کالم

مولانا سید جلال الدین عمری کا سانحہ ارتحال

riaz-chuadary

معروف اسلامی اسکالر اور جماعت اسلامی ہند کے سابق امیر مولانا سید جلال الدین عمری88 برس کی عمر میں انتقال فرما گئے۔ انا للہ وانا الہ راجعون۔ ان کا انتقال قوم وملت کے لئے عظیم خسارہ ہے۔مولانا نے جنوبی ہند کی معروف دینی درس گاہ ’جامعہ دارالسلام عمرآباد‘ سے 1954 ءمیں سندِ فضیلت حاصل کی ۔ مدراس یونی ورسٹی سے فارسی میں منشی فاضل اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے بی ، اے (اونلی انگلش) کے امتحانات پاس کیے۔ جامعہ عمر آباد سے فراغت کے فوراً بعد آپ مرکز جماعت اسلامی ہند رام پور آگئے تھے ۔ آپ نے وہاں کے اصحابِِ علم سے آزادانہ استفادہ کیا پھر 1956ءمیں جماعت کے شعبہ تصنیف سے وابستہ ہوگئے۔ یہ شعبہ 1970 میں رام پورسے علی گڑھ منتقل ہوگیا اور ایک دہائی کے بعد اسے ’ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی‘ کے نام سے ایک آزاد سوسائٹی کی شکل دے دی گئی۔ مولانا اس کے آغاز سے 2001ءتک اس کے سکریٹری ، اس کے بعد اب تک اس کے صدر تھے۔ آپ ادارہ کے باوقار ترجمان سہ ماہی مجلہ’تحقیقات اسلامی‘ کے بانی مدیر بھی رہے ہیں۔ یہ مجلہ اپنی زندگی کے 40/سال پورے کرچکاہے۔ اسی دوران میں آپ نے پانچ سال (1986 تا 1990) جماعت اسلامی ہند کے ترجمان ماہ نامہ زندگی نو نئی دہلی کی ادارت کے فراض بھی انجام دیے۔ مولانا سید جلال الدین عمری مسلسل تین میقات جماعت اسلامی ہند کے امیر رہے۔ پہلی بار 2007 میں ان کا بطور امیر جماعت اسلامی ہند انتخاب ہوا۔ اس سے قبل نائب امیر کے فرائض انجام دیتے رہے۔مولانا عمری کی پوری زندگی تحریک اسلامی کی آبیاری میں گزری۔ آپ کا وطنی تعلق تامل ناڈو سے تھا، لیکن زندگی کا بڑا حصہ شمالی ہند میں گزرا۔ طویل عرصہ تک تصنیفی اکیڈمی علی گڑھ میں خدمات انجام دیں۔ آپ نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو کی بہترین مثال تھے۔ 50 سے زائد کتابوں کے مصنف و بہترین مقرر تھے۔مولانا جلال الدین عمری کا شمار عصر حاضر کے بڑے عالم دین میں ہوتا تھا۔ فی الوقت جماعت اسلامی ہند کی شرعیہ کونسل کے چیئر مین تھے۔ مرحوم کئی روز سے اسپتال میں داخل تھے۔ ڈاکٹروں کی ٹیم کی نگرانی میں انہیں انتہائی نگہداشت والی یوٹ آئی سی یو میں رکھا گیا تھا۔جہاں 26 اگست 2022 ، پونے نو بجے شب ان کا انتقال ہوگیا ۔مولانا عمری نے مختلف پہلوو¿ں سے اسلام کی نمایاں خدمات انجام دی ہیں اور اسلام کی تفہیم و تشریح کے لیے قابل قدر لٹریچر تیار کیا ہے۔ اسلام کی دعوت ، عقائد ، عبادات ، معاشرت ، معاملات اور سیاست پر آپ کی تصانیف سند کا درجہ رکھتی ہیں۔مولانا کی متعدد تصانیف کے تراجم عربی ، انگریزی ، ترکی ، ہندی، ملیالم ، کنڑ ، تیلگو ، مراٹھی ، گجراتی ، بنگلہ اور تمل وغیرہ میں شائع ہوچکے ہیں۔ موضوعات کا تنوع ، استدلال کی قوت ، عقلی اپیل ، فقہی توسع ، زبان وبیان کی شگفتگی اوراعلیٰ تحقیقی معیارآپ کی تحریروں کی نمایاں خصوصیات ہیں۔مولانا عمری کو دورِ طالب علمی سے ہی سے مضمون نویسی سے دل چسپی تھی۔ آپ کا مزاج تحقیقی تھا۔مختلف موضوعات پر آپ کی تقریباً چار درجن تصانیف ہیں۔ ان میں تجلیات قرآن ، اوراقِ سیرت ، معروف و منکر ، غیرمسلموں سے تعلقات اوران کے حقوق ، خدا اور رسول کا تصور اسلامی تعلیمات میں ، احکامِ ہجرت و جہاد ، انسان اوراس کے مسائل ، صحت و مرض اور اسلامی تعلیمات ، اسلام اور مشکلاتِ حیات ، اسلام کی دعوت ، اسلام کا شورائی نظام ، اسلام میں خدمتِ خلق کا تصور ، انفاق فی سبیبل اللہ ، اسلام انسانی حقوق کا پاسباں ، کم زور اور مظلوم اسلام کے سایے میں ، غیراسلامی ریاست اور مسلمان ، تحقیقاتِ اسلامی کے فقہی مباحث جیسی علمی تصانیف آپ کی تراوشِ قلم کا نتیجہ ہیں۔ اسلام کا معاشرتی نظام مولانا کی دلچسپی کا خاص موضوع رہا ہے۔ عورت اسلامی معاشرے میں ، مسلمان عورت کے حقوق اور ان پر اعتراضات کا جائزہ ، عورت اوراسلام ، مسلمان خواتین کی ذمہ داریاں اور اسلام کا عائلی نظام جیسی تصانیف اس کا بہترین ثبوت پیش کرتی ہیں۔ آپ کی کئی کتابیں زیرِ ترتیب تھیں۔ ان کے علاوہ مختلف علمی اور فکری موضوعات پر آپ کے بہ کثرت مقالات ملک اوربیرون ملک کے رسائل اور مجلات میں شائع ہوچکے ہیں۔آپ تقریباً بیس برس سے ملک کے مختلف حصوں میں دعوت کے موضوع پر خطاب کرتے رہے ہیں۔ اس سے الحمد للہ مسلمانوں میں دعوتی جذبہ ابھرا ہے اور دعوتی فضا بنانے میں مدد ملی ہے۔ اس سلسلے کے بعض خطابات شائع بھی ہو چکے ہیں۔علوم اسلامیہ کے مختلف پہلووں پر مولانا عمری کے ہمہ جہت کام کی متعدد خصوصیات ہیں۔بیرونِ ملک کے مختلف دینی اداروں اور تنظیموں کی دعوت پر مولانا برطانیہ، سعودی عرب، کویت، متحدہ عرب امارات، ایران، پاکستان اور نیپال کے بار بار سفر کر چکے ہیں۔ملک کی متنوع دینی ، ملی ، دعوتی اور تحریکی سرگرمیوں میں مولانا عمری کی سرگرم شرکت رہی ہے۔ آپ ایک طویل عرصے تک جماعت اسلامی ہند کی مجلس نمائندگان اور مجلس شوریٰ کے معزز رکن رہے۔ 1990 سے مارچ 2007 تک جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر تھے۔ اس کے بعد مارچ 2019 تک اس کی امارت کی ذمہ داری نبھائی۔ موجودہ میقات میں وہ جماعت کی شریعہ کونسل کے چیرمین تھے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے شخصی قوانین کی حفاظت ومدافعت میں سرگرم آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے نائب صدر ، شمالی ہند کی مشہور دینی درس گاہ جامعہ الفلاح بلریاگنج اعظم گڑھ کے شیخ الجامعہ اور سراج العلوم نسواں کالج علی گڑھ کے سرپرست اعلیٰ تھے ۔ بعض دوسرے علمی اداروں سے بھی آپ کا تعلق تھا۔اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے