ نہیں لہٰذاانہوںنے کچھ لوگوں کو خاندانی سیاست کا طعنہ دنیا اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔دوسری جانب دارالخیر میرواعظ منزل نے سرینگر کے علاقے چوٹہ بازار میں آتشزدگی کے واقعے میں رہائشی مکانات کے جل کر خاکستر ہونے پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ دارالخیر میر واعظ منزل سرینگر نے تنظیم کے سربراہ میر واعظ عمر فاروق کی طرف سے متاثرہ خاندانوں سے ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ ضلع بارہمولہ کے علاقے اوڑی گرکوٹ گاں کے لوگوں کو پینے کے پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔گرکوٹ کے رہائشیوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ انہیں گزشتہ کئی ہفتوں سے پینے کا پانی میسر نہیں ہے جسکی وجہ سے وہ سخت پریشان ہیں جبکہ انتظامیہ مسئلہ کے حل کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہی۔